آئی اے این ایس
فیس باز ادائیگی کے مسئلہ پر آندھرا پردیش اور تلنگانہ دونوں ریاستوں میں چل رہے تنازعہ کے باعث پیشہ وارانہ کالجوں میں تعلیم پانے اور داخلہ حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا تذبذب کا شکار ہیں ۔ رواں ہفتہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے نتیجہ میں31اگست تک داخلوں کے عمل کو پورا کرنے کی ہدایت دی گئی جس کے باعث طلباء کو راحت ملی ہے ۔ فیس باز ادائیگی کے مسئلہ کی عدم یکسوئی کے باعث ہنوز ہزاروں طلباء میں الجھن ہے جو ایمسیٹ انجینئرنگ، اگریکلچر اور میڈیسن کے مشترکہ امتحان میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں ۔ تلنگانہ حکومت کی جانب سے فیس باز ادائیگی اسکیم کے تحت یکم نومبر1956کے مقیم والدین کے بچوں کو ہی معاشی امداد کے فیصلہ نے طلباء کو پریشان کررکھا ہے ۔ جون میں ریاست کی تقسیم کے بعدکئی امور پر دونوں ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ تاہم فیس باز ادائیگی مسئلہ نے سنگین صورت اختیار کرلی ہے ۔ کیونکہ اس سے کئی طلباء کا مستقبل داؤ پر ہے ۔ غیر منقسم حکومت آندھرا نے2008میں اس اسکیم کو متعارف کیا تھا ۔ اس کا مقصد معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے طلباء کی فیس کی ادائیگی تھی ۔ اس سے سرکاری خزانہ پر5000ہزار کروڑ روپے کا بوجھ تھا ۔ اس اسکیم کو ایک بہت بڑا سکام قرارد یتے ہوئے تلنگانہ حکومت نے اسکو برخواست کردیا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ کئی کالجس اور طلباء کا وجود محض کاغذ پر ہے ، اور رقم کا ادعا کررہے ہیں۔ انہوں نے اس کے بجائے نئی اسکیم مالیاتی امداد(فاسٹ) کو تلنگانہ کے طلباء کے لئے متعارف کیا ہے اور واضح کیا کہ حکومت دیگر ریاست کے طلباء کے لئے فیس ادا نہیں کرے گی ۔ اسکیم فاسٹ کے تحت صرف وہی طلباء کومقامی متصور کیاجائے گا جن کے والدین تلنگانہ میں1956سے قیام پذیر ہیں جب کہ تلنگانہ کو آندھرا پردیش میں ضم کیا گیا تھا ۔ کے سی آر کا استدلال ہے کہ آپ اپنے طلباء کی فیس ادا کرو ہم اپنے طلباء کی فیس ادا کریں گے ۔ انہوں نے اپنے ہم منصب چندرا بابونائیڈو کی جانب سے50فیصد فیس کی ادائیگی کی پیشکش کو بھی مسترد کردیا۔ کے سی آر پر تنقید کرتے ہوئے نائیڈو نے کہا کہ وہ کسی اور کی وطنیت کے معاملہ کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ نائیڈو نے کہا کہ وطنیت کا فیصلہ دستور ہند کے مطابق کیاجانا چاہئے ۔انہوں نے ادعا کیا کہ دونوں ریاستوں میں لگ بھگ9لاکھ 50ہزار طلباء متاثر ہیں ۔ اس تنازعہ کے باعث تلنگانہ میں داخلوں کے عمل میں تاخیر کا خدشہ ہے ۔ تلنگانہ حکومت نے سپریم کورٹ میں مرافعہ داخل کیا ہے اوراکتوبر تک داخلوں کی تکمیل کے لئے وقت طلب کیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ طلباء کے امور کی توثیق کے لئے اس کے پاس اسٹاف نہیں ہے۔4 اگست کو سماعت کے دوران سپریم کوٹ نے کہا کہ31اگست تک انجینئرنگ میں داخلوں کے شیڈول کی تکمیل ہونی چاہئے۔ عدالت نے دونوں ریاستوں سے کہا کہ طلباء کے مستقبل پرکوئی سیاست نہیں کی جانی چاہئے ۔ قطعی فیصلہ کا اعلان11اگست کو ہوگا ۔
آندھرا پردیش اسٹیٹ کونسل فارہائیر ایجوکیشن (اے پی سی ایچ ای) نے30جولائی کو داخلوں کے لئے اعلامیہ جاری کیا تھا اور داخلوں کا عمل7اگست سے شروع کیا گیا تاہم تلنگانہ میں اس عمل کا آغاز نہیں ہوا ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پاس طلباء کے صداقتتاموں کی جانچ کے لئے درکار اسٹاف نہیں ہے ۔ سے پی ایس سی ایچ کا استدلال ہے کہ آندھر ا پردیش کے تنظیم جدید قانون2014کے بموجب دونوں ریاستوں میں داخلوں کے عمل کا مجاز ادارہ وہی ہے ۔ اور دونوں ریاستوں میں داخلوں کا عمل اور کوٹہ کاتناسب10سال تک موجودہ حالت میں برقرار رہے گا۔ تلنگانہ حکومت کا کہنا ہے ہے کہ اسے تلنگانہ کے مقامی کالجوں میں داخلوں کا عمل پورا کرنے کا اختیار حاصل ہے اور جہاں تک تلنگانہ کا تعلق ہے سپریم کورٹ میں ہماری درخواست پر فیصلہ کے بعد داخلوں کا عمل شروع کریں گے ۔ اے پی ایس سی ایچ ای کی جانب سے اسی کارروائی کو روکنے تلنگانہ حکومت نے گزشتہ ہفتہ داخلوں کے عمل کو پورا کرنے اپنی ہائیر ایجوکیشن کونسل قائم کی ۔ تلنگانہ حکومت نے واضح کیا کہ حکومت آندھر ا پردیش کے طلباء کے فیس بقایہ جات کو ادا نہیں کرے گی ۔ جنہوں نے گزشتہ سل تلنگانہ میں داخلے حاصل کیے اور فی الحال کورسس کی تکمیل کے مختلف مرحلوں میں ہیں۔ بقایہ جات کا تخمینہ1800کروڑ لگایا گیا ہے ۔ غیر منقسمہ ریاست می نتعلیمی سال2013.14کے دوران مختلف خانگی پیشہ وارانہ اور منجمنٹ کالجوں میں فیس کے بقایہ جات کی رقم لگ بھگ3ہزار کروڑ روپے ادا شدنی ہیں ۔ تقریباً3لاکھ 95ہزار طلباء نے مئی میں متحدہ ریات میں ایمسٹ امتحان میں شرکت کی جن میں سے1لاکھ 86ہزار طلباء نے انجینئرنگ میں اور86ہزار طلباء نے میڈیسن میں کامیابی حاصل کی ۔
Students caught in Telangana-Andhra crossfire
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں