آئی اے این ایس
ملک بھر سے مرد حضرات کے حقوق کی نمائندگی کرنے والے زائد از100گروپوں کے کارکنوں کی دو روزہ کانفرنس نے مرد حضرات کی بہبود کے لئے ایک علیحدہ وزارت اور ایک ویلفیئر کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے ۔ و نیز ان کارکنوں نے قانون تعزیرات ہند کی دفعہ498Aکی برخاستگی کی بھی مانگ کی ہے۔ کانفرنس میں140کارن شریک ہیں جن میں5خاتون کارکن بھی شامل ہیں۔ کانفرنس نے صنفی مساوات پر مبنی قوانین کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ خاندان بچاؤ تحریک کے موضوع پر منعقدہ اس کانفرنس کے ایک اہم منتظم کمارجا گیردار نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ’’اب وقت آچکا ہے کہ صنفی مساوات پر مبنی قانون ڈھانچہ بنایا جائے ۔ اس کانفرنس کا بنیادی ایجنڈہ مرد حضرات کے خلاف جانبداری کے سارے سسٹم کو پاک کرنے کے اقدامات تجویز کرنا ہے اور حکومت پر یہ دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ صنفی مساوات پر مبنی قوانین وضع کرے۔ کانفرنس میں شریک کارکنوں نے حکومت کو وارننگ دی کہ خواتین کے تعلق سے مثبت امتیاز کے بھیس میں مرد حضرات کے حقوق کی پامالی کو اب برداشت نہیں کیاجائے گا ۔‘‘ کانفرنس کی ترجمان برکھا تیہن نے بتایا کہ’’ یہ متواتر چھٹویں کانفرنس ہے ۔ آئندہ کانفرنس ممبئی منعقد ہوگی ۔ ملک بھرمیں اب ہمارے کارکنوں کی تعداد40ہزار سے زیادہ ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ قوانین ، صنفی جانبداری پر مبنی ہے ۔ موجودہ قانونی ڈھانچہ کا جھکاؤ ، شدید طور پر لڑکیوں کے حق میں ہے جو رقم بٹورنے کے لئے قانونی دفعات کا غلط استعمال کررہی ہیں اور جھوٹے الزامات کے ذریعہ سارے خاندان کو تباہ کررہی ہیں۔ بیرون ملک رہنے والے افراد کو ایسے کیسس میں بلا وجہ پھنسایاجارہا ہے ۔80تا90برس کی عمر کے ضعیف لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا اور ان کی اہانت کی گئی ہے۔
آج ملک میں خاندان کو توڑنے والے قوانین کی بہتات ہے ۔ این سی آر بی کے ڈاٹا کے بموجب زائد از80فیصد مقدمات جھوٹے ہیں ۔ اس لئے ہم دونوں صنفوں یعنی مردو خواتین کے لئے ہمہ گیر پالیسیوں کی مانگ کرتے ہیں۔ جینڈر ہیومن رائٹس سوسائٹی کے سکریٹری این شیکھر داس نے بتایا کہ اب وقت آچکا ہے کہ مرد حضرات کو ایسے گھریلو تشدد سے بچایا جائے جس میں جسمانی تکلیف تو نہیں ہوتی لیکن یہ نفسیاتی اور جذباتی’’ہتھیار چار‘‘ ہوتا ہے جس سے ارکان خاندان پر زبردست ذہنی بوجھ پڑتا ہے اور اس خاندان کی صلاحیت زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ کمار جاگیردار نے بتایا کہ کارکنوں کے ایک وفد نے دہلی میں سینئر بی جے پی قائدین سے ملاقات کی اور(قریبی دہشت گردی سے مرد حضرات کو بچاؤ)) یعنی سمیتا(SMITA) قانون وضع کرنے کا مطالبہ کیا ۔ شیکھر داس نے کہا کہ 2013میں بہوؤں کے تعلق سے ظلم پر گرفتار شدگان کی تعداد8لاکھ33ہزار454رہی۔ ان میں سے 17,542یعنی16فیصد افراد خاطی قرار پائے ۔ ’’تو پھر84فیصد افراد کو سزا دینے، ان کی زندگیان تباہ کرنے ، امن اور نیک نامی کو بٹ الگانے میں کیا معقولیت ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ حکومت مرد حضڑات کی خود کشیوں کے واقعات کی مناسب سائنٹفک اسٹڈی کرے تاکہ مرد حضرات پر پڑنے والے سماجی دباؤ کا اندازہ لگایا جاسکے ۔ ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ہر 9منٹ پر ایک شخص خود کشی کرتا ہے ۔ یہ شرح خواتین کی (خود کشی) کی شرح سے تقریباً دگنی ہے ۔’’ اس لئے ہم مرکزی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ موجودہ قوانین پر نظر ثانی کرے اور بلا شرکت غیرے مرد حضرات کی بہبود کے لئے ایک علیحدہ وزارت قائم کرے ۔ دو روزہ کانفرنس نے عائلی قوانین کی دفعات کے غلط استعمال کرنے والوں کو سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا۔
Men Harassed by Women Want Separate Ministry
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں