ایشیائی ممالک میں ایذا رسانی کا رویہ عام - ایمنسٹی انٹرنیشنل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-14

ایشیائی ممالک میں ایذا رسانی کا رویہ عام - ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایشیائی ممالک میں ایذا رسانی زندگی کے تلخ حقائق میں شامل ہے ۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ان ایشیائی ممالک میں ہندوستان، پاکستان اور چین بھی شامل ہیں ۔ حقوق انسانی تنظیم کے ایشیاپیسفک ڈائرکٹر رچرڈ بینیٹ نے اسٹاپ ٹارچر مہم کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ تمام ایشیائی ممالک میں ایذا رسانی زندگی کاایک حصہ ہے ۔ یہ مسئلہ صرف چند یا بعض ممالک تک ہی محدود نہیں بلکہ خطہ میں عام ہے اور اس کے خلاف ٹھوس کاروائی ضروری ہے ۔ ایشیائی ممالک کو ایذا رسانی کے خاتمہ کے عہد سے متعلق سرگرمیاں صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود رکھنے کے دائرہ سے اب باہر نکلنا ہوگا ۔ بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط ضروری ہے تاہم یہ ناکافی ہے۔ ہمیں اس کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا ۔ انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ چین ، ہندوستان، انڈونیشا ، ملائیشیا ، پاکستان، سری لنکا اور ویتنام میں اقبال جرم یا حقوق انسانی کارکنوں کی زبان بندی کے لئے ایذائیں دی جاتی ہیں اور یہ رویہ ان ممالک میں عام ہے ۔ میانمار اور نیپال میں رقم اینٹھنے کے لئے بھی ایذا رسانی سے کام لیاجاتا ہے جہاں پسماندہ اور غریب افراد ایذا رسانی سے محفوظ رہنے کے لئے حکام کی ہتھیلیاں گرم کرنے(رشوت دینے) کے موقف میں نہیں ہوتے ۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے دنیا کے ہر خطہ میں آباد141ممالک میں گزشتہ5برسوں کے دوران ایذا رسانی یا دیگر انداز کی بدسلوکیوں کی ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ تنظیم کے مطابق بیشتر ایشیا پیسفک ممالک میں ایذا رسانی یا دیگر غیر انسانی وظالمانہ و وحشیانہ سلوک یا اسی اندازکی سزا بالکل عام ہے اور بیشترممالک میں ایسی حرکتوں کو انتہائی سنگین جرائم سے متعلق جائز قرار دیاجاتا ہے ۔ اقوام متحدہ میں1984کنونشن اگینسٹ ٹارچر منظور کیا گیا تھا جس کے تحت دنیا کے تمام ممالک اس کے انسدادی اقدامات کے پابند ہیں ۔ اس کے30سال بعد2014میں ایمنسٹی انٹر نیشنل کا یہ دعویٰ ہے کہ کم از کم23ایشیا پیسفک ایذا رسانی اور بد سلوکی کو روا رکھتے ہیں ۔ تنظیم نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ چونکہ ایذا رسانی کی نوعیت رازدارانہ ہوتی ہے اس لئے حقیقی اعداد و شمار تک رسائی ناممکن ہے ۔

Torture pervasive across Asia-Pacific -Amnesty International

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں