پی ٹی آئی
وزیر اعظم نواز شریف نے صدر ممنون حسین سے ملاقات کے دوران اپوزیشن قائد عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے نتیجہ میں موجودہ سیاسی بحران پر تبادلہ خیال کیا۔ عمران خان اور علامہ طاہر القادری وزیرا عظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ نواز شریف نے ان احتجاجی مظاہروں سے پیدا شدہ بحران کے خاتمہ کے لئے حکومت کی جانب سے کئے گئے اقدامات سے صدر ممنون حسین کو آگاہ کیا۔ انہوں نے صدر اسلامی جمہوریہ کو نظم و نسق کی صورتحال سے بھی باخبر کیا جس میں احتجاجیوں کی جانب سے ریڈ زون پر احتجاجیوں کا حملہ بھی شامل ہے ۔ ریڈ زون میں اہم سرکاری عمارتیں قائم ہیں جن میں پارلیمنٹ ہاؤس، پرائم نمسٹر ہاؤز، پریسڈنٹ ہاؤز اور سپریم کورٹ کے علاوہ سفارتخانے بھی شامل ہیں۔ صدر ممنون حسین نے نواز شریف کو مستعفی نہ ہونے کامشور ہ دیتے ہوئے وضاحت کی کہ وہ ملک کے منتخب وزیر اعظم ہیں ۔ ذرائع نے بتایا کہ صدر نے نواز شریف کو مستعفیٰ ہونے کے بجائے کشیدگی کے خاتمہ اور مسئلہ حل کرنے کے لئے احتجاجیوں کے زیادہ سے زیادہ جائز مطالبات کی یکسوئی کا مشورہ دیا ۔ صدر نے حکومت سے سفارتی علاقہ میں قائم تمام دفاتر اور عمارتوں کی سیکوریٹی کو یقینی بنانے کے اقدامات کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی مشنس اسی علاقہ میں قائم ہیں ۔ پاکستان میں صدر کا عہدہ نمائشی ہے تاہم بحرانی حالات میں اس کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے کہ صدر کو پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کرنے اور عدالت کی جانب سے معلنہ مقررہ سزائیں معاف کرنے کے اختیارات حاصل ہیں ۔ ممنون حسین ، وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ( نواز) سے وابستہ ہیں اور عہدہ صدارت پر تقررانہیں کی نواز ش کا نتیجہ ہے ۔ دریں اثناء نواز شریف نے سابق صدور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ٹیلیفون پر بات چیت کی ۔ جیو نیوز نے یہ اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ دونوں قائدین کے درمیان موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے آزادی مارچ اور علامہ طاہر القادری کی زیر قیادت پاکستانی عوامی تحریک کے انقلاب باد مارچ پر بھی بات چیت ہوئی۔ رپورٹ میں شریف اور زرداری کے حوالہ سے یہ بھی بتایا گیا کہ دونوں قائدین اس بات پر متفق ہوئے کہ دستور عمل کے وقار سے سمجھوتہ ناممکن ہے ۔ حکومت پاکستان کے نمائندہ مذاکرات کاروں اور حکومت مخالف احتجاجی قائدین کے درمیان آج ایک اجلاس مقرر ہے جس میں ایک ہفتہ سے جاری سیاسی بحران کا حل تلاش کرنے اور معاہدہ طے کرنے پر بات چیت ہوگئی ۔، پارلیمنٹ ہاؤز کے محاصرہ کا خاتمہ بھی سیاسی مسائل کے خاتمہ کا ایک حصہ ہے ۔ پاکستانی حکومت کے مذاکرات کا ر ایک ہفتہ سے جاری سیاسی بحران کے خاتمہ کے لئے آج دوسری بار عمران خان اور طاہرالقادری سے ملاقات کریں غے ۔ مفاہمت کا اشارہ اس بات سے ملتا ہے کہ طاقتور فوج نے اس معاملہ میں مداخلت سے صاف انکار کرتے ہوئے فریقین کو با معنی و نتیجہ خیز بات چیت کا مشورہ دیا ہے ۔ فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم کے برادر خرد شہباز شریف سے اس موضوع پر کھل کر بات چیت کی۔ شہباز شریف نے گزشتہ2دنوں میں آج دوسری بار فوجی سربراہ سے ملاقات کی اور اس دوران عوامی احتجاج پر تبادلہ خیال کیا ۔ 5رکنی سرکاری ٹیم نے گزشتہ شب خان کی پارٹی کی6رکنی ٹیم کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کی تاہم شریف کے استعفیٰ پر بات چیت پیشرفت سے محروم رہی ۔ خان کے قریبی معاون شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ دونوں ٹیمیں آج دوبارہ گفت و شنید میں حصہ لیں گی ۔ عمران خان نے قبل ازیں یہ واضح کیا تھا کہ پہلے نواز شریف مستعفی ہوں پھر بات چیت کا مرحلہ شروع ہوگا ۔ انہوں نے تاہم بعد ازاں اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے گفت و شنید پر آمادگی ظاہر کی ۔ دریں اثناء ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ عمران خان کا احتجاج اپنی آخری حد کو پہنچ چکا ہے اور اگر احتجاجیوں نے ریڈ زون پر حملہ اور علاقہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو فوجیوں کا سامنا ہوگا۔
--
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں