مذہبی بنیاد پر متوازی عدالتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ سپریم کورٹ رولنگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-08

مذہبی بنیاد پر متوازی عدالتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ سپریم کورٹ رولنگ

نئی دہلی
یو این آئی
سپریم کورٹ نے آج رولنگ دی ہے کہ( ملک میں) شرعی عدالتوں کی کوئی قانونی حیثیت (تقدیس نہیں) ہے ۔ جسٹس سی کے پرساد اور جسٹس پنا کی چندرا گھوش پر مشتمل بنچ نے یہ بھی رولنگ دی کہ فریق ثالث کے حقوق پر اثر انداز ہونے والے فتاویٰ جاری نہیں کئے جاسکتے اور یہ کہ ایسے فتاوی کی پابندی کسی پر بھی قانونی اعتبار سے لازمی نہیں ہے ۔ یہاں یہ بات بتادی جائے کہ آج صادر کردہ رولنگ ، دارالقضاء اور دارالافتاء جیسے اداروں کے لئے کاری ضرب ہے ۔ یہ ادارے، اسلامی اصولوں اور روایات کے مطابق فرقوں کے ارکان کے لئے انصاف راہم کرتے رہے ہیں۔ یہ ادارے فتاوی بھی جاری رکتے رہے ہیں جن کی قانونی حیثیت(تقدیس) نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنی رولنگ میں یہ بھی کہا ہے کہ شرعی عدالتیں اور فتاویٰ غیر دستوری ہیں کیونکہ یہ عدالتیں، دستور کے مطابق قائم نہیں کی گئی ہیں ۔ آج کی رولنگ سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی متوازی عدالتیں نہیں چلائی جاسکتیں اور قانونی حیثیت کی حامل عدالتیں صرف وہی ہیں جو مناسب قانونی کارروائی کے تحت قائم کی گئی ہیں ۔ پی ٹی آئی کے بموجب سپریم کورٹ نے کسی ایسے شخص کے خلاف جوکسی شرعی عدالت کے سامنے(موجود) نہ ہو، شرعی عدالت کی طرف سے فتوی اور حکم جاری کئے جانے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور اس بات کا نوٹ لیا ہیکہ بعض صورتوں میں شرعی عدالتوں کے جاری کردہ احکام سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور بے قصور افراد کو سزا ملتی ہے۔ معزز بنچ نے کہا کہ کوئی بھی مذہب بشمول اسلام بے قصور افراد کو سزادینے کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی بھی’’دارالقضاء ‘‘کو ایسا فیصلہ نہیں دینا چاہئے جس سے ایسے شخص کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو جو اس (دارالقضاء) کے سامنے نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے وشوالو چن میڈیم نامی ایک وکیل کی درخواست مفاد عامہ پر مذکورہ فیصلہ صادر کیا۔ درخواست گزار نے شرعی عدالتوں کے دستوری جواز کوچیلنج کیا تھا۔ قبل ازیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے عدالت سے کہا تھا کہ عوام پر فتوی کی تعمیل لازمی نہیں ہے ۔ یہ فتوی مفتی کی محض ایک رائے ہے اور وہ مفتی اس فتوی پر عمل کرانے کا اختیار نہیں رکھتا ۔ وقف بورڈ کے وکیل نے کہا تھا کہ اگر کسی فتوی کو شخص متعلقہ کی مرضی کے خلاف عمل کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ شخص ایسے کسی اقدام کے خلاف قانونی عدالت سے رجوع ہوسکتا ہے ۔ درخواست گزار نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر مسلم تنظیموں کے تقرر کردہ ’’قاضیوں‘‘ اور مفتیوں کے جاری کردہ فتاوی کے ذریعہ کنٹرول نہیں کیاجاسکتا اور نہ ان (مسلمانوں) کے حقوق کو کم کیاجاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کی ایک علیحدہ اطلاع کے بموجب شرعی عدالتوں کے تعلق سے آج سپریم کورٹ کے صادر کردہ فیصلہ پر علما نے شدید رد عمل کا اظہار کیاہے اور کہا ہے کہ دستور ان علماء کو مسلم پرسنل لاء کے مطابق کام کرنے کی اجازت کا حق دیتا ہے ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن ظفر یاب جیلانی نے کہا کہ’’ہم ایساکوئی کام نہیں کررہے ہیں جو نظام عدلیہ کے متوازی ہو اور ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ کسی قاضی کاصادر کردہ کوئی حکم سب کے لئے لازماً قابل تعمیل ہے ۔ ہمارا واحد منشاء شریعت کے مطابق دو فریقین کی مرضی سے کسی معاملہ کو تصفیہ کرنا ہے‘‘۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا ہے کہ دستور کے تحت مسلمانوں کو مسلم پرسنل لاء کے مطابق کام کرنے کاحق حاصل ہے۔‘‘ یہ بات ذہن نشین رکھی جانی چاہئے کہ نفاذ شریعت ایکٹ1937میں بہت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایسے مقدمات میں جن میں دونوں فریقین مسلمان ہیں اور یہ معاملہ، نکاح، طلاق، ظہار ، لیان ، ضلع، مبارات سے متعلق ہے ، فیصلے مسلم پرسنل لاء کی روشنی میں کئے جائیں گے۔ کوئی قطعی بیان دینے سے قبل عدالتی فیصلہ کا مناسب جائزہ لینے کی ضڑورت ہے ۔ صدر کل ہند ائمہ اسوسی ایشن مولانا محمد ساجد رشید نیکہا ہے کہ سپریم کورٹ میں داخل کردہ درخواست ہی خود غلط ہے کیونکہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مذہب پر عمل کرتا ہے تو ایسے شخص (مرد یا خاتون) کو اس مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ ایک مسلمان جو شریعت پر عمل نہیں کرتا، حقیقی مسلمان نہیں ہے ۔ تاہم امارات شرعیہ پٹنہ کے رکن مولانا انیس الرحمن نے سپریم کورٹ کی رولنگ سے اتفاق کیا اور کہا کہ فیصلہ غلط نہیں ہے کیونکہ یہ فیصلہ شرعی عدالتوں کی کارکردگی کو روکنے والا نہیں ہے ۔

Supreme Court says Sharia courts are NOT legal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں