ہند و پاک معتمدین خارجہ کی بات چیت کی منسوخی کے لئے علیحدگی پسندوں پر الزام غلط - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-08-24

ہند و پاک معتمدین خارجہ کی بات چیت کی منسوخی کے لئے علیحدگی پسندوں پر الزام غلط

نئی دہلی
پی ٹی آئی
صدر نشیں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ( جے کے ایل ایف) یسین ملک نے آج وزیر اعظم نریندر مودی پر کشمیر کے تعلق سے ان کے ’’سخت گیر رویہ‘‘ پر تنقید کی اور اس استدلال کو مسترد کردیا کہ ہند۔ پاک معتمدین خارجہ کی بات چیت کی منسوخی کے لئے علیحدگی پسند(عناصر) ذمہ دار ہیں۔ ملک نے انڈیا ٹی وی چیانل پر رجت شرما کے شو’’آپ کی عدالت‘‘میں سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستانی عہدیداروں سے کشمیر ی(علیحدگی پسند)قائد ین کی ملاقاتیں ایک 24سالہ روایت ہیں ۔ جب کبھی پاکستان کے وزیر اعظم یا وزیر خارجہ ، ہندوستان کا دورہ کرتے ہیں تو ہم ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے(ہند۔ پاک) امن مساعی کو بگاڑا ہے ۔ اس کے برعکس، ہم امن مساعی کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ تمام فریقین اپنے نقاط نظر کا اظہار کرسکیں ۔ ہم کوئی فریق ثالث نہیں ہیں۔ کشمیریوں کو ایسی کسی بھی بات چیت میں شامل کرنا ہوگا جو ان کے مستقبل سے متعلق ہے۔ یٰسین ملک نے کہا کہ وزیر اعظم ’’ہم کو‘‘ کوئی سفارتی یا سیاسی مقام دینے والے نہیں ہیں۔ چونکہ نریندر مودی نے ایک سخت گیر طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کشمیر میں ہم تیار ہیں اورہماری تحڑیک کو مستحکم کریں گے ۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ یٰسین ملک ، حریت کانفگرنس قائدین سید علی شاہ گیلانی ، شبیر شاہ اور میرواعظ عمر فاروق نے ہندوستان کے احتجاج کے باوجود اس ہفتہ دہلی میں ہائی کمشنر پاکستان سے ملاقات کی تھی ۔ اس سبب ایک سفارتی نزاع پیدا ہوگیا جب اسلام آباد میں آئندہ25اگست کو ہونے والی ہند۔ پاک معتمدین خارجہ کی بات چیت کی منسوخی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔
یٰسین ملک نے کہا کہ وہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی تھے جنہوں نے نومبر2000میں رمضان میں جنگ بندی کے بعد کشمیری علیحدگی پسند قائدین کو پاکستان جانے کی اجازت دی تھی تاکہ پر امن مذاکرات کے لئے ایک ماحول پیدا کیا جاسکے ۔ آئی اے این ایس کے بموجب یٰسین ملک نے کہا کہ اس وقت کے وزیر اعظم ہند منموہن سنگھ پاکستان کے عسکریت پسندوں سے ربط قائم کرنا چاہتے تھے ۔ وزارت عظمیٰ پر منموہن سنگھ کے فائز ہونے کے2سال بعد2006میں انہیں یہ درخواست دی گئی تھی ۔ منموہن سنگھ ہند۔ پاک امن مساعی کا غے بڑھانے ایسے روابط چاہتے تھے ۔ میں نے2006میں منموہن سنگھ سے ملاقات کی تھی اور ان سے کہا تھا کہ حکومت امن مذاکرات میں عسکریت پسند قیادت کو شریک کرے ۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اس سلسلہ میں انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔ قائد جے کے ایل ایف نے بتایا کہ جب وہ پاکستان میں’’آزاد کشمیر‘‘ گئے تھے تو انہوں نے وہاں لشکر طیبہ کیمپ کا دورہ کیا اور حافظ سعید نے وہاں ایک تہنیتی تقریب منعقد کی ۔ ‘‘میں نے وہاں لشکر کیڈر سے خطاب کیا ۔ جے کے ایل ایف لیڈر نے یہ تفصیلات نہیں بتائیں کہ آیا انہوں نے پاکستان میں عسکریت پسندوں سے ربط قائم کیا تھا یا نہیں، جس کی خواہش مفروضہ طورپر منموہن سنگھ نے کی تھی ۔ جموں و کشمیر کے تعلق سے جے کے ایل ایف کی پالیسی کے بارے میں ایک سوال پر یٰسین ملک نے کہا کہ’’ ہندوستان‘‘ کشمیر کو اپنا اٹوٹ حصہ اپنا تاج سمجھتا ہے جب کہ پاکستان اس کو اپنی شہ رگ سمجھتا ہے ۔‘‘ ہماری پارٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ کشمیریوں کا کام ہے کہ وہ جمہوری طور پر اپنے مقدر کا فیصلہ کریں۔ ہماراسیاسی یقین ہے کہ ہم آزادی چاہتے ہیں ۔ ہندستان کے عوام نے مودی جی کو زیر اعظم منتخب کیا ہے اور اب وہ ایک سخت گیر طریقہ اپنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں ۔ ہم کشمیر میں( اسکا سامنا کرنے)تیار ہیں ، اور اپنی تحریک کو مستحکم کریں گے ۔ اب جب کہ مودی جی آچکے ہیں ہمارے لئے یہ آزمائش کا وقت ہے ۔ ہمارے لئے(یہاں) سخت دن ہیں۔ انشاء اللہ ہم اس آزمائش سے گزر جائیں گے ۔ ‘‘یٰسین ملک نے کہا کہ’’تنازعہ میں کشمیری عوام بڑے فریق ہیں لیکن وزارت خارجہ نے اب یہ استدلال پیش کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر صرف ہندوستان اور پاکستان ہی فریق ہیں۔ مودی جی کو ہمارا پیام ہے کہ آپ بہتر حکمرانی دے سکتے ہیں لیکن سخت گیر طریقہ اپناتے ہوئے آپ کسی تحریک کو ختم نہیں کرسکتے ۔‘‘میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے جہاں دونوں ممالک بیٹھ کر کشمیر کے مقدر کے بارے میں فیصلہ کریں ۔ یہ بات کشمیریوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔ ہمارے اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے ہمارا جائز جمہوری حق ہے ۔ کشمیریوں کے مقدر سے متعلق کسی بھی بات چیت میں کشمیریوں کو شامل کرنا ہوگا ۔ اس سوال پر کہ حریت قائدین یہ دعویٰ کس طرح کرسکتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے واحد نمائندہ ہیں ۔ ملک نے جواب دیا کہ (چیف منسٹر)عمر عبداللہ اور(صدر پی ڈی پی) محبوبہ مفتی کا مرکز کے ساتھ کوئی تنازعہ نہیں ہے ۔ حریت کانفرنس میں وہ ہم ہیں جو کشمیر کو متنازعہ مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ناگا لینڈ میں مرکز نے چیف منسٹر ناگالینڈ سے نہیں بلکہ این ایس سی این قائدین آئزاک سویو اور ٹی موئیوا سے بات چیت کی۔

Blame Modi, not separatists on stalled Indo-Pak meet: Yasin Malik

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں