روزہ کا فلسفہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-01

روزہ کا فلسفہ

philosophy-of-Ramadhan-fasting
ماہ رمضان المبارک کے روزے امت مسلمہ پر فرض قرار دئیے گئے جس کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے مفہوم:
اے ایمان والو! تم پر روزہ(رمضان کا) فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔ (البقرہ:183)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تم پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے اگلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے ، سابقہ امتوں پر روزے کی فرضیت تھی لیکن احکام و مسائل اس وقت کے حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ مختلف تھے ۔ اور اس آخری امت محمدیہ کے لئے جو قیامت تک رہے گی اس کے لئے ایک مہینہ کے روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتار ا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں ، تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اسے روزہ رکھناچاہئے ۔(بقرہ:۱۸۵)
پہلی آیت میں ’’کتب‘‘ کا لفظ فرضیت پر دال ہے اور دوسری آیت میں’’فلیصمہ‘‘ امر کا صیغہ ہے جو ایجاب کے لئے ہوتا ہے۔ لعلکم تتقون کہ تم متقی بن جاؤ یہی روزے کی غرض وغایت ہے۔دین اسلام کے پانچوں ارکان کا انسان کی تعمیر و تخلیق و نشوونما میں بہت دخل ہے جس میں ایک بھی ستون کے سقوط کی وجہ سے اسلام کامل و مکمل نہیں ہوگا، جس کی مثال اس طرح دی جاتی ہے کہ ایک خیمہ ہے جس میں بیچ کا ستون اہم ہوتا ہے وہ کلمہ توحید کا دل و زبان سے اقرار کرنا ہے اور جو کنارے کنارے چار ستون سہارے کے لئے لگاتے ہیں وہ نماز، زکوۃ، روزہ اور حج ہیں ۔ اگر بیچ کا ستون گرتا ہے تو پورا خیمہ ہی پست ہوجائے گا اور اگر کنارے کے چاروں ستونوں میں سے کوئی ستون گرتا ہے تو خیمہ کا ایک سرا جھک جائے اور نقص پیدا ہوجائے گا ، اسی طرح سے انسان جب اسلام کے ان پانچوں ارکان کا پابند ہوگا تو وہ حقیقی مسلم ہوگا کیونکہ انسان کی تخلیق عبادت کے لئے ہوئی ہے جس کو قرآن بیان کرتا ہے اس کامفہوم ہے کہ میں نے جنات اور انسان کو اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا تو جو عبادت میں کامل و مکمل ہے وہی اللہ کا اصلی بندہ ہے ۔
اللہ کی بندگی میں سب سے اعلیٰ مقام انبیاء کا اور اس میں نبی آخر الزماں ہمارے پیغمبر محمد مصطفیٰ ﷺ کا ہے جن کے بارے میں اسرا کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مفہوم: اس کی ذات پاک ہے جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے گرد اللہ نے برکت دے رکھی ہے ۔ مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے محمد ؐ کہنے کے بجائے لفظ عبد (بندہ) کا استعمال کیا ہے۔ کیونکہ عبودیت و بندگی میں اللہ کے نبی اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور کامل مکمل چیز وہی سمجھی جاتی ہے جو موضوع لہ کے اعتبار سے سب سے مکمل ہو اورجو چیز موضوع لہ کو انجام نہ دے سکے اس کو ذلت کے ساتھ پھینک دیاجاتا ہے ۔
جیسے بلب کا کام ہے روشنی دینا اگر اس سے ہمیں روشنی نہ ملے تو اسے کوڑے دان میں ڈالدیں گے ۔ اسی طرح دیگر مثالیں ہیں اس لئے جب انسان کا موضوع لہ عبادت و تقویٰ اور محارم سے بچنا اور احکام کی فرمانبرداری ہے تو جو شخص ان چیزوں میں کامل ہوگا وہی اصلی انسان اور مومن ہے ورنہ وہ حیوان سے بھی بدتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ملکوتیت و بہیمیت دونوں قوتیں رکھی ہیں سال کے11مہینوں میں قوت بہیمیت غالب رہتی ہے جب کہ سال کے صرف ایک مہینہ ماہ رمضان المبارک میں قوت و ملکوتیت اپنے عروج پر آجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کتنے شراب کے عادی شراب کی لت چھوڑ کر عبادت میں جٹ جاتے ہیں کتنے بے نمازی نماز کے پابند ہوجاتے ہیں اور کتنے گناہوں میں ملوث اس مبارک مہینہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کر کے روزہ رکھ کر اللہ سے لو لگانے لگتے ہیں رمضان سے پہلے مسجدوں میں ایک چھوٹی جماعت ہی نماز پڑھتی ہے لیکن ماہ رمضان المبارک میں مسجدیں بھر جاتی ہیں اور روحانی نورانی ماحول رہتا ہے ۔ گھروں سے تلاوت کلام اللہ کی آوازیں آنے لگتی ہیں ۔ عام مومنین کے قلوب اس مہینہ میں عبادات اور حسنات کی طرف راغب کیوں نہ ہوں جب کہ ارشاد نبوی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ مفہوم:
ابن آدم کا ہر عمل کئی گنا تک بڑھا دیاجات ہے ، ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر، حتی کہ سات سو گنا تک بڑھادی جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سوائے روزے کے تو بیشک وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اسکا بدلہ ہوں یا بدلہ دوں گا کیونکہ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور کھانے کو چھوڑتا ہے ۔ نفس کو مغلوب اور قابو کرنے نیز خواہشات کو دبانے میں کوئی دوسری عبادت نماز کے مثل نہیں ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں ۔ اور شیطان جکڑ دیے جاتے ہیں۔
اور ایک روایت میں بجائے ابواب جنت کے ابواب رحمت کا لفظ ہے۔جنت کے ایک دروازے کا نام ریان ہے ۔ یہ روزہ داروں کے لئے مخصوص ہے ۔قیامت کے دن روزہ شفاعت کرے گا اور اس کی شفاعت قبول کی جائے گی جیسا کہ رسول اللہ کاارشاد گرامی ہے :
روزہ اور قرآن دونوں بندے کے حق میں روز قیامت شفاعت کریں گے ۔ روزہ کہے گا اے میرے رب میں نے اسے کھانے اور شہوت سے روکے رکھا ہے اس لئے تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول کرلے اور قرآنے کہے گا ۔ میں نے اسے رات کو سونے سے روکے رکھا لہذا تو اس کے حق میں میری شفاعت قبول کرلے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
چنانچہ ان دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے ۔

روزہ کی فرضیت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ امیروں کو غریبوں کی بھوک کی شدت کا بھی احسا س ہو اور وہ غریبوں کی امداد میں بخل نہ کریں ۔ روزہ میں قرآن مجید کا لوح محفوظ سے سمائے دنیا پر نزول کا مقصد اور وہ بھی شب قدر میں یہ ہے کہ قرآن کے احکامات اور اس کے منہیات پر کار بند ہوں ۔ اگر اس مہینہ میں بھی کوئی غفلت شعار مسلمان رمضان اور اس کے فضائل و برکات سے کوئی مطلب نہیں رکھتا اور اس کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی تو وہ دنیا و آخرت میں محروم اور گھاٹے میں ہے ۔
ان ارشادات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں ایک خاص روحانی کشش ہے جو مسلمانوں کو اللہ کے سامنے سر بسجود کرادیتی ہے اور وہ کشش قرآن مجید کے نزول روزے کی روحانی کیفیات اور شب قدر کی نورانیت رمضان المبارک کی برکتوں میں شامل ہی نہیں بلکہ اس قرآن کے مہینہ کی روح ہے ۔

The philosophy of Ramadhan fasting

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں