کوئی بیماری نہیں صرف یہ کہہ کر کام چھوڑ دینا کہ اب بچہ کمانے لگا ہے۔ میں کیوں کام کروں تو بچے کی زندگی کا کیا ہوگا، وہ کب بچت کرے گا، اور بچت نہیں کرسکا تو بچے کو تو مرتے دَم تک کام ہی کرتے رہنا ہوگا۔ نہیں نہیں مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہئے، معلوم نہیں مجھے ایسے خیالات کیوں آتے ہیں۔ اگر بچے فرماں بردار اور والدین کے اطاعت گزار ہیں، وہ اپنے والدین کو اپنی خوشی سے بیرونی ممالک بلانا چاہتے ہیں اور بار بار حج و عمرے کے لئے بھیجنا چاہتے ہیں۔ تو میں کون ہوتا ہوں، غلط سوچنے والا۔۔۔
یہ اور ایسے ہی بے شمار خیالات ذہن میں سوار تھے اور پھر ایک دن ہماری نظر پنجاب سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار "پنجاب کیسری" میں شائع ہونے والی ایک خبر پر پڑی تو فوری ان بزرگ حضرات کے گروپ کا خیال آیا جوکہ پبلک گارڈن میں واک کرتے ہیں اور جن کے متعلق واضح طور پر گروپ میں سبھی کو نہیں معلوم کے ان کے بچوں کے باہر جانے سے پہلے یہ لوگ کیا کام کرتے ہوں گے، اگر کوئی اعلیٰ عہدے پر فائز رہے ہوں گے تو ضرور فخریہ طور پر اس کا بھی ذکر کرتے تھے، ویسے بھی یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ہر کام ،کام ہی ہوتا ہے، چھوٹا یا بڑا نہیں ہاں چھوٹی تو سوچ ہوتی ہے اور یہی چھوٹی سوچ ہمارے مسلم سماج کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح کھائے جارہی ہے۔
7 جون 2014ء کو "پنجاب کیسری" نے ایک زبردست خبر شائع کی جس کی سُرخی تھی "بیٹا! سانسد (رکن پارلیمنٹ ) بن گیا پر جوتیاں بنانی نہیں چھوڑی"۔ خبر کی تفصیلات کے مطابق ریاست ہریانہ کے حلقہ لوک سبھا انبالہ سے رتن لال کٹاریہ دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے رکن بن گئے ہیں، ان کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ رتن لال کٹاریہ کے والد جیوتی رام آج بھی بقید حیات ہیں اور بدستور اپنا آبائی پیشہ اپنائے ہوئے ہیں۔ جی ہاں! جیوتی رام ایک موچی ہیں اور ان کے چار بیٹے ہیں۔ "پنجاب کیسری" کے ٹیلی ویژن چیانل سے بات کرتے ہوئے جیوتی رام کہتے ہیں کہ موچی کے طور پر مزدوری کرتے ہوئے میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو پڑھایا لکھایا اور بڑا بنایا مجھے فخر ہے کہ میں نے رتن لال کٹاریہ کو بی اے، ایم اے اور پھر ایل ایل بی کروایا۔ اب میرا بیٹا پارلیمنٹ کا رکن بن گیا ہے اور مجھے اپنے ساتھ رہنے بلاتا ہے لیکن مجھے اپنی محنت مزدوری پر فخر ہے اور ریاست ہریانہ کے علاقہ لاڈوا میں اپنی چھوٹی سی دوکان پر جوتے بنانے کا کام کرتے ہوئے جیوتی رام فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ میری جس محنت کے سبب میرے بچے بڑے بنے ہیں، میں اس کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔
یہ سادگی نہیں تو اور کیا ہے ، اسے ہی کہتے ہیں اپنی حقیقت کو نہیں بھولنا۔جیوتی رام کی کہانی میں ہمیں کئی اسباق سیکھنے کو ملتے ہیں کیا ہم سیکھنے کے لئے تیار نہیں، میرے ہاں تو کئی بہانے ہیں، میں تو کہتا ہوں کہ کیا اب ہمیں ایک موچی سے سیکھنا پڑے گا؟ ارے جناب چلتے چلتے آپ بی جے پی کے لوگوں سے سیکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں؟ افسوس ہے مجھے بی جے پی جیسے ہی اقتدار میں آئی آپ کو بی جے پی کے لوگ بھی اچھے لگنے لگے ہیں اور آپ اپنی ہی قوم کے لوگوں میں برائیاں ڈھونڈنے لگے ہیں۔ ٹھیک ہے یہ اور ایسے ہی بے شمار بہانے میرے ہاں بھی ہیں لیکن میرا سوال بدستور اپنی جگہ برقرار ہے۔ اگر ہم اور آپ میں سے کسی کا عزیز رکن پارلیمنٹ بن جائے تو کیا ہمارے ہاں ایسی سادگی باقی رہے گی جیسی کہ رتن لال کٹاریہ کے والد کے ہاں ہے۔ ہمارا تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی رکن پارلیمنٹ کے ساتھ ہماری تصویر بن جائے تو ہمارے چلنے پھرنے اور بات کرنے کا انداز ہی بدل جاتا ہے، دوسری بات جو مجھے معلوم ہے، اگر غلط ہو تو کوئی اس کی تصحیح کردے حضرت علیؓ سے منقول ہے کہ "حکمت کی باتیں مومن کا گمشدہ اثاثہ ہے جہاں سے بھی ملے، لے لو" انگریزی کے میگزین "آؤٹ لُک" نے اگست 2009ء میں ایک خصوصی اسٹوری شائع کی تھی جس کی سرخی "Age is No Bar" تھی، اس اسٹوری میں ایسے بزرگ اور معمر افراد کی کامیابی کو اُجاگر کیا گیا تھا جنہوں نے اپنی عمر سے قطع نظر چلتے رہنے، آگے بڑھنے اور محنت کرنے سے کبھی بھی اپنا دامن نہیں چھڑایا۔ "آؤٹ لُک" کی اسٹوری میں 70 سالہ بی ایم ویش کا بھی ذکر تھا جوکہ اتنی عمر کے باوجود کاروبار کرنا بند نہیں کیا تھا، انہوں نے میگزین کو بتلایا تھا کہ اگر میں اپنا کام بند کردوں اور کھیلنے لگوں تو مر ہی جاؤں گا۔ 70 سال کی عمر میں گڑگاؤں (ہریانہ) کے ویش صاحب اپنے پوتروں کے ساتھ مل کر جرمنی کی ایک کمپنی کے تعاون سے ایک نیا بزنس شروع کرنے جارہے تھے۔
برطانوی اخبار "The Guardian" میں جان ڈین کی ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق 50 برس سے زائد عمر کے برطانوی شہریوں میں اپنا کاروبار شروع کرنے کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ صرف کاروبار کا آغاز کرنے کے معاملے میں ہی نہیں بلکہ 50 برس سے زائد کی عمر والے ان اصحاب کے کاروبار میں کامیابی کا تناسب بھی بہترین ہے اور اس صورتِ حال سے نوجوان کاروباریوں کو رشک آرہا ہے۔
رواں برس جنوری 2014ء میں انگریزی کی میگزین کریر 360 میں مکتا لال نامی خاتون کی ایک خبر شائع ہوئی جس میں بتلایا گیا کہ 68 برس کی یہ خاتون عمر کے اس حصے میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے فاصلاتی امتحان کے مرکز سے اُردو سیکھنا شروع کرتی ہے اور اب اُردو سے ہندی ترجمہ کا کام کررہی ہے۔ کون ہے یہ مکتا لال تو یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ یہ بزرگ خاتون پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی صاحبزادی ہیں اور اب وہ اُردو سے ہندی میں ادبی مضامین ترجمہ کررہی ہیں۔
ڈھونڈو تو راستے بہت ہیں اور بہانے بھی بہت ہیں۔ کام کرنے کے لئے چلو تو کام کرنے کا فائدہ پیسے کی شکل میں ضرور ملے گا اور صحت کے لئے واکنگ بھی ہوجائے گی، اور آپ اگر صرف بیماری کے سبب واک کرنا چاہتے ہیںیا صحت کی برقراری کے لئے چہل قدم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی کیونکہ زندگی آپ کی، بچے آپ کے اور فیصلہ تو آپ کو ہی کرنا ہے اور مجھے کیا کرنا چاہئے ، مجھے طئے کرنا ہے بقول اشفاق احمد صاحب مرحوم :
"جب تم کسی میں عیب دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو، اگر اسے اپنے اندر پاؤ تو اسے نکال دو، یہ حقیقی تبلیغ ہے۔ اسے بزرگان دین تلاوت الوجود کہتے ہیں"۔
اے اللہ ! تو ہم سب کے لئے آسانیاں پیدا فرما اور ہمیں دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والا بنا۔
بقول علامہ اقبالؔ
پتا نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بناکے تقدیر کا بہانہ
***
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
پروفیسر مصطفیٰ علی سروری
اسوسی ایٹ پروفیسر ، ڈپارٹمنٹ آف ماس کمیونکیشن اور جرنلزم ، مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد۔
sarwari829[@]yahoo.com
موبائل : 9848023752
![]() |
مصطفیٰ علی سروری |
Forgetting our roots with an excuse of fate. Article: Prof. Mustafa Ali Sarwari
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں