کتاب عرض ہے - ریڈیو انٹرویوز کا مجموعہ روبرو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-05

کتاب عرض ہے - ریڈیو انٹرویوز کا مجموعہ روبرو

rubaroo by shakeel akhtar
کتاب : ریڈیو انٹرویوز کا مجموعہ روبرو
مصنف : ڈاکٹر محمد شکیل اختر
مبصر : تحسین منور

ہمارے ایک جاننے والے کہہ رہے تھے کہ ان دنوں جمامعہ ملّیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو کی جانب ' پیدل ' جانا خطرے سے خالی ہاتھ نہیں ہے۔ٹیگور پروجیکٹ کے تحت کئی کتابیں چھپ کر آچکی ہیں ۔اگر آپ زرا سے بھی پڑھے لکھے سے دکھائی دئے تو وہاں سے لوٹتے وقت آپ کے دونوں ہاتھ کتابوں سے بھر سکتے ہیں۔اگر آپ بس سے گئے ہیں تو پھر بس کا ڈنڈا پکڑنے کی زمہ داری کسی ایسے ساتھی مسافر کو ہی دینی پڑے گی جس کی بغل سے منہ لگا کرآپ تمام خوشبووں کے باوجودزندگی کی تیز رفتاری میں بھی توازن قائم رکھنے کا حوصلہ دکھلا سکیں۔ لیکن ہمیں اس خطرے سے قطعی آگاہی نہیں تھی کہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے انور جمال قدوائی ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر میں جانے پر بھی آپ کسی کتاب کے حقدار بن جائیں گے۔ ہم وہاں اسٹوڈیو دیکھنے کی غرض سے گئے تھے ۔ایک جانا پہچانا سا نام دکھائی دیا توغلطی سے دروازہ پر دستک دے ڈالی۔اندر دیکھا تو ہمارے دوست ڈاکٹرشکیل اختر صاحب اپنی باریک سی مُسکُراہٹ اور وہی صبح کو منہ کہاں تک دھوئیں کی پریشانی والے چہرے اور سر کے ساتھ ملے۔ہم ان کے روبرو کیا بیٹھے انہوں نے ہمارے حوالے " روبرو" کردی۔یہ مسئلہ سُخن فہموں کے ساتھ بڑا رہتا ہے۔ وہ سامنے والے کو بھی اپنے جیساقابل سمجھ لیتے ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ اپنے جیسا قابل سمجھتے ہیں ۔یہ تو خدا نے انسان میں ایک دوسرے سے جلن و حسد کا کا ایسا مادہ بھر دیا ہے جس کی وجہ سے کوئی کسی کو خود سے بڑا قابل نہیں سمجھتا نہیں تو معاملات کے اور زیادہ بگڑنے کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔
کتاب کو دیکھتے ہی ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ریڈیو انٹرویو کا مجموعہ تھا۔ مگر سب سے اوپر محمد شکیل اختر کا نام درج تھا۔تو بھائی آپ نے اس میں کیاکیا ہے کیونکہ کوئی انٹرویو تو اس میں آپ کا لیا ہوا ہے ہی نہیں۔کتاب کھلی تو کئی اور راز بھی کھلے۔پہلا یہ کہ یہ حصّہ اول ہے۔دوسرا یہ کہ اس اشاعت میں تحقیق و ترتیب ڈاکٹر محمدشکیل اختر صاحب کی ہے۔ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ سے شائع اس کتاب کو قومی کونسل برائے فروغُ اُردو زبان کا مالی تعاون ملا ہے۔ایک بات تو ہے کہ قومی کونسل کے پاس مال بہت ہے اور تعاون میں بھی پیچھے نہیں رہتی ۔ کتاب کی قیمت دو سو پندرہ روپئے ہے۔صفحات چاندنی سے چمکتے ہوئے اور حرف بھی پڑھنے لائق، اتنے بڑے کہ ابنِ صفی کوچھاپنے والے رسالوں کو شرم آجائے۔ سچ بتائیں تو جلن اور حسد میں ہم اس دن اتنا پھنک چکے تھے کہ ہم نے اس کتاب کو لاکر دور ہو جا میری نظروں سے کہہ کر کہیں کونے میں رکھ دیاتھا۔وہ تو ایک دن اتفاق سے کتابوں پر جمی گرد صاف کرتے ہوئے یہ کتاب نہ جانے کہاں سے ہمارے سامنے آگئی۔خدا بھلا کرے اس دن ہم پر صوفیانہ جذبہ'بے ' فالتو میں ہی حاوی ہو ریا تھا اس لئے ہم نے روبرو کی ورق گردانی شروع کردی۔جیسے جیسے ہم اسے پڑھ رہے تھے ویسے ویسے ہمارے طبق روشن ہوتے جا رہے تھے۔ ہم نے خود سے کہا ابے یار جلن حسد چھوڑو چیز دیکھو چیز،کیا یہ مواد اورکہیں تمہیں اس انداز میں مل سکتا ہے؟
پرفیسر آلِ احمد سرور،احمد فراز ،اخترالایمان،افتخار عارف،امریتا پریتم،انتظار حسین،جاں نثار اختر،جمیل الدین عالی،جمیل جالبی،جیلانی بانو،حبیب جالب،حجاب امتیاز علی،خواجہ احمد عباس،راجندر سنگھ بیدی ،ساقی فاروقی،سردار جعفری،شمس الرحمن فاروقی،عصمت چغتائی، فراق گورکھپوری،فیض احمد فیض ،کشور ناہید، پروفیسر مظفر حنفی ،منیر نیازی،ندا فاضلی اور یوسف حسین خاں کے ریڈیائی انٹرویو کا نشر کی تاریخ کے ساتھ موجود ہونا اس کتاب کا امتیاز بڑھا دیتاہے۔ایک بات اور اس کتاب کے حق میں جاتی ہے کہ ان ادب کے بلند ستونوں کے یہ انٹرویو معمولی شخصیات نے نہیں لئے ہیں بلکہ وہ بھی ادب میں یا پھر نشریات میں بلند مقام رکھتے رہے ہیں۔اپنے وقت کے مشہور و معروف نقاد اور جانے مانے براڈکاسٹر محمود ہاشمی کے ذریعے لئے گئے کئی انٹرویو ہیں۔ اسی طرح مجیب صدیقی نے بھی انٹرویو لئے ہیں ۔مجیب صاحب جب آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس پربولتے تھے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ آواز کے ساتھ ساتھ الفاظ کی زیبائش و آرائش کا ایک دلکش شبستاں آباد ہو رہا ہے جس میں تہذیب اپنی پوری آن بان شان کے ساتھ موجود ہے۔ کے کے نیّراورعمیق حنفی کے علاوہ کئی ادیبوں نے بھی ان انٹرویو کو کیا ہے۔ مثال کے طور پر ہندی کے جانے مانے ادیب ریوتی سرن شرما کی اردو کے مایہ ناز مصنف انتظار حسین کے ساتھ گفتگو ایسی ہے کہ جیسے دو یار سر راہ چلتے چلتے مل بیٹھے ہوں ۔اس گفتگو میں کئی ایسے راز پتہ چلتے ہیں جن کے بارے میں صرف اِدھر اُدھر سے سنا ہی گیا ہوگا مگر جن کی معتبریت ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔ایک جگہ ریوتی سرن شرما انتظار حسین سے کہتے ہیں کہ "اگر تم نہ ہوتے تو میں تمباکو کا بزنس مین ہو گیا ہوتا"۔اسی طرح ریوتی جی کوکرشن چندر کی بہن سرلاکو ٹیوشن پڑھاتے پڑھاتے ان سے شادی کے لئے راغب کرانے والے بھی انتظار حسین ہی تھے۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ریوتی جی کہتے ہیں کہ " جناب یہ جوسرلا سے میری محبت ہے یہ تو آپ کی اُکسائی ہوئی ہے"۔اس پورے انٹرویو کو پڑھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔
روبروکو پڑھتے ہوئے نہ صرف ادب ،شاعری یا سماج پر بحث ملتی ہے بلکہ دنیا میں آرہے مختلف رحجانات ،تبدیلیاں ،تاریخ اور جغرافیہ کے علاوہ انسانی نفسیات پر بھی غور کرنے کا موقع ملتا ہے۔ایک مقام پر ساقی فاروقی کا انٹرویو لیتے وقت ایک ایسا لمحہ سا محسوس ہوتا ہے جہاں یہ لگتا ہے کہ اب انٹرویو اُلٹا ہو چلا ہے یعنی ساقی فاروقی نے شمس الرحمن فاروقی کا انٹرویو لینا شروع کر دیا ہے۔ لیکن شمس الر حمن فوراً یہ کہہ کر " اس وقت تو میں گفتگو کر رہا ہوں تم سے ،نہ کہ تم مجھ سے گفتگو کر رہے ہو" ہوا کا رُخ موڑ دیتے ہیں۔دراصل ایک آدھ جگہ ساقی فاروقی نے شمس الرحمن صاحب کو نشانہ بنا لیا تھا۔ اسی انٹرویو میں ساقی فاروقی نے دو مقام پر فیض صاحب کی تنقید بھی کی ہے۔ اسی طرح امریتا پریتم کا مجیب صدیقی کے ذریعے لیا گیاانٹرویو ان کے اندر کی مضبوط خاتون کو نکال کر باہر لے آتا ہے۔خواجہ احمد عباس سے مشہور براڈکاسٹر کے کے نیّر صاحب کی گفتگو دنیا بھر کے واقعات اور فلمی دنیا کی ایک الگ ہی تصویر پیش کر دیتی ہے۔اسی طرح راجندر سنگھ بیدی کا فیاض رفعت اور عصمت چغتائی صاحبہ دو نوں نے مل کر جو گھیرا تنگ کیا ہے وہ بھی لاجواب ہے۔
روبرو کا دیباچہ بھی میڈیا کے طالب علموں کے لئے پڑھنے لائق ہے ۔اس میں بی بی سی کے حوالے سے انٹرویو کے فن پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔یہ ریڈیو کے انٹرویو اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان میں مختلف شخصیات بول چال کے دوران خود میں جھانکنے کا موقع دے رہی ہیں ۔ اگر یہی بات تحریر ی طور پر ان سے کسی موضوع پر پوچھی جاتی تو ممکن ہے کہ جو فوری ردِ عمل کی چاشنی ہے وہ نہیں مل پاتی ۔روبرو کے انٹرویو پڑھتے وقت آپ بور نہیں ہوتے بلکہ گفتگو کے دوران ایسا احساس ہوتا ہے کہ جیسے نسیمِ سحر ہولے ہولے پاس سے گزر رہی ہے۔ آپ پڑھتے نہیں بلکہ سُنتے ہیں۔ان میں سے بہت سے ادیب اور انٹرویو کرنے والے اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ۔کئی کو اپنے ہاتھوں سے پانی پلانے کا شرف ہم نے بھی اردو سروس میں حاصل کیا تھا ۔بہشتی بن کر ان سے جو دعائیں پائی تھیں وہ آج بھی ہماری راہنما ہیں۔ اس کتاب میں شامل ایک آدھ انٹرویو بہت کمزور ہیں جن میں پروفیسر شارب رُدولوی کے ذریعے لیا گیا احمد فراز کا انٹرویو بھی ہے لیکن کچھ کو وہ بھی پسند آسکتا ہے۔ اسی طرح پروفیسر گوپی چند نارنگ نے جو کشور ناہید کا انٹرویو لیا ہے اور جو دوسرا انٹرویویوسف حسین خاں کا ہے ان دونوں کا تقابلی جائزہ بھی کیا جاسکتا ہے۔غرض یہ کہ اگر آپ تحقیق کے عمل سے بھی گزر رہے ہیں تب بھی روبرو کے ر وبرو ہونا فائدے کا سودا ہے۔
اگر آپ اردو جانتے ہیں یا اردو ادب سے جُڑے ہیں اور اگر خصوصی طور سے اردو میڈیا میں اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس اس کتاب کا ہونا ضروری ہے۔اگر آپ اردو نہیں جانتے تو کسی اردو جاننے والے کے ساتھ بیٹھ کراسے چائے یا پھر ناہری یا جو بھی اس کی فرمائش ہو بریانی یا اور کوئی آسانی سے پکڑ میں آنے والا مطالبہ ،اسے پورا کرکے ان انٹرویو کو ضرور سُنئے کہ نشست و برخاست کی اس تہذیب سے یہاں آپ کی ملاقات ہوسکتی ہے جو اب دم تو ڑتی جا رہی ہے۔ ہم ایک پلیٹ بریانی اور ایک انٹرویو کی در پر کسی غیر اردو داں کے لئے یہ کام 'مفت' میں کرنے کو تیار ہیں ۔ویسے ان کے حق میں بہتر یہی رہے گا کہ جلد سے جلد کہیں سے بھی اردو زبان سیکھنے کا انتظام کرلیں۔
جو لوگ ہماری طرح اب بھی جلن اور حسد میں تپ رہے ہیں ان کے لئے بہت آسان سا راستہ ہے کہ وہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس کے خزانے میں ڈُبکی ماریں اور اس قسم کے بے شمار مواد وہاں دفن ہو رہے ہیں ان کو باہر نکال کر لائیں ،انہیں ریکارڈ کریں،انہیں پلے کریں ،اسٹاپ کریں،لکھیں ،پلے کریں،اسٹاپ کریں،لکھیں۔ جب کتاب شائع ہو جائے تو ہمیں ضرور بتائیں۔ ہمیں وہ کتاب عرض کرکے نہایت خوشی ہوگی۔لیکن ایک شکایت مرتب سے ہماری یہ ہے کہ جملہ حقوق بحق مرتب کیوں محفوظ کئے گئے ہیں۔حالانکہ کتاب میں آل انڈیا ریڈیو کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔اگر ہم روبرو کے انٹریوہو بہ ہو چھاپ دیں تو وہ ہمارا کیا بگاڑ لیں گے؟

***
munawermedia[@]gmail.com
موبائل : 09013350525
--
تحسین منور

A Review on book 'Rubaroo' by Shakeel Akhtar. Reviewer: Tehseen Munawer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں