احمدآباد
(پریس ریلیز)
حیدرآباد کے مشہور عالمِ دین مولانا مفتی عبدالقوی کو آج گجرات ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیدیا، وہ گزشتہ 6ماہ سے گجرات کے سابر متی جیل میں قید تھے۔ گزشتہ 26 اگست کو ہائی کورٹ میں ان کی درخواست ضمانت پرحتمی سماعت عمل میں آئی تھی، جس پرہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ آج عدالت نے اپنا وہی محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جس میں مولانا موصوف کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ۔
واضح رہے کہ مولانا عبدالقوی کو اسی سال 23مارچ کوگجرات پولیس نے دہلی ایئرپورٹ سے اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ حیدرآباد سے دیوبند کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے دہلی ایئرپورٹ پر پہونچے تھے ۔پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کے بعد ہرین پانڈیا قتل معاملے میں باعزت بری ایک ملزم کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا اور ان پرملک کے خلاف سازش، دہشت گردی، قانونِ اسلحہ نیز یواے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت معاملہ درج کیا ۔ واضح رہے کہ ہرین پانڈیا قتل معاملے میں کل 98 لوگوں کو نامزد کیا گیا تھا ، جس میں سے پولیس کے ذریعے56 لوگوں کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ ان میں سے 10افراد کو پوٹا روویو کمیٹی نے رہا کردیا تھا، جبکہ 22 لوگوں کو خصوصی پوٹا عدالت نے باعزت بری کردیا تھا، انہیں باعزت بری ہونے والوں میں وہ ملزم بھی تھا جسے پناہ دینے کا مولانا عبدالقوی پر الزام عائد کیا گیا تھا۔
گجرات ہائی کورٹ میں جسٹس دوے اورجسٹس مہند رپال کی بنچ کے روبرو مولانا کی درخواستِ ضمانت پر 26 اگست کو حتمی سماعت کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے سپریم کورٹ کے نامور وکیل ایڈوکیٹ محمود پراچہ ، ان کے معاون ایڈووکیٹ تہور خان اور ایڈووکیٹ الیاس پٹھان نے مولانا کی بے قصوری اور غلط طریقے سے گرفتاری کو کئے جانے کو عدالت کے روبرو نہایت مضبوطی سے پیش کیا تھا۔ ایڈووکیٹ محمود پراچہ نے عدالت کو بتایا کہ مولانا عبدالقوی کے کے خلاف پولیس نے جو ثبوت پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ B-33 گواہ نے پولیس کے روبرو اپنی گواہی میں مولانا عبدالقوی نا م لیا تھا ، وہ بھی اس صورت میں کہ اسے کسی نے اسے خبر دی تھی کہ حیدرآباد میں ایک میٹنگ ہوئی تھی اور اس میں کچھ لوگ شامل تھے۔ اسی گواہ نے بعد میں عدالت کے روبرو یہ بیان دیا کہ پولیس نے اسے زدوکوب کرکے مولانا کے خلاف گواہی لی تھی۔پولیس نے اسی گواہ کے بیان کی بنیاد پر مولانا کے خلاف دہشت گردی سے لے کر بغاوت تک اور دھماکہ خیز اشیاء رکھنے سے لے کر ملک کے خلاف جنگ تک کامقدمہ درج کیا تھا۔
دفاعی وکیل ایڈووکیٹ تہور خان کے مطابق مولانا کا کیس اس قدر واضح تھا کہ عدالت کے روبرو جیسے ہی اس کے قانونی نکات پیش کئے گئے ، عدالت نے اس سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کی بے قصوری کے بے شمار دلائل کے باوجودوکیل استغاثہ پانچال کی جانب سے ضمانت دیئے جانے کی مخالفت کی جاتی رہی، جس پر عدالت نے اپنی برہمی کا بھی اظہار کیا۔
دفاعی وکلاء کے مطابق پولیس نے مولانا کو 2004 میں جاری وارنٹ کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا،جبکہ اس کے پاس مولانا کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ مولانا کی درخواستِ ضمانت کو خصوصی پوٹا عدالت نے دوبار نامنظور کردیا تھا۔ بالآخر جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے دفاعی وکلاء نے ہائی کورٹ میں درخواستِ ضمانت داخل کی ، جہاں پر سماعت کے بعدہائی کورٹ نے مذکورہ بالا فیصلہ دیا ہے۔
مولانا عبدالقوی کے مقدمے کی پیروی کرنے والی جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا حافظ ندیم صدیقی نے کہا کہ ہم نے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کے حکم کے مطابق دہشت گردی کے مقدمات کی مفت قانونی پیروی شروع کی ہے ، جس میں اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے۔ انہوں نے گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ ہم کامیاب ہونگے، کیونکہ مولانا بے قصور ہیں، انہیں گجرات پولیس کے ذریعے غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا کی گرفتاری کے بعد سے ہی ہم اس معاملے کی پیروی کررہے ہیں، خصوصی پوٹا عدالت میں ہمیں کامیابی نہیں ملی، مگر ہم نے اس معاملے کو گجرات ہائی کورٹ میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وکلاء نہایت لگن اورتندہی کے ساتھ معاملے کی پیروی کررہے ہیں اور انشاء اللہ مولانا عبدالقوی بہت جلد تمام الزامات سے باعزت بری ہوجائیں گے۔
یو این آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب مشہور عالم دین مولانا مفتی عبدالقوی کو آج گجرات ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ۔ گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈیا قتل معاملے میں جملہ56افراد کی گرفتاری عمل میں آئی تھی ۔ ان میں سے10افراد کو پوٹا ریوویو کمیٹی نے رہا کردیا تھا، جب کہ22افراد کو خصوصی پوٹا عدالت نے باعزت بری کردیا تھا،باعزت بری ہونے والوں میں وہ ملزم بھی تھا جسے پناہ دینے کا مولانا عبدالقوی پر الزام عائد کیا گیا تھا ۔ گجرات ہائی کورٹ کی ڈیویژن بنچ نے مولانا کی درخواست کی سماعت کی اور انہیں50ہزار روپے کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ عدلات نے مولانا سے کہا کہ وہ اپنا پاسپورٹ عدالت کے حوالے کرے اور مہینہ میں ایک مرتبہ احمد آباد سٹی کرائم برانچ کے دفتر پر حاضری دیں ۔ گجرات ہائی کورٹ میں جسٹس دوے اور جسٹس مہندر پال کی بنچ کے روبرو مولانا کی درخواست ضمانت پر26اگست کو حتمی سماعت کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے سپریم کورٹ کے نامور وکیل ایڈوکیٹ محمود پراچہ، ان کے معاون ایڈوکیٹ تہور خان اور ایڈو کیٹ الیاس پٹھان نے مولانا کی بے قصوری اور غلط طریقے سے گرفتاری کو کئے جانے کو عدالت کے روبرو نہایت مضبوطی سے پیش کیا تھا ۔ ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے عدالت کو بتایا کہ مولانا عبدالقوی کے خلاف پولیس نے جو ثبوت پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہB33گواہ نے پولیس کے روبر و اپنی گواہی میں مولانا عبدالقوی نام لیا تھا ، وہ بھی اس صورت میں کہ اسے کسی نے اسے خبر دی تھی کہ حیدرآباد میں ایک میٹنگ ہوئی تھی اور اس میں کچھ لوگ شامل تھے ۔
اسی گواہ نے بعد میں عدالت کے روبرو یہ بیان دیا کہ پولیس نے اسے زدوکوب کرکے مولانا کے خلاف گواہی لی تھی۔ پولیس نے اسی گواہ کے بیان کی بنیاد پر مولانا کے خلاف دہشت گردی سے لے کر بغاوت تک اور دھماکہ خیز اشیاء رکھنے سے لے کر ملک کے خلاف جنگ تک کا مقدمہ درج کیا تھا ۔ دفاعی وکیل ایڈوکیٹ تہور خان کے مطابق مولانا کا کیس اس قدر واضح تھا کہ عدالت کے روبرو جیسے ہی اس کے قانونی نکات پیش کئے گئے ، عدالت نے اس سے اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کی بے قصوری کے بے شمار دلائل کے باوجود وکیل استغاثہ پانچال کی جانب سے ضمانت دئیے جانے کی مخالفت کی جاتی رہی ۔ جس پر عدالت نے برہمی کا بھی اظہار کیا ۔ دفاعی وکلاء کے مطابق پولیس نے مولانا کو2004میں جاری وارنٹ کی بنیاد پر گرفتار کیا تھا ، جب کہ اس کے پاس مولانا کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ مولانا کی درخواست ضمانت کو خصوصی پوٹا عدالت نے دوبارنامنظور کردیا تھا۔ بالآخر جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے دفاعی وکلاء نے ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت داخل کی ، جہاں پر سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے مذکورہ بالا فیصلہ دیا ہے ۔ مولانا عبدالقوی کے مقدمے کی پیروی کرنے والی جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا حافظ ندیم صدیقی نے کہاکہ ہم نے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کے حکم کے مطابق دہشت گردی کے مقدمات کی مفت قانونی پیروی شروع کی ہے ۔ گجرات پولیس نے2003میں درج کئے گئے آئی ایس آئی سازشی مقدمہ میں انہیں ملوث بتا کر ان کے خلاف فرد جرم عائد کیا تھا۔ احمد آباد کی پوٹا عدالت نے مولانا کی درخواست ضمانت رد کردی تھی ۔ خصوصی پوٹا عدالت کی اڈیشنل پرنسپل جج گیتا گوپی نے2جولائی 2014کو ان کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کردیا تھا ۔ پوٹا عدالت سے راحت نہ ملنے پر مولانا نے ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی ۔ ہائی کورٹ میں مولاناکے وکلاء محمود پراچہ ، تہور خان ، ایم اے سعید اور دوسروں نے گجرات پولیس کے لگائے گئے الزامات کو غلط قراردیا۔ گجرات پولیس نے مولانا کو2003کے مقدمہ میں ملوث کرتے ہوئے انہیں گزشتہ11سال سے مفرور بتانے کی کوشش کی ۔ مولانا کے وکلاء نے عدالت کے سامنے دستاویزی ثبوت رکھتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ مولانا کبھی فرار نہیں ہوئے۔ گجرات پولیس نے اس مقدمہ میں ایک شریک جرم کے بیان کا حوالہ دیا جس پر مولانا کے وکلاء نے کہا کہ جس شریک جرم کا پولیس حوالہ دے رہی ہے اس نے اپنا بیان بہت پہلے بدل دیا ہے ۔
ISI conspiracy: Gujarat HC grants bail to Hyderabad cleric Abdul Qavi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں