ملایشیا کی عیسائی اشاعتوں میں لفظ اللہ کے استعمال پر امتناع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-06-24

ملایشیا کی عیسائی اشاعتوں میں لفظ اللہ کے استعمال پر امتناع

کوالالمپور
پی ٹی آئی
ملایشیا میں عیسائی عوام آج اپنی آخری قانونی جنگ ہارگئے ۔ یہ قانونی جنگ’’خدا‘‘(God)کا حوالہ دینے کے لئے لفظ’’اللہ‘‘ کے استعمال سے متعلق تھی ۔ ملایشیا کی اعلی ترین وفاقی عدالت نے آج رولنگ دی کہ(عیسائیوں کی اشاعتوں میں) لفظ اللہ کے استعمال پر امتناع ، قانون کے مطابق ہے ، رولنگ کے نتیجہ میں کئی برسوں سے زیر سماعت انتہائی موجب تقسیم قانونی کیس ، اس مسلم اکثریتی ملک میں اختتام کو پہنچا ۔ مقدمہ کیتھولک چرچ نے دائر کیا تھا ۔ مدعی چرچ نے2007میں حکومت کے عائد کردہ امتناع کو برخاست کرانے کی کوشش کی تھی ۔ حکومت نے اخبا ر ہیرالڈ کے مقامی ملائی زبان کے ایڈیشن میں خدا کا حوالہ دینے کے لئے عربی لفظ’’اللہ‘ کے استعمال پر امتناع عائد کردیا تھا ۔ وزارت داخلہ کے عائد کردہ اس امتنا ع کووفاقی عدالت میں چیلنج کرنے سے متعلق اجازت نہیں ملی ۔ گویا اخبار ہیرالڈ وفاقی عدالت سے یہ اجازت حاصل کرنے میں ناکام رہا ،۔ انتظامی دارالحکومت پتراجیہ میں7ججوں پر مشتمل پیانل نے رولنگ دی کہ حکومت کی تائید میں تحت کی عدالت کا صادر کردہ فیصلہ برقرار ہے ۔ 7رکنی پیانل کے صدر چیف جسٹس عارفین زکریا نے3کے مقابل میں4کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ درخواست کی سماعت ایسے بڑے پیانل نے کی ۔ وزارت داخلہ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کے لئے اجازت کے حصول کے مقصد سے پیش کردہ درخواست کو خارج کرتے ہوئے جسٹس عارفین نے کہا کہ امتناع سے متعلق وزیر متعلقہ کا فیصلہ قانون کے مطابق اور واجبی ہے۔’’اس عدالت مرافعہ نے درست طور پر اس کی جانچ کی ہے اور ہمارے لئے مداخلت کا کوئی موقع نہیں ہے۔ 3کے مقابلہ میں4کی اکثریت سے درخواست خارج کی جاتی ہے ‘‘۔جسٹس عارفین نے کہا کہ عدالت مرافعہ کے پریسیڈنٹ جسٹس رئیس شریف، ملایا کے چیف جج جسٹس ذوالکفلی احمد مکین الدین اور وفاقی عدالت کے جج جسٹس ایس حلیم عمر نے ان کے(جسٹس عارفین کے) فیصلہ کو پڑھا ہے اور اس فیصلہ سے اتفاق کیا ہے ۔ چیف جج آف صباح اور جسٹس رچرڈ ملانجم نے اختلافی فیصلہ میں کہا ہے کہ اس مقدمہ کی عوامی اہمیت اور قانون کے مسائل کے تصفیہ کے لئے وفاقی عدالت کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے درخواست منظور کی جانی چاہئے تھی ۔7رکنی پیانل نے گزشتہ5مارچ کو درخواست (تحت کی عدالت کے فیصلہ کو چیلنج کرنے کی اجازت طلبی سے متعلق درخواست) پروکلائے فریقین کے مباحث کی سماعت کی تھی ۔ اجازت نہ دینے سے متعلق وفاقی عدالت کے فیصلہ کے معنی عملاً یہ ہیں کہ عدالت مرافعہ کا فیصلہ برقرار رہے گا اور (ملایشیا کی)کیتھولک چرچ مزید کوئی اپیلیں نہیں کرسکے گی ۔ دیہاں یہ تذخرہ بے جا نہ ہوگا کہ لفظ اللہ کے استعمال(عیسائی اشاعتوں میں استعمال) سے متعلق قانونی کشاکس2009سے چل رہی تھی جب رومن کیتھولک چر چ نے آرچ بشپ مرفی پکیام کی قیادت میں ایک عدالتی نظر ثانی درخواست پیش کی تھی اور وزارت داخلہ ونیز حکوم کو مدعی علیہا بنایا تھا اور منجملہ دیگر امور کے یہ التجا کی تھی کہ اخبار دی ہیرالڈ میں لفظ’’اللہ‘‘ کے استعمال پر امتناع سے متعلق وزارت داخلہ کے فیصلہ کو غیر قانونی قرار دیا جائے ۔ عدالت مرافعہ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو31دسمبر2009کو کالعدم قرار دیا تھا ۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں اخبار دی ہیرالڈ(ویکلی) کو لفظ اللہ استعمال کرنے کی اجازت دی تھی اور اخبار کی اشاعت میں لفظ اللہ کے استعمال پر امتناع سے متعلق وزارت داخلہ کے فیصلہ کو غیر قانونی باطل اور کالعدم قرار دیا تھا۔

Malaysia's top court rejects Christians' bid to use 'Allah'

1 تبصرہ:

  1. This reminds me of a joke narrated by the late Mahendar Singh Bedi in his novellet: "Ek Chadar Maili Si". Once a Sikh was searching for his lost chawanni [quarter Rupee coin] in a mud pool saying: "Ya Allah, meri chawanni dila de". A Muslim passerby accosted him: "O fool why do you soil my Allah with mud?" The Sikh replied: "Why should I soil my Wahe Guru for the sake of a chawanni?".
    There is no difference at all between the sublime moral teachings of Christ and Muhammad. Therefore, Christian-Muslim conflict is simply irrational. Similarly, the Supreme Being is one but mankind has innumerable names to describe him. Allah we worship is the same Allah worshipped by Christians. So banning the use of this term by Christians is just absurd and irrational.

    جواب دیںحذف کریں