ماہ رمضان اور اس کی افادیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-07-07

ماہ رمضان اور اس کی افادیت

Ramadan-and-its-usefulness
اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی ۔ مگر یہ روزے فرض نہ تھے ۔پھر۲ہجری میں رمضان کے روزوں کا حکم قرآن میں نازل ہوا ۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو ! ایک بڑی عظمت والا مہینہ ، بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے ۔ وہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینہ کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے ۔(یعنی فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے ،جس کو اللہ تعالیٰ بے انتہا پسند فرماتا ہے) جو شخص اس مہینہ میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود انجام دے تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوادیگر مہینوں میں کسی نے ستر فرض ادا کئے ۔ اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہجنت ہے اور یہ مہینہ معاشرہ کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدری کا مہینہ ہے ۔(مشکوۃ)
اس مہینہ کا صبر کا مہینہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس مہینہ میں روزہ داروں کو روزہ کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جمنے اور اپنی نفسانی خواہشات پر مکمل طور پر کنٹرول پانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ آدمی ایک متعنیہ مدت سے لے کر دوسری متعینہ مدت تک اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے اور نہ ہی بیوی سے مباشرت کرتا ہے ۔ ان اعمال کے کرنے سے اس کے اندر اللہ کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ ان اعمال سے آدمی کی اس بات سے مشق ہوتی ہے ۔ موقع پڑنے پروہ اپنے جذبات و خواہشات پر اور اپنی بھوک و پیاس پر بہت حد تک قابو رکھ سکتا ہے ۔ اس دنیائے فانی میں مومنین کی مثال میدان جنگ کے سپاہی کی سی ہے جسے شیطانی خواہشوں اور باطل طاقتوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔ اگر اس کے اندر صبر کی صفت نہ ہو تو حملہ کی ابتدا ہی میں اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کردے گا۔
یہ شہر رمضان جس میں ہم آپ سانس لے رہے ہیں اس کا ایک ایک لمحہ انتہائی خیر و برکت کا ہے ، یہ مہینہ روزوں کا مہینہ ہے ، یہ مہینہ نمازوں کا مہینہ ہے اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اس مہینہ میں جہاں تک ہوسکے زیادہ سے زیادہ نماز ،ذکر ، تلاوت ، قرآن کا اہتمام کیجئے۔ لڑائی جھگڑے اور گناہوں کیکاموں سے دور رہیے اور غریبوں اور مسکینوں کی حتی الامکان مدد کیجئے ۔
روزہ انتہائی اہم عبادت ہے ، بندہ صرف اپنے مالک کی رضا اور خوشنودی کے لئے اس کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، اپنا کھانا پینا اور بہت سے جائز امور سے اجتناب کرتا ہے۔ بندے کے یہ اعمال دلوں کو برائیوں سے پاک کرنے کے لئے انتہائی مفید ہیں، ان سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے ، بندے کے دل میں اللہ کی ناخوشی اور اس کی نافرمانی سے ڈرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ جو کچھ بھی کرتا یا کہتا ہے ، اس سے پہلے یہ سوچ لیتا ہے کہ میرے اس فعل سے کہیں میرا مالک ناخوش تو نہ ہوگا ۔ یہی وہ قوت ہے جو انسان کی تمام صلاحیتوں کو شر کے راستوں میں صرف ہونے سے بچا کر خیر کے راستوں میں صرف کراتی ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو اپنی زبان سے فحش بات نہ نکالے اور نہ ہی شورو ہنگامہ کرے، اور اگر کوئی اس سے گالی گلوچ کرے یا لڑائی کرنے پر آمادہ ہو تو اس سے کہہ دے کہ میں تو روزے سے ہوں(بھلا میں کس طرح گالی دے سکتا ہوں۔)
ان مبارک دنوں کے دوبارہ میسر آنے پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے ۔نعمتیں اسی وقت خیر کا موجب بنتی ہیں جب ان کا صحیح شکر ادا کیا جائے ۔ رمضان مومن کے لئے ایک بہت ہی بڑی نعمت ہے ، ہم پر اس کا شکر واجب ہے اور شکر کی بہترین شکل یہی ہے کہ ہم اللہ کی اس نعمت کابھرپور استعمال کریں اور اس کو اس طریقہ سے استعمال کریں کہ ہمیں اپنے رب ذوالجلال کی زیادہ سے زیادہ خوشنودی حاصؒ ہوسکے۔ ہر وہ مومن جسے اللہ تعالیٰ نے زندگی میں پھر ایک بار رمضان کی نعمت سے فائدہ اٹھانے کی مہلت عطا فرمائی ہے ، بڑا ہی خوش نصیب ہے کہ اسے اپ نی نیکیوں کے ذخیرہ میں اضافہ کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا ہے۔ اس زریں موقع سے وہی لوگ فائدہ حاصؒ کرسکتے ہیں جو ایک طرف تو اپنے دل میں اس نعمت کی قدر کو ملحوظ رکھیں اور دوسری طرف اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے وہ جو کچھ بھی کرسکتے ہوں اس سے دریغ نہ کریں ۔
شہر رمضان کی فضیلت کوئی کہاں تک بیان کرے ، روزے اور روزے دار کی فضیلت میں متعدد احادیث ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت کا ایک دروازہ ہے، جس کانام ریان (سیرابی) ہے قیامت کے روز آواز دی جائے گی کہ کہاں ہیں روزے دار؟ جب سارے روزے دار اس دروازے سے داخل ہوجائیں گے تو اس دروازے کو بند کردیا جائے گا اور اس سے کوئی داخل نہ ہوسکے گا۔(بخاری و مسلم)
حضرت ابو سعیدؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو بھی بندہ اللہ کی راہ میں اللہ کے لئے روزے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ان روزوں کی بدولت اس کے چہرے کو آگسے 70حریف(210میل) دور کردیں گے ۔(بخاری ،مسلم، ترمذی، نسائی، احمد،ابن ماجہ)
نبی اکرمؐ نے فرمایا: جس شخص نے ایمان کے ساتھ اجر آخرت کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اللہ اس کے ان گہانوں کو معاف کردے گا، جو اس سے پہلے ہوچکے ہیں ، اورجس شخص نے ایمان کے ساتھ اجر آخرت کی نیت سے رمضان میں تراویح پڑھی تو اللہ کے گناہوں کو معاف کردے گا ۔ غرض کہ روزہ رکھنے کی بہت سی فضیلتیں ہیں اور روزہ رکھنا انتہائی باعث اجروثواب ہے، جس چیز کے کرنے سے انتہائی فائدہ ملتا ہے ، اس کے نہ کرنے اور ترک کردینے سے اس سے کہیں زیادہ نقصان بھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ رمضان کے روزوں کا بھی یہی معاملہ ہے ۔
روزہ خوروں کو انجام: حضرت ابو امامہ باہلیؓ کہتے ہیں میں نے نبی اکرمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں سورہا تھا کہ دو شخص میرے پاس آئے، وہ میرا شانہ پکڑ کر ایک دشوار گزار پہاڑ کے پاس لے گئے اوراس پر چڑھنے کو کہا ، میں نے کہا اس پر چڑھنا میرے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے کہا چڑھو ، ہم سہاراد تیے ہیں، چنانچہ میں چڑھ گیا ، جب پہاڑ کے بیچ میں پہنچا تو شدیدقسم کی چیخیں سنیں ، میں نے دریافت کیا کہ یہ کیسی چیخیں سنائی دے رہی ہیں، انہوں نے بتایا کہ یہ جہنم والوں کی چیخیں ہیں ۔ پھر مجھے اور آگے لیجایا گیا تو دیکھا کچھ لوگ الٹے ٹانگ دیے گئے ہیں ، ان کے جبڑے پھاڑ دیے گئے ہیں اور ان سے خون بہہ رہا ہے، میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو رمضان کے دنوں میں کھاتے پیتے تھے اورروزے نہیں رکھتے تھے ۔
عبادت میں اعتدال: روزہ رکھنے کے ثواب بہت ہیں اور نہ رکھنے کے عذاب بہت۔ لیکن کسی عبادت کو باعث اجر ثواب سمجھتے ہوئے اس میں حد سے بڑھ جانا اور اعتدال کی سرحدوں کو پار کرجانا۔ اس بات کی اسلام قطعی اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام میں تو آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔ مہینے سال میں چار ہوتے ہیں ۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب۔ مذکورہ حدیث میں انہیں تین مہینوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان مہینوں میں کچھ دن روزے رکھو اور چھوڑ دو۔( یعنی روزے نہ رکھو) ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن العاصؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے نبی اکرمؐ نے فرمایا : مجھے بتایا گیا ہے کہ تم مسلسل پابندی سے روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نوافل میں مشغول رہتے ہو ، کیا یہ صحیح ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! یہ خبر صحیح ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کیاکرو۔ کبھی روزہ رکھو اور کبھی ناغہ کرو ۔ اسی طرح رات کو سوؤ بھی اور نفلیں بھی پڑھو ، کیوں کہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہارے ملنے جلنے اور مہمانوں کا تم پر حق ہے ، اس لئے تم ہر مہینے تین دن روزہ رکھو اتنا ہی تمہارے لئے کافی ہے ۔
فضیلت اعتکاف: حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں بھی۔ پھر ترکی خیمہ جس میں اعتکاف فرمارہے تھے باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا ، پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرے میں کیا ، پھر مجھے کسی بتانے والے(یعنی فرشتے) نے بتلایا کہ وہ رات آخری عشرے میں ہے۔ لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں وہ اخیر عشرے کا بھی اعتکاف کریں ۔ مجھے یہ رات دکھلا دی گئی تھی ، پھر بھلا دی گئی ۔لہذا اب اس کو اخیر عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
نبی اکرمؐ کی عادت میں شامل تھا کہ آپ ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے ۔ آپ کا جس سال وصال ہوا تھا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا تھا ۔ لیکن اکثر عادت شریفہ آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کی تھی ۔ اس لئے علماء کے نزدیک اخیر عشرے میں اعتکاف کرناسنت موکدہ ہے ۔

Ramadan and its usefulness

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں