بچے اپنے والدین سے اگر ان بزرگ ملازمین کی کوئی شکایت کرتے تو وہ ان کی سرزنش نہیں کرتے تھے بلکہ وہ بچوں کو ہی سمجھاتے تھے کہ وہ بڑے ہیں ، انہوں نے آپ کو جو کچھ کہا وہ اچھائی کے لئے کہا ہے۔ انہیں اس کا حق ہے ۔ ہم نے اپنے بچپن میں ایسے ہی ماحول میں پرورش پائی ۔ والدہ کی گود تو مجھ سے بچپن ہی میں چھِن گئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد جس ہستی نے میری پرورش کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھائیں انہیں گھر والے "بڑی بی" کہا کرتے تھے ۔ وہ گھر کی بزرگ تھیں اور میرا بے حد خیال رکھا کرتی تھیں۔ انہوں نے ماں کے بعد مجھے بالکل ماں جیسا پیار دیا۔ ان کی اس محبت کا کوئی جواب نہیں، کوئی مول نہیں ، کوئی مثال نہیں۔ بری باتوں پر ٹوکنا ، روکنا، اچھی باتیں بتانا، کھانے کے آداب سکھانا ، بڑوں کے ادب و احترام سے آگاہ کرنا اور زندگی کا سلیقہ سکھانا ان کا وتیرہ تھا ۔ وہ لوگ باقاعدہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے مگر نہ جانے ان میں یہ رکھ رکھاؤ ، ادب و آداب اور اخلاقی قدروں کی پاسداری کہاں سے اور کیسے آگئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ وہ پیار و محبت سے ان باتوں پر عمل بھی کروا لیا کرتی تھیں۔
انہوں نے ساری عمر ہمارے گھر میں گزاری ۔ ان کے اپنے بچے بھی تھے ۔ وہ "بڑی بی" سے گھر آ کر مل جاتے تھے ۔ وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑتی تھیں کیونکہ امی سے انہوں نے وعدہ کیا تھا ۔ انہوں نے امی جان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کی عدم موجودگی میں بھی اپنا وعدہ نبھایا اور وفاداری کی مثال قائم کی ۔ وہ کبھی کبھار شرارت پر ہماری پٹائی بھی کر دیتی تھیں ۔ اگر ہم ابا جان سے "بڑی بی" کی شکایت کرتے تو وہ ہماری بات پر کان ہی نہیں دھرتے تھے ۔ وہ کبھی ان کی سرزنش بھی نہیں کرتے تھے ۔ وہ کہتے وہ کہ "بڑی بی" تمہیں بہت پیار کرتی ہیں، تم لوگوں کا خیال رکھتی ہیں ، وہ اس گھر کی بزرگ ہیں ۔انہیں پورا حق ہے کہ وہ تمہیں ڈانٹیں ، غلط کاموں سے منع کریں ۔ جب تم بیمار ہوتے ہو تو ساری ساری رات وہ تمہارے سرہانے بیٹھی دعائیں کرتی رہتی ہیں ۔ تمہاری دوا اور غذا کاخیال رکھتی ہیں تو انہیں ہر بات کاحق ہے
۔
یہ خلوص، یہ دعویٰ انہی والدین کا ہوتاتھا جو بہت عزت سے ، احترام سے ان نوکروں کو گھر میں جگہ دیتے تھے ۔ ان کے مشورے مانتے تھے ۔ بچوں کی صحت سے متعلق کھانے پینے میں ان کی مرضی شامل ہوتی تھی ۔ یہ کیسا دور تھا، کیسا زمانہ تھا، وہ خلوص کہاں کھو گیا، وہ لوگ کہاں گم ہوگئے ، وہ پیار اور وہ احترام کہاں غائب ہوگیا ۔ وہ والدین کیوں نہ رہے جو نوکروں پربالکل اپنی ذات کی طرح بھروسہ اور اعتماد کرتے تھے ۔
وہ محبتیں جو ہم ان بزرگوں کو دیتے تھے اس کے جواب میں بےپناہ خلوص اور اعتماد ہمیں ملتا تھا۔ شادی بیاہ کے مواقع پر زیور سنبھالنے کی ذمہ داری ان ہی پر ہوتی تھی۔ دلہن کی رخصتی کے وقت وہ بھی ماؤں کی طرح نصیحتیں کرتی تھیں۔
موجودہ دور میں یہ اعتماد کیوں نہیں رہا؟
نہ جانے یہ قصور کس کا ہے والدین کا یا نوکروں کا؟
کیا ان کے درمیان پیسہ یا لالچ آگیا ہے یا بھروسے اور اعتماد کا فقدان ہے؟
کاش وہ دور لوٹ آئے ، وہ نوکر اپنے خلوص سے دل جیتنے کا عزم کرلیں اور والدین بھی انہیں وہی ماضی جیسا حق دیں!!
بشکریہ: اردو نیوز (سعودی عرب)۔
House maids, such a reliable and loyal characters of the past. Article: Badr Tasadaq
ایک سادہ تحریر مگر دل سوز۔ اس میں مٹھاس ہے, محبت کی خوش گوار حرارت ہے اور شفیق ٹھنڈی چھاؤں ہے۔
جواب دیںحذف کریں