غزہ کی اصل کہانی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-22

غزہ کی اصل کہانی

palestine-israel-land
مستقبل کی فلسطینی ریاست کی کوئی باضابطہ سرحد نہیں ہوگی اور یہ چاروں طرف سے اسرائیل علاقوں سے گھرا ہوا ایک ایسا علاقہ ہوگا جس کی خود مختاری برائے نام ہوگی ۔ اس وقت اسرائیل جو کچھ کررہا ہے اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو غیر معمولی جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ اورسچ تو یہ ہے کہ جانی نقصان برائے نام بھی ہنیں۔ مگر اس سے ہٹ کر ذرا یہ سوچئے کہ یہ پورا معاملہ آخر ہے کیا؟ اسرائیل جو کچھ بھی کررہا ہے وہ صرف اس لئے ہے کہ زیادہ سے زیادہ زمین حاصل کی جائے ۔ اس وقت غزہ کی پٹی میں15لاکھ سے زائد فلسطینی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ کیا انکے والدین ان علاقوں کے باشندے نہیں تھے جہاں اس وقت اسرائیل آباد ہے ؟ یعنی ان لوگوں کو ان کے اپنے آبائی علاقوں سے نکال دیا گیا ۔ اس وقت اسرائیلی علاقے سیدوت میں یہودی رہتے ہیں مگر ماضی میں تو ایسا نہیں تھا ۔ تب وہاں صرف فلسطینی آباد تھے مگر انہیں بے دخل کردیا گیا۔ اس وقت بیشتر عرب جس قصبے میں رہائش پذیر تھے اس کا نام حج تھا اور یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ماضی میں انہی مسلم عربوں نے برطانوی فوج کے خلاف لڑنے والے یہودی انتہا پسندوں (ہگانہ عسکریت پسندوں) کو پناہ دی تھی ۔ اسرائیلی فوج نے مئی کو جب حج پر حملہ کیا تو تمام فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی بھیج دیا ۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بین گوریان نے اس اقدام کو نا انصافی پر مبنی اور بلاجواز قرار دیا تھا ۔ اور اس سے بھی زیادہ بری بات یہ ہوئی کہ حج سے نکالے جانے والے فلسطینیوں کو ان کے گھروں میں دوبارہ آباد ہونے کی کبھی اجازت نہیں دی گئی ۔ الزام یہ ہے کہ غزہ سے سیدوت پرراکٹ داغے جارہے ہیں۔ اسرائیل آئے دن اپنے دفاع کا حق ہونے کا راگ الاپتا رہتا ہے ۔ ٹھیک ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ اگر لندن پر حملہ کردیا جائے اور یہاں کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی بھرپور کوشش کی جائے، انہیں ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جائے تو کیا مزاحمت نہیں کی جائے گی؟ کیا لندن کے لوگوں کو مزاحمت کا حق نہیں ہوگا؟ اور اگر وہ مزاحمت کریں تو کیا انہیں دہشت گرد قرار دیاجائے گا؟ برطانیہ کو کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے ۔ برطانیہ کے دس لاکھ سے زائد باشندے محض چند مربع کلو میٹر پر محیط پناہ گزین کیمپوں میں نہیں پڑے ہیں۔ اسرائیل نے دفاع کے حق کا استعمال کرتے ہوئے ماضی میں بھی ہزاروں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ۔
اگر ڈبلن پر حملہ ہوا ہوتا تو اسرائیلی سفیر کیا کہتا؟ کے عشرے میں شمالی آئر لینڈ کے قصبے کراسمیگلین پر آئرش ری پبلک نے بھرپور حملے کیے مگر آئرش ری پبلکن آرمی نے جواب میں آہیش ری پبلک کو نشانہ نشانہ نہیں بنایا، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا ۔ کینیڈا میں بھی اسرائیل کے حامیوں نے ایک احمقانہ نکتہ اٹھا کر اسرائیل کے حق دفاع کو درست قرار دینے کی کوشش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اوٹاوا، ٹورنٹو یا مانٹریال پر نواحی علاقوں سے حملے ہوں تو کیا جواب ہوگا؟ اس بات پر بھی تو غور کیجئے کہ ان شہروں سے ان کے اصل باشندوں کو دھکیل کر پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیاگیا۔ اب ذرا دریائے اردن کا مغربی کنارہ عبور کیجئے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے پہلے یہ کہا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے اس لئے بات نہیں کریں گے کہ وہ حماس کے نمائندے نہیں۔ پھر یہ کہا کہ محمود عباس سے اس لئے بات نہیں کریں گے کہ انہوں نے حماس کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی ہے ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ محمود عباس سے بات کرنے کو تیار ہیں،اگر وہ(محمود عباس) حماس کو غیر موثر یا ختم کرنے کا بیڑا اٹھائیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ تب بھی وہ حماس کی نمائندگی نہیں کررہے ہوں گے ۔ اسرائیل کے سالہ بائیں بازو کے پروفیسر یوری ایونیری نے(جو خدا کے فضل سے خاصے توانا اور پرجوش ہیں) اسرائیلی حکومت کی طرف سے الاپے جانے والے خلافت کے راگ کو معاملہ اٹھایا ہے ۔ اسرائیلی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا( آئی ایس آئی ایس) عراق اور شام میں خلافت قائم کرنے کے بعد دریاے اردن کے مشرقی کنارے پر بھی خلافت کے قیام کی کوشش کرے گی ۔ اسرائیلی وزیرا عظم کہتے ہیں کہ اگر آئی ایس آئی ایس کو روکا نہ گیا تو وہ خلافت قائم کرتے ہوئے آگے بڑھے گی اور تل ابیب کے دروازے پر بھی دستک دے رہی ہوگی ۔ یوری ایونیری کہتے ہیں کہ یہ خدشہ یکسر بے بنیاد ہے ۔ اگر آئی ایس آئی ایس نے کبھی دریائے اردن عبور کرنے کی کوشش کی تو اسرائیلی فضائیہ اسے تباہ کردے گی ۔ اگر اسرائیل نے مستقبل میں اپنے دفاع کو موثر بنانے کی غرض سے افواج اردن میں رکھنے کی کوشش کی تو مستقبل کی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا ۔
اب سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی ایس اسرائیل کے لئے خطرہ نہیں؟ یوری ایونیری کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایس کسی بھی اعتبار سے حماس جیسی ہے نہ اسرائیل کے لئے خطرہ ہے ۔ اس وقت شام میں حزب اللہ اور آئی ایس آئی ایس کے درمیان لڑائی چل رہی ہے ۔ یہ شیعہ سنی معاملہ ہے۔ ایسے میں اسرائیل کو آئی ایس آئی ایس سے کیوں کر خطرہ محسوس ہوسکتا ہے؟ دوسری طرف بوکو حرام وہ تنظیم ہے جو نائیجیریا کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتی ہے ۔ اس سے اسرائیل کو کوئی بھی خطرہ کیوں کر لاحق ہوسکتا ہے ؟ اسرائیلی وزیرا عظم کے ترجمان مارک ریگیو نے الجریزہ سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ حماس ویسی ہی عسکریت پسند تنظیم ہے جیسی آئی ایس آئی ایس ہے حزب اللہ ہے یا بوکو حرام ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس اور ان تینوں تنظیموں میں بہت فرق ہے ۔ بوکو حرام اسرائیل کے لئے کسی بھی اعتبار سے خطرہ نہیں کیونکہ وہ اس کی حدود سے ہزاروں کلو میٹر دور کام کررہی ہے۔ آپ بات سمجھے یا نہیں سمجھے۔ سیدوت کے چھ ہزار عربوں کو بھول جائے۔ اسرائیلی وزیرا عظم کے ترجمان نے ان کا ناطہ بغداد کے نوری المالکی ، دمشق کے بشار الاسد اور ابوجا کے جوناتھن گڈلک کے خلاف لڑنے والوں سے جوڑ دیا ہے اور اگر دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آئی ایس آئی ایس کے حملے کا خطرہ ہے تو اسرائیلی حکومت اب بھی وہاں اسرائیلی شہریوں کے لئے بستیاں کیوں قائم کررہی ہے؟ یہ سارا ڈرامہ نہ تو فلسطینیوں کے ہاتھوں تین اسرائیلیوں کے قتل کا ہے ، نہ مقبوضہ بیت المقدس میں چار فلسطینیوں کے قتل کا ہے۔ راکٹ اور میزائل سب بھول جائیے ۔ یہ معاملہ ہمیشہ کی طرح صرف زمین کا ہے ۔

The true Gaza back-story that the Israelis aren’t telling this week

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں