اپنی کوتاہئ فن یاد آئی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-22

اپنی کوتاہئ فن یاد آئی

aleem-khan-falaki
جب ہمیں خاکہ نگاری میں طبع آزما ئی کا خیال آیا تو سوچا کہ کسی ایسی ہستی کا انتخاب کیا جائے کہ بھلے ہی وہ خاکی ہو لیکن اسکے کردار میں مختلف خوبصورت رنگ ضرور ہوں، جو شہرہ بیزار ہو اور خوشبو کی صفت رکھتا ہو- لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا کہ خوشبو صفت کرداراب اس پر فتن دور میں آسانی سے مل جائے، اور دنیائےعلم وادب میں تو بے حد مشکل ہے- ویسے بھی ہم کہاں کہ دانا تھے اور کس فن میں یکتا تھے کہ خاکہ نگاری کرتے- خیالات کے بھنور میں پھنسے ہوئے تھے کہ یاد آیا ایک شخص نے ہمیں کبھی خوب پھنسایا تھا۔۔۔۔سوچا کیوں نے اسی کو خاکہ نگا ری کے لئے منتخب کر یہ معرکہ سرکر لیں ۔۔۔۔۔اس خیال کے ساتھ ہی خاکہ نگاری کے لئے ہمارا گم گشتہ کردار تمامتر رنگوں کے ساتھ سامنے آگیا، جس نے ہمیں افکار و قلم کی اس کشمکش میں پھنسایا تھا۔۔۔۔جس نے بچھڑے ہوئے ہمارے افکار و قلم کو تحریک دی تھی - ہمیں پھنسا کر وہ خود تو پی ایچ ڈی کرنے نکل گیا اور واپسی پر چپکی بھی سادھ لی۔۔۔ آپ پوچھیں گے کیوں ؟ پوچھیے پوچھیے کیوں چپکی سادھ لی ؟۔۔۔ تو جناب اسکی وجہ بھی عجیب و غریب ہے اور کچھ کچھ مبہم بھی- بہرحال اس کا خاکہ بھی کھینچنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ دیکھیے اب کسقدر کھینچا جائے ہے مجھ سے –

کہتے ہیں کہ ۔۔۔ اب یہ نہ پوچھیے گا کون کہتے ہیں۔۔۔۔ ادب میں ایسا اکثر کہتے ہیں۔۔۔۔ جب کائنات کے کچھ پوشیدہ رموز و نکات انسان کے دل میں عیاں ہوجاتے ہیں تو افکار کی پرواز اسے گم سم کردیتی ہے۔۔۔۔ وہ افکار کی پرواز میں ایسے ہی کھو جاتا ہے جیسے شاہین پرواز کی بلندیوں پر پہنچ کر پرسکون ہوجاتا ہے۔۔۔۔پھر اسے تنزلی کا خوف نہیں رہتا ۔۔۔ پھر اسے پراورپیر پسارنے کی حاجت نہیں ہوتی۔۔۔۔ وہ خود کو پرواز کے حوالے کر سب کچھ بھول جاتا ہے، وہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ ایسی پرواز کو صرف اور صرف خالق حقیقی نے تھام رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کچھ مفکر بھی پرواز کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں ۔۔۔اور انکے سامنے زبان و قلم بے بس نظر آتےہیں - اور جب مفکر اس پرواز سے واپس لوٹنے کے راستے تلاش کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ واپسی کا دوسرا کو ئی راستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ افکار کی پرواز سے واپسی بھی قلم و زبان کی محتاج ہے، تب مفکر اپنا راستہ خود تلاش کر قلم و زبان کو ایک نیا پیرایہ عطا کرتاہے، نئے مدارج طے کرتا ہے، ایک نیا معیار قائم کرتاہے۔ پھر اسکی پرواز کو ایک نیا اور اونچا آسمان ملتا ہے - یہی کچھ اب ہم اپنے منتخب شدہ کردار سے توقع کرتے ہیں جس کا خاکہ ہم بنانے کا بیڑا اٹھا چکے ہیں - ہمیں یقین ہے انشاء الله وہ کردار بہت جلد یہ مدارج طے کرلے گا - ہمیں پھنسانے والا کوئی اور نہیں وہی شخص ہے جس کی وجہ سے ہم جیسے کئی ہونگے جو دین وعلم و ادب کے خوبصورت و خوب سیرت جال میں پھنس کر دنیا کی سب سے قیمتی چیز، یعنی اطمعینان قلب حاصل کر چکے ہیں، جی ہاں ہماری مراد خان صاحب یعنی ڈاکٹر علیم خان فلکی سے ہی ہے۔۔۔ فلکی کا خاکہ بنانا اس خاکسار کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔۔۔۔

خان صاحب کے اوصاف و نقائص یاد کرنے جب ہم بیٹھے تو سوچا دنیائے ادب سے چند عبقری شخصیات کے سنے سنائے اوصاف یہاں وہاں سے "کاٹو اور چپکاو" کی طرز پر تحریر میں ٹھونس دیں گے۔۔۔ جن میں یہ چند الفاظ ہم نے ڈھونڈ کر نکال بھی لئے تھے جو ہر شریف آدمی میں موجود ہوتے ہیں ۔۔۔ جیسے شریف النفس، برد بار، عالم فاضل، دلدار اور عزت دار تو ہم نے کاٹ چھانٹ کر حاشیہ پر لکھ بھی لئے تھے۔۔۔ اور سوچا کہ موجودہ دور کے ادبی اکھاڑوں سے چند محیرالعقل، بھاری بھرکم اور قد آور ادبی شخصیات کے خاکوں کے خطوط چرا کر برقی صفحات پر آسانی سے کھینچ کر رکھ دینگے، پھر یاد آیا خان صاحب اردو کے علاوہ عالمی ادب کے مطالعہ میں بھی عرق ریزی کر چکے ہیں، بلکہ ڈوب کر نکلے ہیں، اور انگریزی پر بھی اچھی خاصی دسترس رکھتے ہیں، خوب بول لیتے ہیں بلکہ صفحات کے صفحات لکھ چکے ہیں اس لئے دیار غیر سے بھی کچھ نہ کچھ چرانا ہوگا۔۔۔ لیکن جب حاشیہ پر نگاہ ڈالی تو احساس ہوا ہم نے خوشبو کو قید کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور یہ محسوس کرتے ہی اپنی کوتاہئ فن یاد آگئی۔۔۔۔۔

نقص سے پاک تو صرف الله تعالی کی ذات جلیلہ ہے- خان صاحب چونکہ خاکی سے فلکی ہوئے ہیں اس لئے ان میں کچھ نقائص بھی ہونگے- لیکن اپنے نقص کو چھپانے کی وہ صلاحیت بھی خوب رکھتے ہیں بلکہ شر کو خیر میں تبدیل کرتے آئے ہیں، اور یوں بھی کسی کے اوصاف بے شمارہوں تو نقائص ان میں کہیں دب جایا کرتے ہیں، اس لئے ان نقائص کی نشاندہی خاکسار سے ممکن نہ ہوسکی- ہاں انکا ایک نقص تو جگ ظاہرہے کہ وہ خوشبو کی طرح بنا تفریق ہراس شخص کے گلے لگ جاتے ہیں جوان کے افکار و دل کو ذرا سا چھولیتا ہے- اور پھر خان صاحب نام نہاد عبقری شخصیتوں کی طرح اپنے اوپر مخلتف خول چڑھانا بھی نہیں جانتے، اس لئے وہ دنیائے علم و ادب و تجارت میں، بلکہ دنیا کے ہر ایک شعبے میں "بے ضرر" قرار دے دیے گئے- اگر مادیت پرست دنیا کو کسی فایدہ مند انسان کے متعلق یہ معلوم ہوجائے کہ وہ بے ضرر بھی ہے ، تو وہ اس سے فایدہ اٹھا کر اسے بے فائدہ ثابت کرنے سے خوف نہیں کھاتی- اگر خوشبو گدگدانے والی ہو اور اپنے اندر رنگ مزاح بھی رکھتی ہو تو اس کا یہی وصف اسکا نقص بھی بن جاتا ہے – خان صاحب کا یہی وصف ہمیں نقص کی صورت نظر آیا جس کی وجہ سے انہیں دنیائے دین و علم و ادب میں وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار ہیں، ویسے وہ خود بھی کسی مقام پر ٹہرنے را ضی کہاں ہوتے ہیں، اور نہ کبھی تقاضا کرتے ہیں - الغرض پھر ایک بار ہم علیم فلکی کے جال میں پھنس چکے تھے ۔۔۔ بقول خود خان صاحب کے "یار اب جو ہو سو ہو"-

ڈاکٹر علیم اسم با مسمی واقع ہوئے ہیں اور الله تعالی نے انہیں علم وادب اور حکمت و دانش سے خوب نوازا ہے۔۔۔ خان انکی خاندانی شناخت ہے ورنہ شبنمی طبیعت کے حامل خان صاحب کسی بھی زاویہ سے روایتی خان نظر نہیں آتے۔۔۔۔۔نہ ہی زاویۂ قائمہ سے نہ حادہ سے ، اور منفرجہ سے تو بلکل بھی نہیں- فلکی ان کا تخلص ہے اور ہمیں یقین ہے یہ انکے اپنے شہر اور علاقے سے وابستگی کا برملا اظہار ہے، وہ ہندوستان کے شہر۔۔۔۔۔ شہر سخنواراں و زندہ دلاں حیدرآباد کے ایک معروف علاقے فلک نما سے تعلق رکھتے ہیں- خان صاحب کے بے شمار اوصاف ہیں لیکن انکی بذلہ سنجی سارے اوصاف پرحاوی ہے - خالق حقیقی نے ہرایک صورت کیا خوب بنائی ہے اوراسکی ہرایک تخلیق احسن تقویم کا مظہر ہے، اسی طرح خان صاحب بھی ایک خوبرو، پر کشش اور ہنس مکھ شخصیت رکھتے ہیں ۔۔ اور آج بھی باریش خوبرو جوانوں میں ان کا شمار کیا جاسکتا ہے۔۔ عمر رفتہ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔ انہیں 'رفت و بود' اور چراغ و دود' کے چکروں میں ہم نے کبھی پڑتے نہیں دیکھا- ہنس مکھ اس لئے کہا ہے کہ پچھلی بیس پچیس سالہ دیرینہ، مواصلاتی اور فاصلاتی رفاقت کے باوجود انہیں کبھی روتے نہیں دیکھا۔۔۔ بالمشافه بھی نہیں ۔۔۔اور برقی سماجی جالوں میں تو بلکل بھی نہیں ۔۔۔ اور نہ ہی کسی برقی کتب خانہ میں۔۔۔وہ اگر رونے بھی لگیں تو انکی دبی دبی سی مسکراہٹ انکے لبوں سے پھوٹ پڑنے کو بیقرار رہے گی ۔۔۔۔ خان صاحب ضرور ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہونگے جو دنیا میں روتے نہیں آئے ہونگے۔۔۔۔ قہقہے لگا تے نہیں تو کم از کم مسکراتے ہوئے ضرور آئے ہونگے۔۔۔۔۔۔ لباس کے معاملے میں خان صاحب اتنے خوش لباس وا قع نہیں ہوئے جتنے وہ خوش گفتار، خوش اخلاق و خوش شکل واقع ہوئے ہیں۔۔ اس کا یہ مطلب بلکل بھی نہیں ہے کہ خان صاحب لباس کا شوق و ذوق نہیں رکھتے ۔۔۔ بس وہ کبھی بہ مانند حسن لا پروا توکبھی قلندرانہ وضع قطع لئے ہوئے رہتے ہیں جو اکثر اہل قلم کا خاصہ رہا ہے- انکے مزاج کے اس راز سے بھی پردہ اٹھاتے چلیں کہ وہ چاہے جس سے جہاں کہیں ملتے ہوں ، فی الحقیقت ہمیشہ اپنے افکار کی گرفت میں رہتے ہیں- چونکہ فطرتا ملنسار واقع ہوئے ہیں اس لئے ملاقات کے آداب و قرائین سے سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے، زندہ دلی اور خلوص کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آتے، اور کسی کو اس حقیقت کی بھنک پڑنے بھی نہیں دیتے کہ وہ دراصل ہیں کس کے ساتھ ۔۔۔۔ملاقاتی کے یا اپنے افکار کے ساتھ-

خان صاحب کے والد محترم جنہیں گھر میں اور باہر سب پیار و احترام سے بابا کہہ کر بلایا کرتے تھے، ایک نورانی شخصیت اور رعب دارشخصیت کے حامل اور دینی علوم پر دسترس رکھنے والے خدا ترس انسان تھے- مگر جب گفتگو کرتے تو وہی شبنمی طبیعت کا احساس دلاتے جس کا پرتو خان صاحب میں نظر آتا ہے ۔۔ کیوں نہ ہو درخت اپنے پھل سے ہی پہچانا جاتا ہے ۔۔۔۔ آپ کی والدہ ماجدہ (اماں) کا یہ حال تھا کہ انہیں دیکھ کر اور مل کر ہر شخص کو فرحت و سکون کا احساس ہوتا تھا جیسے طویل سفر کے بعد درخت کی ٹھنڈی چھاوں میں بیٹھنے سے ہوتا ہے۔۔۔اور یہ وصف بھی خان صاحب میں اپنی والدہ کی طرف سے ہی بخشا گیا ہو گا۔۔۔ خان صاحب بڑے خان مان شخصیت کے حامل ہیں۔۔۔۔۔ دلنوازی، مہمان نوازی بلکہ ہر ایک ضرورت مند کو نوازنے کا شوق ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔۔۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو یا تو ودیعت کردہ ہوتے ہیں یا پھر والدین کی تربیت سے عہد طفلی سے ہی کچھ یوں پرورش پاتےہیں جس کے لئے اردو میں کوٹ کوٹ کر بھرنے سے مناسب کوئی اور محاورہ ہمیں نظرنہیں آیا۔۔۔ اورایسی دونوں نعمتوں سے مالا مال کسی شخصیت کا ذکر کرنا ہو تو علیم خان سے بہتر مثال ہمیں تو نظر نہیں آئی –

جب بات مشترکہ طور پر اردو ادب و قواعد اور خان مان کی ہو رہی ہوتو خان کے ساتھ پان کو طاق پر رکھا نہیں جاسکتا– خان صاحب کا مزاج و مذاق ان دو اوصاف کا خوبصورت امتزاج ہے۔ خان صاحب بے حد مودب و مہذب شائقین پان میں شمار ہوتے ہیں – وہ ان چند شائقین میں سے ہیں جن پر پان نوشی معیوب نہیں لگتی ۔۔۔۔وہ جب پان چبانے سے آزاد ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے اب بھی کچھ ہونٹوں کے درمیان دبائے بیٹھے ہیں، کو ئی راز، کوئی بات، کو ئی مسکراہٹ، یا پھر کوئی ڈلی جو ان کے دبیز تبسم کو گرفت میں رکھی ہوئی ہے۔۔۔۔ خان صاحب عام شائقین کی طرح نہیں ہیں جو پان کی پیک میں نقطوں کو غوطہ دیتے ہیں اور ڈلییوں کو گھما پھرا کر بات کرتے ہیں، نہ ہی خان صاحب کبھی غصہ سے بے قابو ہو کر لفظوں کو ڈلی کے ساتھ چبا تے ہیں، اور نہ ہی اردو قواعد کو زیر وزبر کرتے ہیں ۔۔ مشدد کی ادائیگی پر انہیں دیگر شائقین پان کی طرح کوئی مشقت اور دقت نہیں ہوتی- وہ بے حد شفقت سے لفظوں پر ضرورتا تشدید لگالیتے ہیں جو عموما شایقین پان کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔۔ خان صاحب کی پان نوشی اور اردو قواعد کا یہ بھی کمال ہے کہ حروفِ فجائیہ انکے لئے ذرا بھی تکلیف دہ نہیں ہوتے۔۔۔اور انشاءاللہ ماشاءاللہ کہتے ہوئے انہیں آسمان کی سمت گردن اٹھا کر بے بس ہوتے کبھی دیکھا نہیں گیا- وہ واہ واہ اور تھو تھو جیسے حروفِ فجائیہ کے استعمال سے اعراض برتتے ہیں لیکن۔۔۔ کہاں کہیں وہاں یہاں۔۔۔۔ جیسے حروف کو ادا کرتے ہوئے انکی کتھئی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جا تی ہے، بلکہ ان حروف کو گلوری کی چاشنی میں ڈبو کر جب وہ حلق سے ادا کرتے ہیں تو سننے اور دیکھنے والے کو یک گونہ فرحت کا احساس ہوتا ہے۔۔۔ اور ہاں حروفِ تخصیص اورعطف کی ادائیگی پر انکا جاذب نظر چہرہ دیکھنے لائق ہوتا ہے جب وہ ۔۔۔۔ کب جب نہ نہ۔۔۔۔ کہتے ہوئے تبسم ریز ہوتے ہیں۔۔ انہیں ایک عام پان نوش کی طرح کبھی سڑکوں کو گلنار کرنے کی حاجت نہیں ہوتی اور نہ ہی اپنے لبوں کو رنگنے کی-

عام طور پر پان نوشی کرنے والوں کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ بے تحاشا اور بے محابا بولنے کی غلطی نہیں کرتے، ان میں سے اکثر تو شام ڈھلے گھر لوٹنے پر ایک سے زاید گلوری منہ میں رکھ لیتے ہیں۔۔ ایسے حضرات کی ازدواجی زندگی میں تھو تھو اور تو تو میں میں کے امکانات بلکل بھی نہیں ہوتے۔۔۔ کیونکہ ایک لب بستہ کے سامنے دوسرے فریق سے ۔۔۔میں میں۔۔۔تو ہو سکتی ہے لیکن تو تو میں میں نہیں ہو سکتی۔۔۔ یہ نسخہ مرد حضرات کو ذہن نشیں کرنا ضروری ہے، خاصکر عمر رسیدہ حضرات کو- ہمیں یقین ہے کہ اس نسخۂ کیمیا کا استعمال خان صاحب زندگی کے ہر شعبے میں کرتے آئے ہیں، اس لئے ہر حال میں انکو احباب نے پرسکون اور خاموشی کے ساتھ بولتے دیکھا ہے- مزاج و مذاق کا یہی وہ خوبصورت امتزاج ہے کہ خان صاحب کا شمار بہترین اہل افکار و زبان و قلم کے علا وہ ایک صابر سامع میں بھی ہوتا ہے، جو اپنی توانائی مجتمع کر کے مناسب وقت اور جگہ پر استعمال کرنا جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔

خان صاحب کی ہم نے جہاں سحر بیانی دیکھی ہے ونہیں ان کے قلم کا جادود سر چڑھ کر بولتے بھی دیکھا ہے۔۔۔۔ بے شمار مضامین، تصانیف، مقالات اور مراسلات کے خالق علیم خان فلکی صاحب کے چند ایسے کار ہائے نمایاں ہیں جن کا کوئی بدل نہیں ۔۔فی الحقیقت آپکی شخصیت شش جہت پہلووں کی حامل ہے - آپ نے دینی، سما جی، عائلی، سیاسی اور ادبی مسائل پر قلم اور علم دونوں اٹھایا ہے اورعملیت پسندی کا ثبوت بھی دیا ہے۔۔۔ آپ نے دین و ادب کی طویل عرصہ خدمات انجام دی ہے اور کئی دینی اور ادبی اداروں سے منسلک بھی رہے ہیں، اور دامے درمے سخنے امداد بھی کی ہے۔۔ خان صاحب نے شاعری اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کی ہے، بلکہ ادب کی تقریبا ہر ایک صنف میں۔۔ پھر وہ سفر نامے ہوں یا خاکے، طنز و مزاح ہو یا سنجیدہ مضامین- خان صاحب چونکہ دوست نواز اور دلنواز ٹہرے اس لئے خاکے تحریر بھی کئے تو ان احباب کے لئے جو انہیں کی طرح بے لوث ہوکر علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔۔۔ انکے تحریر کردہ مزاحیہ خاکے قطرہ قطرہ نوش کرنے لائق ہیں۔۔۔۔ آپکا اسلوب گرچہ روایتی ہے لیکن طنز و مزاح اور سادگی کا ان کا اپنا ایک انداز ہے- الغرض کون سے ایسے شعبے ہیں جہاں خان صاحب نے اپنا کمال نہ دکھایا ہو- آپکی مشہور تصانیف میں "مرد بھی بکتے ہیں" اور لائف انشورنس اور مسلمان (انگریزی) ۔۔۔۔ حج / عمرہ یا مذہبی پکنک۔۔۔۔۔۔ شائع ہو چکی ہیں - آپ جناب مختلف ا صلاحی تحریکوں اور تنظیموں سے بھی جڑے رہے ہیں اور برقی مواصلاتی نظام کا بخوبی استمال کرتے ہوئے دو برقی خانہ "ویب سائیٹس" بھی کھول چکے ہیں جس میں ایک مسلم سوشیو ریفارمز سوسائیٹی اور دوسرے علیم خان فلکی کے نام سے موجود ہے - آپ نے یہیں پر بس نہیں کیا ہے بلکہ پچھلے ٢٥ سے زائد برسوں سے وہ مسلسل تجارت، صنعت و حرفت، طباعت، اشاعت سے بھی کچھ یوں جڑے رہے ہیں کہ یہ کہنے میں ہمیں کوئی عار نہیں کہ دشت کے دشت بھی نہ چھوڑے ، بلکہ ہر ایک میدان میں آپ نے عقل و دانش کے گھوڑے دوڑائے ہیں –

ہزاروں واقعات اور بے شمار یادیں ہیں جو علیم خان فلکی کی ذات سے وابستہ ہیں اور جس کے گواہ مشرق سے مغرب تک ہر ملک میں مل جائیں گے۔۔۔ ایک ہم ہی انکے گرویدہ نہیں ہیں بلکہ اس بزم میں بھی انکے بے شمار چاہنے والے ہیں۔۔۔۔۔ خان صاحب کی شخصیت کا خاکہ محدود صفحات میں کب تحریر ہوسکتا ہے- کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ انکے پیکر و اوصاف کے خطوط کو کسقدر اور کہاں تک کھینچا جائے۔۔۔۔واقعی اس سے زیادہ ہم سے نہیں کھینچا جائے ہے ۔۔۔ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا انکی سوانح عمری میں ہی ممکن ہے- لوگ باگ بے وجہ ہی کہتے ہیں کہ اب کہاں ایسی عبقری شخصیات جو بے لوث ہو کر دین و ادب، سماج اور انسانیت کی خدمت کرتی ہیں۔۔۔ خان صاحب ہیں نا، آپ کبھی ان سے مل کر تو دیکھیے۔۔۔۔ ہماری بات پر یقین آ جائیگا -


***
Zubair Hasan Shaikh (Mumbai).
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

In making the sketch of Aleem Khan Falaki. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں