تشکیل تلنگانہ کے 2 ماہ بعد بھی دونوں ریاستوں میں تنازعات برقرار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-07

تشکیل تلنگانہ کے 2 ماہ بعد بھی دونوں ریاستوں میں تنازعات برقرار

حیدرآباد
پی ٹی آئی
متحدہ آندھرا پردیش کی تقسیم اور تلنگانہ کی تشکیل کے2ماہ بعد بھی دونوں ریاستوں کے درمیان تنازعات ہنوز برقرار ہیں ۔ دونوں ریاستیں مختلف مسائل پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرارہی ہیں حالانکہ حساس اور پیچیدہ مسائل ویسے ہی برقرار ہیں جیسے کہ کل تک تھے ۔ درحقیقت حکومت تلنگانہ کواپنے یکطرفہ فیصلوں پر عدالتوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور برہمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود جھکنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ حکومت آندھرا پردیش مسلسل گورنر ای اس ایل نرسمہن سے نمائندگی کررہی ہے کیونکہ ای ایس ایل نرسمہن دونوں ریاستوں کے گورنر ہیں ۔ حکومت اے پی نے کئی مرتبہ تلنگانہ حکومت کے کلاف گورنر سے شکایت کی ہے کہ وہ یکطرفہ فیصلے کررہی ہے۔ حال ہی میں مرکزی وزیر شہری ترقیات ایم وینکیا نائیڈو نے حیدرآباد پہنچ کردونوں چیف منسٹرس سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ آندھرا پردیش کی تنظیم جدید بل کی روح کے مطابق کام کریں اور نفرت پھیلانے کے بجائے تلگو عوام کو جوڑنے کی کوشش کریں ۔ حکومت آندھرا پردیش اس بات پر چراغ پا ہے کہ حکومت تلنگانہ مسلسل تنظیم جدید ایکٹ کی خلاف ورزی کررہی ہے ۔ حکومت اے پی کایہی دعویٰ ہے ۔ آچاریہ این جی رنگا اگر یکلچرل یونیورسٹی اور سری وینگٹیشور ویٹرنری یونیورسٹی کی تقسیم کا مسئلہ بھی حساس بنا ہوا ہے ۔ اگرچہ دونوں یونیورسٹیوں کا ذکر تنظیم جدید ایکٹ کے نویں اور دسویں شیڈول میں موجود نہیں ہے تاہم تلنگانہ حکومت نے دودن قبل احکام جاری کرتے ہوئے ان کی تقسیم اور ان کے نام تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر حکومت اے پی چراغ پا ہوگئی۔ قائدہ کے مطابق ایک ادارہ کا نام اگر شیڈول9اور شیڈول10میں موجود نہیں ہوتا ہے تو وہ خود کار طور پر آندھرا پردیش کے ساتھ برقرار رہے گا۔، اس کی ہیئت یاخدو خال میں تبدیلی لانے کے لئے دونوں ریاستوں میں اتفاق ضروری ہے تاہم حکومت تلنگانہ نے اس سلسلہ میں یکطرفہ فیصلے لے لیے ہیں اور حکومت اے پی نے گورنر سے اپنی شکایت میں انہی باتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ گونر نے گزشتہ ماہ مرکزی وزارت داخلہ کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے دونوں یونیورسٹیوں کے موقف پر مزید وضاحت طلب کی تھی۔ان دواداروں کے علاوہ مزید35ادارے یا تنظمیں ایسی ہیں جن کے نام آندھرا پردیش کی تنظیم جدید ایکٹ کے شیڈول نو اور دس میں شامل نہیں ہیں ۔ذرائع نے بتایا کہ گورنر کے مکتوب پر مرکز نے تاحال کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے ۔ دوسری طرف حکومت تلنگانہ ، حکومت اے پی سے مشاورت کئے بغیر اپنی حصہ داری کے حصول کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ چیف سکریٹری اے پی آئی وائی آرکرشنا راؤ نے یہ معاملہ کل اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ زیر بحث لایا اور فیصلہ کیا۔ کہ یہ معاملہ دوبارہ مرکز سے رجوع کردیا جائے ۔بڑے اداروں جیسے این ٹی آر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس ، سری وینکٹیشور اویدک یونیورسٹی ، اے پی جوڈیشیل اکیڈمی ، اے پی فوڈس ، اے پی ہار ٹیکلچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ، ڈی این اے فنگر پرنٹنگ اور دیگر کئی کی قسمت لٹکی ہوئی ہے ۔ لوک آیوکت ، ریاستی الیکشن کمیشن ، اے پی انفارمیشن کمیشن ۔ اے پی انسانی حقوق کمیشن اور اے پی اڈمنسٹر یٹیو ٹریبونل جیسے اداروں کی تقسیم پر بھی کوئی واضح بات نظر نہیں آتی ۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ جب تک تلنگانہ کے ادارے قائم نہیں ہوجاتے تب تک کے لئے یہ تمام ادارے دونوں ریاستوں کے لئے مشترکہ طور پر کام کرتے رہیں گے ۔ یہ عام فہم بات ہے ۔ اسی دوران ریاستی گورنر نے حکومت اے پی کی تشویش پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے تیقن دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ مستقبل میں حکومت تلنگانہ، آندھرا پردیش کی تنظیم جدید ایکٹ کی خلاف ورزی نہ کرسکے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں