صدر ہند کی تقریر میں صرف بی جے پی کی بیان بازی شامل ہے - ایس ڈی پی آئی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-12

صدر ہند کی تقریر میں صرف بی جے پی کی بیان بازی شامل ہے - ایس ڈی پی آئی

سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے پارلیمنٹ میں مشترکہ اجلاس میں صدر ہند کے خطاب پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کے نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے ترجیحات اور ایجنڈوں کا اعلانات بی جے پی کے بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ ایس ڈی پی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ محض منصوبہ بندی کے وعدے کرنے کی بجائے ان منصوبوں پر عمل درآمد کرے۔صدر ہند کے خطاب میں صرف بی جے پی کے انتخابی نعرے اور انتخابی منشور شامل ہیں اور بی جے پی ان پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے قومی صدر نے اس تعلق سے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں کہا ہے کہ روایتی طور پر حکومت کے منصوبوں کے تعلق سے صدر ہند کا خطاب سیاسی اشاروں کے آلہ کے طور پر اور عموما حکومتوں کے نیک نیتی اور خواہش کے فہرست کا مجموعہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔حکومتیں اکثر اپنے وعدوں پر پوری وفاداری کے ساتھ عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں سے اتحادکی سیاست کاچلن عام تھا ، سبکدوش ہونے والے حکومتوں میں حصہ لینے والے شراکت دار پارٹیوں کی کھینچ تان کی وجہ سے گزشتہ حکومتیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ تاہم ، بی جے پی کو 16ویں لوک سبھا میں اطمینان بخش اکثریت حاصل ہے، جس سے بی جے پی کو کسی الجھن کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا ،عام آدمی کو حکومت سے زیادہ سے زیادہ یہ توقع ہے کہ حکومت صرف بیان بازی کے بجائے اپنے فرض منصبی کو پورا کرے۔ اعلی اقتصادی ترقی تب تک بے معنی ہے ایک مناسب احتساب کا نظام لاگو کئے بغیر کرپشن پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے۔ آزادانہ تحقیقات اور مقدمہ چلانے والی ایجنسی، بدعنوان سیاستدانوں پر مقدمہ چلانے اور انہیں فوری سزا دینے کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتیں وغیرہ کا قیام جب تک نہیں کیا جائے گا ، تب تک اعلی اقتصادی ترقی کی طرف سے حاصل شدہ تمام دولت، بیرون ملک کے خفیہ بینک اکاؤنٹس میں منتقل ہوتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو دن میں خواب دیکھنا چھوڑدینا چاہئے۔ چین کے ساتھ مقابلہ کرنے سے پہلے یہ کوشش کریں کہ انڈونیشیا، تھائی لینڈ، ویتنام، اور ملیشیا جیسے ممالک سے ہم مطابقت کریں ۔ حقیقت یہی ہے کہ چین ہندوستان کے مقابلے میں بہت آگے نکل چکا ہے۔ ایس ڈی پی آئی قومی صدر نے اس بات کی طرف خاص نشاندہی کی ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ یو پی اے حکومت کی کارکردگی سے مایوس تھا، لیکن ہم اس حقیقت کو بھی نہیں بھول سکتے کہ سال 1998تا2002این ڈی اے بھی بر سر اقتدار تھی، جبکہ اس وقت این ڈی اے نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کا دعوی کیا تھا ، لیکن عام لوگ اس دعوی پر مطمئن نہیں تھے اور عوام نے سال2004اورسال2009میں این ڈی اے کو مسترد کردیا۔ جس کے بعد یو پی اے کو اقتدار حاصل ہوا، لیکن بعد کے سالوں میں یو پی اے کی ناقص حکمرانی اور بدعنوانیوں کی وجہ سے عوام ناراض ہوگئے، اسی ناراضگی کا استعمال کرتے ہوئے اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نریندر مودی نے یوپی اے اور کانگریس کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ 65سال کی غلط حکمرانی کی سزا کانگریس کو ملی ہے، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ عوام کتنے عرصے تک مشکلات سے دوچار رہیں گے۔ انہوں نے بی جے پی کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ سن1984میں راجیو گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے 400سے زائد نشستیں حاصل کی تھیں۔ لیکن اس وقت کانگریس نے کوئی بھی خاطر خواہ یا شاندار کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائی، اس کے برعکس صرف سنگھ پریوار کے مذہبی اور بنیاد پرست حملوں کا نشانہ بنی۔ اس وقت پی چدمبرم کی سربراہی میں حزب اختلاف پارٹیوں کو چیخ چلا کر ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی، اکثریت حاصل ہونے پر تکبر کا مظاہر ہ بھی کیا گیا، لیکن وہ سب کچھ کانگریس کے کچھ کام نہیں آیا، اس سے بی جے پی قیادت والی حکومت کو بھی کو سبق لینا چاہئے اور لوک سبھا انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے اسی طرح کا تکبر نہیں کرنا نہیں چاہئے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اعلانات پر عمل درآمد کرنا کیا جائے ، صرف اعلانات کردینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بی جے پی کو خوردہ فروشوں اور صارفین دونوں کے مفادات کاتحفظ کرنا پڑے گا، یہ بات صاف ظاہر ہے کہ افراط زر کی شرح کے معاملے میں نمٹنے کے لیے بی جے پی کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہے۔ سب سے پہلے مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے آس پاس ہی موجود فاشسٹ طاقتوں پر کنٹرول کریں ، جو مودی حکومت کے بر سر اقتدار آتے ہی اپنے چہرے دکھارہے ہیں اور اپنے ناپاک ایجنڈوں پر عمل کرنے کے لیے متحرک نظر آرہے ہیں۔ درین اثناء قومی صدر اے سعید نے کہا کہ نئی حکومت عام آدمی کے اہم مسائل پر توجہ دینے کے بجائے متنازع مسائل پر زیادہ توجہ دے رہی ہے، مودی کابینہ کے حلف برداری کے فورا بعد کچھ وزراء نے دفعہ 370کی منسوخی ، یونیفارم سیول کوڈ اور دیگر متنازعہ مسائل کو پر آواز اٹھانا شروع کردیا تھا، جبکہ عوام یہ چاہتے ہیں مہنگائی ، بے روزگاری اور زرعی مسائل کا حل اور خواتین کے خلاف ہورہے جرائم میں اضافہ پر حکومت کنٹرول کرے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں