مشرق وسطیٰ کا تصادم مذہبی نہیں سیاسی نوعیت کا ہے - ممبئی میں امریکی اسکالر کا بیان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-11

مشرق وسطیٰ کا تصادم مذہبی نہیں سیاسی نوعیت کا ہے - ممبئی میں امریکی اسکالر کا بیان

ایک مشہور و معروف امریکی اسلامی اسکالر پروفیسر بروس لارئنس نے دعویٰ کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اور اسرائیل میں سلطین کے درمیان جاری مذہبی اختلاف کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی نوعیت کا تصادم کہاجاسکتا ہے اور اس کا مقصد اس خطہ پر اپنی برتری برقرار رکھنا ہے۔ پروفیسر بروس لارئنس ایک اسلامی اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی ڈیوک یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے کور فیکلٹی اورپروفیسر ہیں ، جب کہ استنبول کی سلطان محمد واقف یونیورسٹی سے بھی وابستہ ہیں، ممبئی میں اپنے دورے کے دوران بروس لارئنس نے ممبئی میں کئی اہم مسلم شخصیتوں سے ملاقات کی اور تبادلہ خیال کیا، آج کئی اردو صحافیوں اور پھر دارالعلوم محمدیہ مینارہ مسجد میں علمائے کرام سے ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔ اس موقع پر انہوں نے واضح طور پر کہا کہ عراق اور مشرق وسطیٰ میں آئی ایس آئی ایس اور طالبان سے جو امریکہ اور یورپ کی ٹکراؤ جاری ہے وہ سیاسی نوعیت کا ہے اور اسے اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی لڑائی نہیں کہاجاسکتا ہے ، اسرائیل اور فلسطینیوں کی لڑائی بھی سیاسی ہے ۔
پروفیسر لارئنس نے اس بات کا اظہار بلا جھجھک کہا کہ’’وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن مجید ایک الہامی کتاب ہے اور اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے۔‘‘لیکن اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا کو روشن خیالی کو اپنانا ہوگا اور ایک کاسموپولیٹن معاشرے کی تشکیل کرنی ہوگی ، انہوں نے اپنی بات چیت کے دوران البیرونی اور ابن خلدون سے لے کر ایم ایف حسین تک حوالہ دیا ۔ انہوں نے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے حالات پر سیر حاصل گفتگو کی۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپ اور امریکہ میں عوام کی اسلام اور اس کی تعلیمات سے لاعلمی کے کہی اسباب ہیں اور ان میں ذرائع ابلاغ کی اسلام سے بے تعلقی اور اسے منفی انداز میں پیش کرنا ہے ۔ 1991میں سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین میں کمیونزم کے خاتمہ کے ساتھ یورپ اور امریکہ میں اس بات کا اظہار کیاجانے لگا، سرخ دور کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب سبز کی باری ہے اور کئی بڑے اخبارات نے اس قسم کی سرخیاں لگائی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ میں اسلام سے دوری کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے آس پاس اسلامی معاشرہ نظر نہیں آتا ہے اور جو مسلم وہاں موجود ہیں ان کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ایسے علاقوں سے ہے جو بہت زیادہ ماڈرن کہے جاسکتے ہیں۔ پروفیسر لارئنس نے یہ بھی کہا کہ امریکی اس بات سے بھی لاعلم ہیں کہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی کہاں ہے اور ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیاء ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش، اور سری لنکا میں سے زیادہ مذہب اسلام کو ماننے والے آباد ہیں۔
بروس لارئنس گزشتہ تین دہائیوں سے بر صغیر کا دورہ کررہے ہیںِ صوفی ازم پر بھی ان کی اسٹڈی ہے ۔ ایک عرصہ قبل تصوف پر کام کرتے ہوئے میں نے کچھوچھہ شریف کا بھی دورہ کیا ۔ فی الحال وہ قرآن مجید کے ترجمے پر کام کررہے ہیں اور امکان ہے کہ2016ء میں ’’دی قرآن ان انگلش‘‘ شائع ہوگا۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ انہیں عربی اور فارسی پر بھی عبور حاصل ہے ۔ اور ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’ہندستانی زبانوں میں مجھے اردو کافی پسند ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کئی سال میں نے گزارے ہیں اور سرسید احمد خان کو بھی پسند کرتا ہوں۔‘‘ پروفیسر لارئنس نے اس موقع پر سورہ فاتحہ کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کو رب العالمین کہاگیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ رب العالمین کا مطلب ہوتا ہے نہ صرف اس دنیا کا بلکہ ساری کائنات کا مالک ۔ اوراس پر انہوں نے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں پڑھ کر سنایا۔
انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں ، جن میں شاہ رستانی آن انڈین ریجنس ، مورل فاردی ہارٹس( جو کہ نٖظام الدین اولیاء کی بات چیت’’فواد الفواد‘‘ کا ترجمہ ہے ۔’’اے ہسٹری آف دی چشتی برار ہوڈ‘‘ اور دی قرآن اے بائیو گرافی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
دارالعلوم محمدیہ میں مولانا خالد اشرف، مولانا اطہر علی ، مولانا اعجاز کشمیری ، مفتی اختر سلیم، مولانا ظہیر عباس رضوی، مولانا توقل حسین اور دیگر عمائدین موجود تھے ۔ پروفیسر لارئنس کے ہمراہ امریکی قونصلیٹ کی کلچرل امور کی افسر انامیکا چکرورتی ، سینئر کلچر امور کی مشیر تسنیم کالیسکر اور میڈیا ایڈورئزر کیشپ پانڈیا بھی موجود تھے ۔

Middle East conflict is political not religious, American Scholar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں