کتاب عرض ہے - منور رانا کا بغیر نقشے کا مکان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-15

کتاب عرض ہے - منور رانا کا بغیر نقشے کا مکان

Baghair naqshe ka makaan
کتاب : بغیر نقشے کا مکان
مصنف : منور رانا
مبصر : تحسین منور

ہم نے کتاب عرض میں اس باریوں ہی خوامخواہ منوّر رانا صاحب کے بغیر نقشے کے مکان میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیاہے۔ہوا یوں کہ گزشتہ دنوں منوّر رانا صاحب کے ساتھ پریس کلب آف انڈیا ،دہلی میں ایک شام بتانے کا موقع مل گیا تھا۔ وہاں ان کے ہر شعر پر وہ صحافی بھی داد و تحسین بلند کر رہے تھے جو گزشتہ کئی ماہ سے نمومیڈیا کے شکار ہیں ۔حالانکہ منوّر رانا صاحب کی شاعری جو ملک کی صورتِ حال پر تبصرہ کرنے سے بھی نہیں چوک رہی تھی انہیں بھی نشانہ بنانے سے پرہیز نہیں کر رہی تھی۔ نہ جانے کیوں ان کے ساتھ کریم ہوٹل میں مغز کھانے کے بعد دماغ کا کون سا گوشہ متحرک ہوگیا کہ والد مرحوم حضرت پروانہؔ رُدولوی مرحوم کا ایک جملہ ذہن میں کوند گیا ،"منوّر رانا کو سمجھنا ہو تو ان کی نثر کا مطالعہ کرو ،وہ شاعری سے اچھی نثر کہتے ہیں"۔اس کے بعد ہم نے اپنی کتابوں کی الماری میں کئی بار غوطہ لگایا تب کہیں جاکر ہمارے ہاتھ ان کا وہ بغیر نقشے کا مکان آپایاجو انہوں نے کبھی ابّا کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اب آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے جیسا انسان جو کہ سول انجینئرنگ کرنے کے باوجود اُردو کی محبت میں ادیب کامل اور ایم اے اُردو کرکے اُردو والوں کی ہی طرح بغیر نقشے کے مکان میں رہ رہا ہو اس پر ان کے اس بغیر نقشے کے مکان کا کیا اثر پڑا ہوگا۔بس یہ سمجھ لیجئے کہ ہم نے یوں تو اپنے والد صاحب کی کئی باتوں کو ہو بہ ہو یوں ہی نہیں مانا جب تک کہ خود تجربہ نہیں کرلیا مگر ان کی اس نثر کو پڑھنے کے بعد ہمیں بھی یہی محسوس ہوا کہ منوّر رانا کی شاعری کے مقابلے میں اگر تولا جائے تو ان کی نثر بھاری نکلے گی مگر جب ان کی شاعری کی حفاظت میں ان کی شاعری میں موجود ماں کی ممتا آجائے گی تب ان کی نثر کو احتراماً خود کو کمزور کرنا ہی پڑے گا۔
بغیر نقشے کا مکان 2001ء میں شائع ہوئی تھی ،اس کے بعد ان کے انشائیے اور خاکے 2007ء میں" چہرے یادرہتے ہیں ''کے نام سے منظر عام پر آئے تھے ۔اس کے علاوہ ڈھلان سے اترتے ہوئے،پھنّک تال اورسفید جنگلی کبوتر میں بھی ان کی نثر کا کامیاب اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ لیکن آج ہم بغیر نقشے کا مکان عرض کرنا چاہتے ہیں۔بغیر نقشے کا مکان کیا ہے بلکہ کلکتہ کا ادبی منظر نامہ ہے۔ ادبی منظر نامہ ہی نہیں بلکہ اردو کی چلتی پھرتی تہذیب ہے۔ اُردو کی چلتی پھرتی تہذیب ہی نہیں بلکہ قدم قدم پر تڑپتی زندگی ہے۔ تڑپتی زندگی ہی نہیں یہ منوّر رانا کے ذریعے آباد کی جارہی لفظوں کی ایک ایسی کہکشاں ہے جہاں ہرجملہ جو سہل سالگتا ہولیکن بہت بڑی بات ایسی دلکشی کے ساتھ ادا کر دیتا ہے کہ پڑھنے والا اس میں ڈوب جاتا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ ایک ہی نشست میں اسے پلٹ کر رکھ دیں گے مگر نہیں کتاب ہر وقت ساتھ چلتی رہی۔ جن لوگوں پر خاکے ہیں وہ ساتھ ساتھ ذہن میں جگہ بناتے چلے گئے۔ وہ ماحول ،وہ تہذیب ،وہ تمام وارداتیں جو اس میں رقم ہیں پیچھا ہی نہیں چھوڑرہی تھیں ۔اس پر سے ہمارا سماج سے بار بار کا فون ،کہاں ہے کتاب عرض ہے؟ ارے انہیں کون بتائے جس بغیر نقشے کے مکان کا تذکرہ یہاں ہو رہا ہے اسے یوں ہی نہیں لکھا جا سکتا۔اس کے احترام میں لفظوں کا جہاں آباد کرنا پڑتاہے۔زرا جملوں کی باغ و بہار صورت تو دیکھئے۔
" علم کی دیوی سرسوتی اپنے مندر میں سیاسی مجرے کی اجازت کبھی نہیں دے سکتی ہے" ۔
"ادب رکھیل کی طرح نہیں ہوتا کہ جس کے جسم اور سانسوں پر شہر کے کسی ایک رئیس کا قبضہ ہو جائے"۔
"ادب کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے والے دہشت گرد تو ہو سکتے ہیں لیکن شاعر و ادیب ہر گز نہیں ہوسکتے"۔
اس شہر میں آئینے ہمیشہ کم فروخت ہوتے ہیں کیوں کہ یہاں ہر چہرہ آئینہ صفت رہا ہے"۔
"ابھی جمنا کے مقدس پانی سے بزرگوں کے سجدوں کی خوشبو آتی ہے۔ابھی مقدس گنگا کی سنہری لہروں سے چندن ٹیکے کی مہک محسوس ہوتی ہے"۔
پروفیسر مظفر حنفی صاحب سے منوّر رانا کا جو تعلق ہے وہ ان کی شاعری اور مظفر حنفی جانتے ہیں مگر کلکتہ میں مظفر حنفی صاحب نے اپنے قیام کے دوران منوّر رانا کو حد درجہ متاثر کیا۔ ان کے اوپر لکھے خاکے میں کہتے ہیں۔
" ڈاکٹر صاحب کو کتابیں پڑھنے کا اتنا ہی شوق ہے جتنا بشیر بدر کو مشاعرے پڑھنے کاہے۔سفر میں ڈاکٹر صاحب مستقل کتابیں پڑھا کرتے ہیں۔کتابوں سے تھک جاتے ہیں تو اسٹیشنوں کے نام اور مسافروں کے چہرے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ہوٹل پہنچتے ہی ڈاکٹر صاحب پھر کتابوں کی ورق گردانی میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔کتابیں ختم ہو جاتی ہیں تو ٹیلی فون ڈائرکٹری پر نگاہِ کر م ڈالتے ہیں ۔ڈائرکٹری سے لُطف اندوز ہوجاتے ہیں تو ہوٹل میں رکھی بائبل پڑھنا شروع کر دیتے ہیں "۔ اسی خاکے میں ایک جگہ اُردو کی حالت پر کمال کا جملہ تحریر کر دیتے ہیں ۔ویسے اُردو کو لے کر اس پوری کتاب میں جابجا ایسے طنز کے تیرو نشتر ہیں جو اُردو کی حالتِ زار کے مجرموں کو سیدھا نشا نہ بناتے ہیں۔ " فی الوقت جتنے بھی ادبی خواجہ سراہیں وہ کسی نہ کسی سرکاری یا نیم سرکاری عہدوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں اور بے چاری اُردو غزل حرم سرا کی آبرو بھی ہے اور چوکیدار بھی"۔ایک اور جگہ اسی خاکے میں لکھتے ہیں ۔" میں تو موجودہ اُردو ادب کے اربابِ اقتدار کی طرح قلم بیچ کر ریشمی دو شالہ خریدنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہوں"۔
بغیر نقشے کے مکان میں آپ کا ہمارا سب کا ہی نشان ہے۔ بغیر نقشے کے مکان کو غریب آدمی سے تعبیر کرکے انہوں نے آغاز میں ہی غریب آدمی کے ساتھ جُڑے زندگی کے ہر پہلوکو بغیر نقشے کا مکان قرار دیا ہے ۔ لیکن یہ کتاب اردو سے محبت کرنے والے ایسے ایسے لوگوں کو ہمارے سامنے لاتی ہے کہ جن سے ہم چاہے واقف نہ ہوں مگر اس نئی پہچان کے بعد محبت ضرور ہو جاتی ہے۔ اس میں ایک خاکہ ثقلین حیدر صاحب کی کلکتہ میں ہوئی موت کے حوالے سے ہے ۔ثقلین حیدر صاحب جب محرم میں رودولی آتے اور مجلسیں پڑھتے تو ان کی تقریر کو سن کر ہم لوگوں حیران ہوتے تھے کہ یہ انسان کیا اپنے دماغ میں کمپیوٹرفٹ کئے ہوئے ہے۔ ان کے انتقال کا حال پڑھ کر رونا بھی آیا اور افسوس بھی ہوا کہ کیسا قابل اور بڑا انسان ہم لوگوں کو میسر تھا اور ہم دو گھڑی بھی اس کے قدموں میں بیٹھ کر علم کا ایک قطرہ تک نہیں لے پائے۔ ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔" سارے ہندوستان میں اردو کو عوام سے جوڑنے کا جتنا بڑا کام اکیلے ثقلین بھائی نے کیا ہے ،چار پانچ اردو اکیڈمیاں مل کر بھی اتنا کام نہیں کر سکتیں۔جو شخص اردو کے حوالے سے کسی بھی بڑے سے بڑے انعام کا حقدار تھا،جو شخص لسانی یک جہتی کے تعلق سے کسی بھی بڑے عہدے کا دعویدار تھا ،جو شخص قومی یکجہتی کی زندہ تصویر تھا،اسے کلکتہ میڈیکل کالج کے اربابِ اقتدار نے مریضوں کی بچی ہوئی دوا سے بچانا چاہا"۔
راحت اندوری کو مشاعرہ کا شاعر کہنے پر طلملائے منوررانا نے جب اس بات پر قلم اٹھایا تو انہوں نے کیا دلچسپ بات کہہ دی۔" اگر قلم ان زمہ داریوں کا ترجمان نہیں ہے تو پھر بہتر ہے کہ اسے شلواروں اور پاجاموں میں کمر بند ڈالنے کے لئے استعمال کیا جائے"۔
بغیر نقشے کے مکان میں موجود انشائیے ہوں یا خاکے سب کے عنوان کسی شعر کا مصرعہ ہیں۔ جگہ جگہ اشعار کی موجودگی سے ان کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ انور جلال پوری کے خاکے میں موجود یہ جملہ پڑھئے۔" کچھ تو انور بھائی کا پوربی شرمیلا پن اور کچھ اقتدارانِ ادب کی بد دیانتی ،دونوں نے مل کر ایک اچھے شاعر کو مشاعرے کا مداری بنا کر رکھ دیا"۔عین رشید پر لکھے خاکے میں یہ آخری غضب کا جملہ پڑھیں۔" ہم ایک مردہ پرست شہر کے باشندے ہیں ۔یہاں ظفر ؔ اوگانوی کے سب مخالف تھے ،لیکن مرحوم ظفر ؔ اوگانوی کے سب شیدائی ہیں"۔
بغیر نقشے کا مکان میں چاہے ہوٹل بازی کی بات ہو یا کبوتر بازی کا ماحول ،بکرا منڈی میں ادیبوں اور شعرا کا غول ہو یا پھر چائے نوشی کے آداب کا تذکرہ یا پھر ٹیلی ویژن کی لعنت پر بات چیت ہو کچھ ایسا پڑھنے کو مل جاتا ہے کہ جگہ جگہ مشتاق احمد یوسُفی اپنی زر گزشت کے ساتھ آن موجود ہوتے ہیں۔منوررانا نے ایک ایک جملے میں پوری زندگی نچوڑ کر رکھ دی ہے۔ ایک مضمون میں جہاں وہ گاؤں سے شہر کی ہجرت کا تذکرہ کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ آپ کا گاؤں آپ کے ساتھ آن کھڑا ہوا ہے۔ یہ منظر کشی فلموں کے پردے پر تو دکھائی دیتی ہے مگر نثر میں ناپید ہوتی جارہی ہے۔
آخر میں اردو اخبارات کی حالت پر یہ پڑھ لیں۔" کلکتہ میں اردو اخبارات ایک دوسرے سے سخت ناراض رہتے ہیں ۔بلکہ اگر ان تمام ایڈیٹروں کو سرکار ریوالور کا لائسنس دے دے تو شاید یہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی گریز نہ کریں "۔لیکن چلتے چلتے یہ جملہ ضرور پڑھئے گا۔" اس زمانے میں اتحاد کا فقدان ہے ۔مسجدیں تقسیم ہو گئی ہیں ۔قبرستان بھی متحدہ ہندوستان کی طرح بٹوارے کی نذر ہو گئے ہیں۔لفظ اتحاد صرف ڈکشنری میں یا لیڈروں کی زبان پر رہ گیا ہے "۔
ہم نے آج کتاب عرض کے حوالے سے منوّر رانا کی شاعری اور ان کی نثر میں جنگ کرانے کی جو کوشش کی ہے وہ اسی صورت میں کامیا ب ہوسکتی ہے کہ جب آپ ان کی نثرکو بھی ان کی شاعری کی طرح پڑھیں ۔جیساکہ ان کا کوئی شعر پڑھتے ہیں۔ یقیناً آپ بھی ہمارے بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ شعر بہت اچھے کہتے ہیں لیکن نثر بہت بہت بہت اچھی لکھتے ہیں۔ہمیں یقین ہے کہ بغیر نقشے کے مکان کے علاوہ ان کی دیگر تحریریں ہماری گواہی میں ضرور کھڑی ہوں گی ۔

***
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book 'Baghair naqshe ka makaan' by Munawwar Rana. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں