نجمہ ہیبت اللہ کے بیان سے مایوسی مناسب نہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-06

نجمہ ہیبت اللہ کے بیان سے مایوسی مناسب نہیں

najma-heptullah
مسلم ریزوریشن پر مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ کے بیان پر مسلمانوں کی جانب سے عام طور پر ظاہر کیا گیا رد عمل فطری تو کہا جاسکتا ہے غیر جانبدارانہ نہیں کہاجاسکتا ۔ خاص طور پر بعض مسلم حلقوں کی جانب سے وزیر موصوفہ کی شخصیت کو نشانہ بناکر ظاہر کیے گئے رد عمل کو تو قطعی مناسب ہی کہا جائے گا ۔ اس لئے ان کا بیان شخصی نوعیت کا نہیں تھا ۔ انہوں نے اپنے بیان کے ذریعہ ایک طرح سے مسلم ریزرویشن پر اپنی پارٹی بی جے پی کے دیرینہ موقف کا ہی اعادہ کیا تھا جو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ابتداء سے ہی مسلم ریزرویشن کی مخالف رہی ہے ۔ اس لئے مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کے بیان پر سخت رد عمل کے بجائے سنجیدہ مسلم قیادت کی جانب سے مرکزی حکومت سے یہ دریافت کیا جانا چاہئے تھا کہ کیا موجودہ این ڈی اے حکومت آر ایس ایس کی فکر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈے کے مطابق کام کرے گی یا ہندوستان کے آئین و قوانین کے مطابق؟
اسلئے کہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں ۔ کسی پارٹی کی اپنی خانہ ساز پالیسی خواہ کچھ بھی ہو مگر جب وہ برسر اقتدار آتی ہے تو اسے ملک کے آئین کے مطابق تمام شہریوں کے مفاد کا نہ صرف خیال رکھنا ہوتا ہے بلکہ یہ اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے ۔ مسلمانوں کے لئے او بی سی کوٹے سے4.5فیصد ریزرویشن دیے جانے کا معاملہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔اس کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔
یہ اور بات ہے کہ سابقہ حکمراں جماعت خاص طورپر کانگریس نے اپنی بدنیتی یا طریق کار سے اسے متنازع بنادیا ہے ۔ ورنہ اس میں کسی قسم کا داؤ پیچ تھا ہی نہیں ۔، منڈل کمیشن کی سفارشات کے مطابق دیگر پسماندگہ طبقات (او بی سی) کے لئے جو27فیصد ریزرویشن مقرر کیا گیا تھا اس کی نوعیت درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل(ایس سی؍ایس ٹی) کے لئے مختص23فیصد ریزروشن سے قطعی مختلف ہے ۔ او بی سی کوٹہ کے تحت ریزرویشن کا فائدہ حاصل کرنے والوں کے لئے مذہب کی کوئی قید نہیں ہے ۔ او بی سی میں شامل ذاتیں بلا تفریق مذہب اس سے استفادہ کرسکتی ہیں بلکہ کررہی ہیں ۔ اس میں مسلمانوں کی بھی کئی برادریاں شامل ہیں ۔ بعد میں یہ محسوس کیا گیا کہ اس او بی سی کوٹے کے تحت بھی مسلمانوں کے ساتھ وہی بھید بھاؤ ہورہا ہے جو دیگر مقامات پر عام ہے ۔، مثال کے طور پر دھوبی ، درزی ، لوہار، نائی وغیرہ ایسی برادریاں ہیں جو ہندو مسلمان سبھی میں پائی جاتی ہیں ۔ نتیجہ کے طور پر یہاں بھی وہی ہوا ۔ مسلمان اپنے ہم پیشہ غیر مسلم بھائیوں سے پیچھے رہ گئے ۔ اس مسئلہ سے نجات حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ او بی سی میں شامل مسلم پیشہ وار برادریوں کا کوٹہ مختص کردیا جائے، جو حقیقی معنوں میں8.5فیصد ہوتا ہے ۔ راقم کے مخصوص ذرائع کے مطابق ایک بار اتر پردیش کی بی ایس پی حکومت نے بھی مسلم برادریوں کا کوٹہ مختص کرنے کا ذہن بنایا تھا مگر بعض نادیدہ دباؤ کے تحت ارادہ ملتوی کردیا تھا ۔ یہ بات پ وری طرح عام بھی نہیں ہوپائی ۔

اس کے بعد کانگریس نے مختلف انتخابات کے موقع پر مسلمانوں کے لئے4.5فیصد ریزر ویشن کا شوشہ چھوڑنا شروع کیا، جس کی آر ایس ایس اور بی جے پی حلقوں کی طرف سے زبردست مخالفت ہوئی ۔ اس صورت حال سے مسلمانوں کا تو کوئی بھلا نہیں ہوا عوام کے اندر بلا وجہ اور غیر ضروری طور پر صف آرائی ہوگئی اور ریزرویشن کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا جہاں کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی ۔

تازہ صورتحال یہ ہے کہ سابقہ یو پی اے حکومت نے ریاستی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہوا ہے اور معاملہ عدالت عالیہ کے زیر غور ہے ۔ نجمہ ہبت اللہ کے بیان سے مسلمانوں کو یہ محسوس ہوا کہ چونکہ موجودہ این ڈی اے حکومت دراصل بی جے پی کی حکومت ہے جو ریزریوشن کی مخالف رہی ہے ، اس لئے ان کا کام نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ مسلمانوں کا اندیشہ درست ثابت ہو اور موجودہ حکومت سابقہ مرکزی حکومت کے فیصلے کے برعکس عمل کرے ۔ اس کے باوجود اندیشوں کی بنیاد پر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنا وفد بنا کر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں اور اپنے مطالبات ان کے سامنے پیش کریں ۔ پہلے سے کیس بات کو فرض کرکے خاموشی اختیار کرلینا مناسب نہیں کہاجاسکتا ۔ نریندر مودی صرف ان کے وزیر اعظم نہیں جنہوں ںے ان کو ووٹ دئیے ہیں ۔ وہ پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں ۔، ملک کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان سے اپنے مسائل کے حل کی درخواست کرے اور ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ملک کے ہر شہری کے فلاح و بہبود کی فکرکریں ۔ مسلمانوں کو مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ کے ریزرویشن مخالف بیان سے مایوس ہونے اور بچکانہ رد عمل کے اظہار کے بجائے مرکزی حکومت کے سامنے اپنی بات رکھنی چاہئے اور انتہائی موثر انداز میں رکھنی چاہئے ۔

***
عتیق مظفرپوری
عتیق مظفرپوری

There should be no disappointment from the statement of Najma Heptullah. Article: Ateeq Muzaffarpuri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں