یوم پدر کے موقع پر عائلی قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ - دہلی میں دھرنا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-16

یوم پدر کے موقع پر عائلی قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ - دہلی میں دھرنا

آج یوم پدر کے موقع پر مردوں کے حقوق کی وکالت کرنے والے سرگرم کارکنوں کے ایک گروپ نے مانگ کی ہے کہ طلاق یا علیحدگی کی صورت میں بچوں کے والدین کے مشترکہ نگہداشت میں رکھاجانا چاہئے ۔ کارکنوں نے عائلی قوانین میں اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا تاکہ بن باپ کے معاشرہ کی تخلیق کو روکا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مانگوں کی تکمیل نہیں کی گئی تو عوام کے لئے آج کے دن کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔ شمالی علاقہ سے تعلق رکھنے والے زائد از100حقوق کارکن یہاں جنتر منتر پر جمع ہوئے اور دن بھر دھرنا دیا ۔ انہوں نے جنسی مساوات پر مبنی عائیلی قوانین کی تدوین کا مطالبہ کیا ۔ ایک حقوق کارکن جیوتی تیواری نے آئی اے این ایس کو بتایا کہ’’ آج اس خصوصی دن ہمارا احتجاج بنیادی طور پر بچوں کو ان کے والدین سے الگ کردینے کے خلاف ہے ۔ مبنی پر امتیاز عائلی قوانین کے سبب ایسے علیحدگی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ قوانین غیر دستوری اور نہ صرف ہندوستانی معاشرہ اور تہذیبی اقدار کے مغائر ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے ۔ ایسے قوانین میں ترمیم ہونی چاہئے ۔ تیواری نے کہا کہ حقوق کارکن ایسے زائد از1000باپوں کے دستخط حاصل کرلیے ہیں جو جنسی جانبداری پر مبنی قوانین کے سبب اپنے بچوں سے محروم ہیں ۔ حقوق کارکن عنقریب وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی ملاقات کریں گے۔ دہلی میں آج منظم کردہ احتجاج میں’کرسپ‘‘ تنظیم کے چندگڑھ ،شملہ، دہلی اور لکھنو یونٹوں سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے شرکت کی اور طلاق یا علیحدگی کے کیسس میں بچوں اور والدین کی مشترکہ نگہداشت یا مشترکہ تحویل میں دینے کی مانگ کی ۔ کرسپ تنظیم کے قومی صدر کماروی جاگیر دار نے کہا کہ’’بچوں کے لئے ہمارا مطالبہ بنیادی طور پر موافق خاندان اصلاحات سے ہے یہ بچے ، بے آوا ز مظلوم ہیں اور ان کے حقوق ، راست طور پر ان کے ماں باپ سے ملحق ہے ۔ جاگیر دار نے کہا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے بموجب سال2012میں ملک میں63,343شادی شدہ مردوں اور31,921شادی شدہ خواتین نے خود کشی کی ۔ جاگیر دار نے بتایا کہ ’’خود کشی کرنے والے شادی شدہ مردوں کی تعداد، خود کشی کرنے والی شادی شدہ خواتین کی تعداد سے لگ بھگ دگنی ہے ۔، علیحدگی کے بیشتر مقدمات میں مردوں کو اکثر ، تصفیہ رقم ، کے طور پر بھاری رقومات ادا کرنی پڑتی ہیں ۔ یا تو یہ رقومات ادا کی جاتی ہے یا پھر مرد، خود کشی کرلیتے ہیں ۔ مردوں کے حقوق کی ایک اور حامی شاہ علی نے کہا کہ ’’امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو والدین کی مشترکہ نگہداشت میں دینا لازمی ہے ۔’’ہندوستان بھی اس معاہدہ کا ایک دستخط کنندہ ہے ، اور ماں باپ دونوں کو مساوی طور پر فطری والدین متصور کرتا ہے‘‘۔ اسی دوران بنگلور کے ایک سافٹ ویر انجینئر من پریت بھنڈاری نے جو علیحدگی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں کہا کہ’’مجھ جیسے افراد کے لئے یوم پدر کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، عدالتی حکم کے باوجود مجھے اپنے بچے سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے ۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں