جامعہ ہمدرد میں ایم بی بی ایس کے داخلہ پر پابندی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-10

جامعہ ہمدرد میں ایم بی بی ایس کے داخلہ پر پابندی

jamia-hamdard
نئی دہلی
ایس این بی (عبدالقادر شمس)
یہ افسوسناک خبر ہے کہ میڈیکل کونسل آف انڈیا نے جامعہ ہمدرد کے میڈیکل کالج کو مختلف اسباب کی بنا پر2014-15سیشن کے لئے داخلہ لینے پر پابندی لگادی ہے ۔ میڈیکل کونسل کا کہنا ہے کہ جامعہ ہمدرد ایم سی آئی کی شرائط پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اور مطلوبہ معیار و اہلیت نہیں پائی جاتی، جب کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا کی تفتیش پر جامعہ ہمدرد کے میڈیکل کالج کے ڈین ڈاکٹر سری دھردویدی کا کہنا ہے کہ ایم سی آئی کو کچھ کلیری فیکشین مطلوب تھیں، جس کی وضاحت جامعہ ہمدرد نے کردی ہے اور پوری فائل حکومت ہند کے متعلقہ محکمہ کو بھیج دی گئی ہے ، انہیں گرچہ یقین ہے کہ جلد ہی ایم سی آئی دوبارہ داخلہ کی اجازت دے دی گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ جامعہ ہمدرد انتظامیہ کی تساہلی اور بد انتظامی کی وجہ سے ایم سی آئی کو رواں سیشن میں داخلہ پر پابندی لگانی پڑی ہے۔ ایم سی آئی کی ویب سائٹ پر وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔ لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ دو ماہ قبل ایم سی آئی کی مشاہداتی ٹیم غیر اعلان شدہ پروگرام کے تحت اچانک ہمدرد یونیورسٹی پہنچ گئی اور مشاہدے کے دوران پایا گیا کہ میڈیکل کالج کے پاس بعض وہ سہولیات نہیں ہیں جن کے ہونے کا دعویٰ کیاجاتا رہا ہے۔ مثلاً ایم سی آئی چاہتی ہے کہ ہمدرد یونیورسٹی کے طبیہ کالج اور میڈیکل کالج کے اسپتال ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے چاہئیں لیکن گزشتہ مشاہد کے دوران ایم سی آئی نے یہ پایا کہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ شاید ایم سی آئی نے ہائی کورٹ کے ایک آرڈر کی اتباع میں یونیورسٹی کو سزا دی ہے ۔ واضح ہو کہ بدعنوانی کے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے ایم سی آئی کو جامعہ ہمدرد کے خلاف تادیبی کارروائی کے لئے کہا تھا۔جامعہ ہمدرد کی انتظامیہ کھل کر بات نہیں کررہی ہے ۔ سینئر اساتذہ بھی لب کشائی کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جامعہ ہمدرد کے پی آر وصمد رفیق کہتے ہیں کہ ایم سی آئی کو بعض سہولیات کو لے کر شکایات تھی ، جو معمولی قسم کی تھیں اور جنہیں دور کردیا گیا ۔ انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایم سی آئی کی انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف انہوں نے حکومت ہند کو درخواست دی ہے اور امید ہے کہ وہاں سے اس کے حق میں فیصلہ صادر ہوگا ۔ جامعہ ہمدرد کے ماحول میں ایک بات نہایت ناقابل قبول ہے کہ یہاں داخلی احتساب سے بیشتر ذمہ داران عاری ہیں اور حق بات کہنے کی بھی جرات نہیں معلوم پڑتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کے بہتر مستقبل کی تمنا کرنے والے افراد بھی کھل کر کوئی بات نہیں کرپاتے ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ میڈیکل کونسل آف انڈیا نے جامعہ ہمدرد کے میڈیکل کالج میں داخلہ پر پابندی میں جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر جی این قاضی کی تساہلی کا بھی بڑا دخل ہے ۔ جامعہ ہمدرد کے کچھ ہمدردوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جامعہ ہمدرد کے میڈیکل کالج کے ڈین ڈاکٹر سری دھروویدی کی عدم فعالیت بھی یونیورسٹی کو وہ مقام دلانے میں ناکام ہے جس کی وہ حقدار ہے ۔ پروفیسر اقبال صاحب کہتے ہیں کہ جامعہ ہمدر کو ہم اس کے بانی حکیم عبدالحمید ؒ کے خوابوں کے عین مطابق بنانا چاہتے ہیں لیکن ابھی ہم اپنی منزل سے کافی دور ہیں ۔ جامعہ ہمدرد ٹیچرس ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر محمود الظفر کا ماننا ہے کہ ہمدرد یونیورسٹی ملت کا ادارہ ہے اس لئے اسے ملت کے مفادات کے لئے کام کرنا چاہئے ۔ بعض لوگوں کا الزام ہے کہ جامعہ ہمدرد کو میڈیکل کالج کے اخراجات کو حکومت سے منظور کرانا چاہئے تاکہ بھاری فیس دے کر صرف امیروں کے بچے ہی فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ کچھ ذہین اور غریب طلبہ کو بھی معمولی فیس دے کر ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کا موقع مل سکے ۔ایم سی آئی کے ذرائع بھی کھل کر بات نہیں کررہے ہیں۔ خاص طور پر وہ مشاہداتی ٹیم کی رپورٹ کے بارے میں نہیں بتا رہے ہیں ۔ ہماری اپنی تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خود2012میں ہمدرد یونیورسٹی کو میڈیکل کالج کھولنے کی اجازت بعض کمیوں کے باوجود دی گئی تھی ۔ دیکھا جائے تو 2012کے مقابلے میں آج ہمدرد میڈیکل کالج کے پاس کہیں زیادہ سہولیات ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کچھ کمیاں ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے2012میں میڈیکل کالج کھولنے کی اجازت تھی ، تو اب کہیں اور زیادہ سہولتوں کے ہوتے ہوئے پابندی عائد کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ۔ اگر سہولتوں اور تقرریوں کو لے کر ہمدرد یونیورسٹی نے بعض غلط دعویے کئے ہیں تو انہیں نظر انداز کرنے کی قصوروار ایم سی آئی بھی ہے۔ دوسری طرف ہمدرد یونیورسٹی ہمیشہ اپنی بہترین سہولیات کے لئے مشہور رہی ہے ۔ ایک ہرا بھرا صاف ستھرا کیمپس ہے اور طلبہ و اساتذہ دونوں کو بہترین سہولیات حاصل ہیں ۔ یونیورسٹی انتظامیہ مرکزی وزیر صحت غلام نبی آزاد پر تکیہ کیے بیٹھی ہے جب کہ یونیورسٹی کو ایسے بلند معیار سے ہم آہنگ کرنا چاہئے کہ ایم سی آئی کے متعصب اہلکار بھی اسے نظر انداز نہ کرسکیں۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں