اگر ڈبلن پر حملہ ہوا ہوتا تو اسرائیلی سفیر کیا کہتا؟ کے عشرے میں شمالی آئر لینڈ کے قصبے کراسمیگلین پر آئرش ری پبلک نے بھرپور حملے کیے مگر آئرش ری پبلکن آرمی نے جواب میں آہیش ری پبلک کو نشانہ نشانہ نہیں بنایا، عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا ۔ کینیڈا میں بھی اسرائیل کے حامیوں نے ایک احمقانہ نکتہ اٹھا کر اسرائیل کے حق دفاع کو درست قرار دینے کی کوشش کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اوٹاوا، ٹورنٹو یا مانٹریال پر نواحی علاقوں سے حملے ہوں تو کیا جواب ہوگا؟ اس بات پر بھی تو غور کیجئے کہ ان شہروں سے ان کے اصل باشندوں کو دھکیل کر پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیاگیا۔ اب ذرا دریائے اردن کا مغربی کنارہ عبور کیجئے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے پہلے یہ کہا کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے اس لئے بات نہیں کریں گے کہ وہ حماس کے نمائندے نہیں۔ پھر یہ کہا کہ محمود عباس سے اس لئے بات نہیں کریں گے کہ انہوں نے حماس کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دی ہے ۔ اب وہ کہتے ہیں کہ محمود عباس سے بات کرنے کو تیار ہیں،اگر وہ(محمود عباس) حماس کو غیر موثر یا ختم کرنے کا بیڑا اٹھائیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ تب بھی وہ حماس کی نمائندگی نہیں کررہے ہوں گے ۔ اسرائیل کے سالہ بائیں بازو کے پروفیسر یوری ایونیری نے(جو خدا کے فضل سے خاصے توانا اور پرجوش ہیں) اسرائیلی حکومت کی طرف سے الاپے جانے والے خلافت کے راگ کو معاملہ اٹھایا ہے ۔ اسرائیلی حکومت ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے کہ اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ سیریا( آئی ایس آئی ایس) عراق اور شام میں خلافت قائم کرنے کے بعد دریاے اردن کے مشرقی کنارے پر بھی خلافت کے قیام کی کوشش کرے گی ۔ اسرائیلی وزیرا عظم کہتے ہیں کہ اگر آئی ایس آئی ایس کو روکا نہ گیا تو وہ خلافت قائم کرتے ہوئے آگے بڑھے گی اور تل ابیب کے دروازے پر بھی دستک دے رہی ہوگی ۔ یوری ایونیری کہتے ہیں کہ یہ خدشہ یکسر بے بنیاد ہے ۔ اگر آئی ایس آئی ایس نے کبھی دریائے اردن عبور کرنے کی کوشش کی تو اسرائیلی فضائیہ اسے تباہ کردے گی ۔ اگر اسرائیل نے مستقبل میں اپنے دفاع کو موثر بنانے کی غرض سے افواج اردن میں رکھنے کی کوشش کی تو مستقبل کی فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا ۔
اب سوال یہ ہے کہ آئی ایس آئی ایس اسرائیل کے لئے خطرہ نہیں؟ یوری ایونیری کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایس کسی بھی اعتبار سے حماس جیسی ہے نہ اسرائیل کے لئے خطرہ ہے ۔ اس وقت شام میں حزب اللہ اور آئی ایس آئی ایس کے درمیان لڑائی چل رہی ہے ۔ یہ شیعہ سنی معاملہ ہے۔ ایسے میں اسرائیل کو آئی ایس آئی ایس سے کیوں کر خطرہ محسوس ہوسکتا ہے؟ دوسری طرف بوکو حرام وہ تنظیم ہے جو نائیجیریا کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتی ہے ۔ اس سے اسرائیل کو کوئی بھی خطرہ کیوں کر لاحق ہوسکتا ہے ؟ اسرائیلی وزیرا عظم کے ترجمان مارک ریگیو نے الجریزہ سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ حماس ویسی ہی عسکریت پسند تنظیم ہے جیسی آئی ایس آئی ایس ہے حزب اللہ ہے یا بوکو حرام ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس اور ان تینوں تنظیموں میں بہت فرق ہے ۔ بوکو حرام اسرائیل کے لئے کسی بھی اعتبار سے خطرہ نہیں کیونکہ وہ اس کی حدود سے ہزاروں کلو میٹر دور کام کررہی ہے۔ آپ بات سمجھے یا نہیں سمجھے۔ سیدوت کے چھ ہزار عربوں کو بھول جائے۔ اسرائیلی وزیرا عظم کے ترجمان نے ان کا ناطہ بغداد کے نوری المالکی ، دمشق کے بشار الاسد اور ابوجا کے جوناتھن گڈلک کے خلاف لڑنے والوں سے جوڑ دیا ہے اور اگر دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آئی ایس آئی ایس کے حملے کا خطرہ ہے تو اسرائیلی حکومت اب بھی وہاں اسرائیلی شہریوں کے لئے بستیاں کیوں قائم کررہی ہے؟ یہ سارا ڈرامہ نہ تو فلسطینیوں کے ہاتھوں تین اسرائیلیوں کے قتل کا ہے ، نہ مقبوضہ بیت المقدس میں چار فلسطینیوں کے قتل کا ہے۔ راکٹ اور میزائل سب بھول جائیے ۔ یہ معاملہ ہمیشہ کی طرح صرف زمین کا ہے ۔
The true Gaza back-story that the Israelis aren’t telling this week
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں