بت خانۂ جمہور کے آداب نرالے ہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-02

بت خانۂ جمہور کے آداب نرالے ہیں

indian-democracy
آج شیفتہ کا برقی پیام آیا ۔۔۔۔لکھ بھیجا کہ حضور، کیا اب ہم کہیں کے نہ رہے ؟ شام چمن میں آکر ملیے گا-
ہم نے سوچا ضرور شیفتہ موجودہ حالات سے بددل ہوگئے ہونگے۔۔۔۔بہرحال دل جوئی ضروری ہے۔۔۔۔
چمن میں پہنچتے ہی ہم نے کہا حضوراب کوئی کہیں کا نہ رہا۔۔۔۔۔ نہ وہاں کا نہ یہاں کا۔۔۔۔
شیفتہ نے فرمایا، حضور موصوفہ کہہ رہی ہیں کہ ۔۔۔ ہم نے اطراف میں ہونقوں کی طرح دیکھا۔۔۔۔ بقراط نے ہماری کج فہمی میں اضافہ کرتے ہوئے کہا، شیفتہ کی مراد وزیر عالیہ محترمہ نجمہ ہیبت الله صاحبہ سے ہے ۔۔
یہ سنتے ہی ہم پر ہیبت طا ری ہو گئی۔۔سوچا کس قدر جلالی نام ہے۔۔ ایک جھرجھری سی آ گئی۔۔۔ شیفتہ نے ہماری حالت زار دیکھ کر فرمایا ۔۔۔جی ہاں انہیں موصوفہ کے متعلق ہم کہہ رہے ہیں، وہ حکم صادر فرما چکی ہیں کہ مسلمانان ہند اقلیت نہیں ہیں۔۔۔۔۔ لیکن موصوفہ عالیہ یہ تو بتاتی جاتیں کہ۔۔۔۔ یہ خانہ خراب کس خانے میں ہیں یا کس زمرے میں ہیں۔۔۔اور وہ خود اپنے آپ کو کس خانہ میں رکھتی ہیں۔۔۔۔ یہ انکے مزاج کی شوخی کہہ لیں یا ماحول کی رعنائی کہ وہ وزیر برائے اقلیتی بہبود بن کر گدی نشیں ہو ئی اور یہ حکم صادر کر رہی ہیں۔۔۔جبکہ وہ عالی جناب ایم جے اکبر کی طرح کبھی کہیں مسلمان ہونے کا ، یعنی اقلیت میں ہونے کا اقرار بھی کر چکی ہیں۔۔۔۔ وہی مسلمان جنکی اکثریت کو آزادی کی سوغات کے ساتھ ہی انگریزوں نے دو لخت کردیا تھا ، اور آزادی کے بعد سے جنہیں کانگریس تمغۂ اقلیت سے نوازتی رہی ، پھر شر پسندوں نے اس تمغہ کو ۔"اپیزمینٹ " کہہ کہہ کر انکے آئینی حقوق قلیل سے قلیل تر کر کے رکھ دیے۔۔۔ اور اب بی جے پی سرکار انہیں اقلیت کے خانے سے نکال کر پتہ نہیں کہاں رکھنا چاہتی ہے، اور اس رکھ رکھائی میں اقلیت کے علمبرداروں کا ہی بخوبی استعمال کر رہی ہے-
سنا ہے موصوفہ عالیہ خود ایک ادیبہ ہیں اور لکھتی لکھا تی بھی ہیں۔۔۔ ضرور اس المناک حقیقت سے واقف ہونگی بلکہ اس سے "متاثر" ہوئی ہونگی، تبھی تو اس عہدۂ عالیہ پر انہیں کو فائز کیا گیا ہے۔۔۔ورنہ انکے لئے کہیں اور جگہ تھی بھی کہاں ۔۔۔ کیسے ہوتی بھلا، سرکار میں ہمنواوں کے لئے ہی جگہ تنگ پڑ رہی تھی ۔۔موصوفہ ڈھارس بھی خوب بندھا رہی ہیں، یہ کہہ کر مسلمانوں کے آئینی حقوق کو ئی نہیں چھین سکتا۔۔۔۔ یعنی کچھ اور تو ہے ہمارا جو چھینا جا سکتا ہے۔۔۔ بلکہ چھینا جا چکا ہے اور جس کا موصوفہ کو احساس ہے ۔۔۔ پتہ نہیں وہ کیا کچھ ہے ۔۔۔موصوفہ کی چشم حیراں سے کہاں کچھ چھپا ہوگا ۔۔۔۔
فرمایا، زمانہ ہوا ہے انہیں، مسلمانوں کو موصوفہ کو نہیں، راہ شوق سے منہ موڑے ہوئے۔۔۔۔۔ اب پتہ نہیں تمغۂ اقلیت کے متعلق موصوفہ کیا سوچ رہی ہیں اور انکی حمایت کرنے والے محترم و موقر اہل علم و دانش بھی ۔۔۔۔۔
بقراط نے کہا : شاید وہ بھی یگانہ کی طرح یہی سوچ رہی ہونگی کہ ۔۔
خدا ہی جانے یگانہ میں کون ہوں کیا ہوں؟
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا
۔۔۔۔ یہ سنتے ہی شیفتہ کے زبان سے بے ساختہ یگانہ کا دوسرا شعر امڈ پڑا ۔۔۔
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ راز پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا۔۔۔۔۔

بقراط نے پوچھا حضور۔۔ محترمہ عالیہ نجمہ ہیبت الله صاحبہ نے صرف پارسی بھائیوں کو اقلیت تسلیم کیا ہے۔۔۔
فرمایا جی ہاں ۔۔ پارسی حضرات بڑے ہی منکسرالمزاج ہوتے ہیں اور کسرنفسی سے کام لیتے رہے ہیں، اسی وجہ سے انکی نسل پروان نہیں چڑھ سکی۔۔۔۔ ان شریف النفس لوگوں کی تعداد کے تناظر میں انکے مطالبات اسقدر بھی نہیں ہیں جتنے وزیر اعظم مودی کی غیروسیع بلکہ تنگ کابینہ کے ہونگے۔۔ پارسی حضرات امن پسند ہیں۔۔۔۔انکی قلیل تعداد نے دنیائے تجارت کو فروغ دیا اور سیاست و حکومت کی اکثر امداد بھی کی ہے- انہیں حکومت سے کسی امداد کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔انکے حقوق پامال ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔۔۔۔۔انکے ساتھ استحصال و استبداد بھی کبھی کہیں نہیں ہوا، اس کی کسی حکومت یا سیاسی جماعت کو ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔۔۔
بقراط نے ہمیشہ کی طرح دخل درنامعقولات کرتے ہوئے پوچھا ۔۔۔ آپ کا کیا مطلب ہے حضور؟۔۔۔اب اس محکمہ وزارت کو پھر ختم کردینا چاہیے؟۔۔۔
فرمایا بلکل، اب اس کی بھلا کیا ضرورت ہوگی۔۔۔
بقراط نے پوچھا پھر موصوفہ کہاں کی رہیں گی ۔۔ مطلب ہے کس محکمہ کی ہو رہینگی؟۔۔۔
فرمایا وہ تو وہیں کی ہو رہینگی جہاں کی وہ ہیں- لیکن ہم سب کو کہا ں رکھیں گی ، پتہ نہیں- مسلمان نہ اکثریت میں نہ اقلیت میں۔۔۔ تو اب کیا صرف دہشت میں رہے گا۔۔۔ یا پھر بقول جناب بشیر بدرصاحب : مرنے کے بعد بھی بلکہ بعد ہی اس دھرتی کا ہورہے گا، یا پھر جناب راحت اندوری صاحب کے مطابق موت ہی اسے زمیندار بنائے گی ۔۔۔۔۔۔ جبکہ ایک مسلمان وہ بھی تھے جنہیں اپنی وفاؤں کے عوض دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں۔۔۔۔ انکے آبا و اجداد نے بھی کیا کمال کیا تھا کہ مقتدر ہونے کے باوجود کبھی اقلیت و اکثریت کا تفرقہ نہ ڈالا، نہ ہی کبھی کسی فساد کو پنپنے دیا- یہی مثال موجودہ دور کے اکثر مسلم حکمرانوں اور انکے ممالک کی ہے ۔۔۔ عارضی ہو یا مستقل، تمام غیر مسلم آبادی مکمل تحفظ کے علاوہ تمامتر مراعات اور خوشحالی اور مواقعوں سے بھرپور زندگی گزار رہی ہے ۔۔۔ لاکھ سیاسی و معاشی مسائل در پیش ہوں لیکن کہیں کوئی مذہبی فسادات یا نا انصافی نہیں ہوتی۔۔۔۔ غیر مسلم بھائیوں کے حقوق غصب نہیں کیے جاتے۔۔۔ پھر بھی حقوق انسانی کے علمبرداروں اور اسلام دشمنوں کو کچھ نظر نہیں آتا۔۔۔ کنکر نظر آتا ہے لیکن انہیں پہاڑ نظر نہیں آتا –

شیفتہ اور بقراط کے تبصرے سے ہم نے یہ اخذ کیا کہ مسلمانان ہند کا عجب المیہ ہے ۔۔۔ ہر کوئی اپنے مفاد اور مسائل کے حل اور اپنے اپنے ہدف کے حصول کے لئے انکا خوب استعمال کررہا ہے۔۔۔۔۔ بلکہ انہیں خوب ہدف بنا رہا ہے۔۔۔ پھر چاہے وہ ملکی و غیر ملکی پڑوسی یا عالمی سیاسی رہنما یا جماعتیں ہوں، تاجر ہوں یا فاجر، اپنے ہوں یا پرائے- ہاں یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے مسلم عوام کی ہمدردی انہیں ضرور حاصل رہتی ہیں، اور ان میں پڑوسیوں کے علاوہ دور درازملکوں کے مسلم عوام بھی شامل ہیں ۔۔۔۔ لیکن ان بیچاروں کی ہمدردی سے کیا ہوگا جبکہ یہ سب خود ہمدردی کے محتاج ٹہرے ، اور مقامی و عالمی سیاست غلیظہ کے شکار۔۔۔ ان کا حال تو ان سے بھی برا ہے - اب مسلمانان ہند کو آخر کرنا کیا ہے؟۔۔۔۔
اس کا جواب اہل علم و دانش اکثر دیتے رہے ہیں کہ ۔۔
اپنے حقوق کے حصول کے لئے اول ترجیح حصول تعلیم کو دی جا نی چاہیے ، پھر اپنے حقوق کے حصول اور اپنے ساتھ ہونے والی نا انصا فیوں کے خلاف ضرورتاً پر امن احتجاج کرنا ہوگا ، ا ور پھر عدم تعاون اور اس کے بعد دیگر مراحل خود بہ خود سامنے آتے رہیں گے ۔۔۔۔ اسکے لئے امت کو بے غرض اور قانع ہونا پڑے گا ۔۔ متحد ہونا پڑے گا۔۔ لیکن یہ متحد ہوتے تو پھر کیا تھا ۔۔۔ایک پرسنل لا پر متحد نہ ہوسکے، نہ کسی ایک جما عت پر، مسئلہ پر ، حل پر ، اکادمی پر ، نہ ہی ایک چاند پر اور ایک تاریخ پر ، بلکہ نہ ہی ایک الله و رسول اور کتاب پر ۔۔۔۔ متحد ہوجاتے تو دنیاوی ترقی کے وعدوں پر تھوکتے بھی نہیں۔۔۔
اور اگر پندرہ بیس کروڑ مل کر ایکساتھ تھوک ہی دیں تو پھر انہیں اسطرح کہیں کا نہ رہنے کی نوبت ہی نہ آئے ۔۔۔۔ کوئی معمولی تعداد نہیں ہے۔۔۔۔ فی الحال تو دین پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے اور اس سے کوئی کسی کو روک نہیں سکا۔۔۔ شا ید موصوفہ کا یہی عندیہ ہو ۔۔۔ لیکن دین خود کہتا ہے کہ بغیر علم کے دین پر قائم رہنا جہالت ہے، بلکہ تعلیم کے بغیر دین و دنیا کوصحیح طور پر سمجھنا اور عمل پیرا ہونا غیرممکن ہے۔۔۔۔۔
الله کا پہلا حکم ہی علم و قلم اور پڑھنے پڑھانے کی اہمیت کا مظہر ہے۔۔۔ علم میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔۔۔ کوئی تعصب نہیں۔۔۔۔ اور قران مجید اس حقیقت کا مظہر بھی ہے جس میں مختلف علوم کی نشانیاں پیش کی گئی ہیں۔۔۔۔۔ تہذیب جدیدہ میں تعلیمی و تدریسی ماحول مختلف ہوسکتے ہیں۔۔۔۔ اکثر و بیشتر اغیار کے مہیا کردہ غیر اسلا می ماحول اور نصاب ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن اب کیا کیجیے گا کہ ہماری قوم نے تعلیم و تدریس کے میدان میں اتنا کچھ کیا ہی نہیں ہے کہ ہم اغیار کے تعلیمی اداروں پر انحصار نہ کریں - نہ ہی دینی تعلیم کی اہمیت سے اور نہ ہی عصری تعلیم کی ضرورت سے انکار کیا جاسکتا ہے ، عصری تعلیم و تدریس کے اپنے نقائص اور خطرات ہیں جنکا ازالہ گھریلو تربیت و دینی تعلیم سے ممکن ہوا ہے- دینی و عصری تعلیم کی کشمکش میں غریب طبقہ ضروری علوم و فنون سے بے بہرا کر دیا گیا ہے ۔۔۔۔
بغیر تعلیم کے ایمان کا پودا کبھی پروان نہیں چڑھتا اور خود رو جھاڑیوں کی طرح گرد و غبار میں اٹا ہوا کہیں پڑا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔ یہی وہ جہالت ہے جس نے 'بوکو حرام ' جیسی تنظیموں کو ابہام و ایہام کی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے ۔۔۔۔ جنہوں نے ایمان کی حرارت کو خوب گرمایا لیکن بوجوہ کم علمی یا جہالت حرام و حلال کا فرق ہی کھودیا۔۔۔ دشمنوں کو موقع ملا کہ وہ اب خوب موقع کا ناجایز فایدہ اٹھائیں ۔۔ مسلم ممالک کے اہل اقتدار بھی جائز فائدہ اٹھا سکتے تھے ، اور اہل علم و دانش یا اہل شمشیر کی فوج کو کوچ کا حکم دے سکتے تھے ۔۔۔۔۔ زمینی اور ذہنی فاصلوں کے باوجود ایسی تنظیموں پر قابو پا کر ان کو راہ راست پر لا سکتے تھے،۔۔۔۔ لیکن کیا کریں جو خود اغیار کے حکم پر کوچ کرتے ہوں وہ اپنی کسی فوج کو ایسا حکم کیسے دے سکتے ہیں۔۔۔۔
بات یہاں بھی علم کی ہے جس کے بغیر ایمان کامل ہو یا ناقص بلکہ کبھی کبھی ایمان ہی باقی نہیں رہتا، اور نہ ہی علم کے بغیر دین کو عروج حاصل ہوسکا ہے ۔۔۔۔ تعلیم و تدریس کا حصول اور اسکی فراہمی قرون خیر میں اتنی عام بات تھی کہ کیا اصحاب شمال و یمین، کیا صاحب تجارت اور کیا صاحب شمشیر، تعلیم و تدریس انکی ترجیحات میں اول نمبر پر قائم رہی۔۔۔۔ بلکہ علم کا حصول ہی ایمان کے حصول کا باعث بنا کرتا تھا-
یہی وجوہات تہذیب جدیدہ کے عروج کی بھی رہی ہیں جو پچھلی تین صدیوں پر محیط تعلیم و تدریس و تحقیق کا حاصل ہے - علم کی قوت ہی ہے جو مسلمانوں کو کہیں کے بجائے ہر جگہ کا بن کر رہنے پر آمادہ کرتی آئی ہے ۔۔ جس کا دین تقاضہ بھی کرتا ہے۔۔۔ یہی وہ جگہ تھی اور آج بھی ہے، جہاں جہل پنپتا رہا ہے اور دین کا کام غیر مکمل رہ گیا یا رکھ دیا گیا ہے، ہم کہیں کے بھی ہو رہیں ، بلکہ جہاں جہاں ممکن ہو وہاں وہاں کے ہو رہیں ۔۔۔ مگر دین کے تقاضے پورے کرتے رہیں کیونکہ ہمارے دین میں دنیا و آخرت دونوں سما ئی ہوئی ہیں ۔۔
اب کیا کیجیے گا کہ مسلمانوں میں وہ انداز دلبرائی نہ رہی، جو حکمت و دانش ، یقیں محکم اور عمل پیہم کی مہ ناب پیا کرتے تھے ۔۔ اب تو یہ حال ہے بقول شا عر کہ ۔۔۔
مدتیں گزری ہیں شغل مئےکشی چھوڑ ے ہوئے
وہ پڑے ہیں طاق میں جام و سبو ٹوٹے ہوئے

اور جمہوریت کے بھی اب کہا ں وہ انداز با قی رہے کہ ۔۔۔۔
بت خانۂ جمہور کے آداب نرالے ہیں
لیتے ہیں دعا اول ، دیتے ہیں دغا آخر !!

***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

The strange manners of democracy. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں