وارانسی میں عظیم تر انتخابی مقابلہ - کوریج کے لئے بین الاقوامی میڈیا کی آمد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-09

وارانسی میں عظیم تر انتخابی مقابلہ - کوریج کے لئے بین الاقوامی میڈیا کی آمد

وارانسی
پی ٹی آئی
ملک میں عام انتخابات کا آخری مرحلہ جیسے جیسے قریب آتا جارہا ہے ، ویسے ویسے مندروں کے شہر وارانسی میں بین الاقوامی میڈیا کے ارکان کی تعداد پہنچتی جارہی ہے ۔ اس حلقہ سے ایک انتہائی اہم انتخابی جنگ ہورہی ہے جو بی جے پی کے امیدوار وزارت عظمیٰ نریندر مدی اور صدر عام آدمی پارٹی اروند کجریوال کے درمیان ہے۔ ٹائم میگزین کی ایک حالیہ فہرست میں دونوں شخصیتوں کے نام دنیا کے100انتہائی بااثر شخصیتوں میں شامل ہے ۔ بیرونی میڈیا کے کئی ارکان کی دانست میں نریندر مودی اور کجریوال کے درمیان انتخابی لڑائی"نظریات" کی ایک جنگ ہے جس سے دنیا بھر میں دیگر حلقوں کی انتخابی جنگ کے مقابلہ میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا گیا ہے جب کہ دیگر اہم حلقوں میں امیٹھی اور رائے بریلی بھی شامل ہیں۔ اے ایف پی کے جنوبی ایشیاء بیورو چیف کرائس آٹن نے کہا کہ ان لوک سبھا انتخابات میں بیرونی میڈیا کے لئے وارانس کا مقابلہ"انتہائی دلکش" ہے کیونکہ اس مقابلہ میں ہندوستان کے دو ایسے سیاستداں حصہ لے رہے ہیں جن کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے ۔ آٹن نے کہا کہ"اکثر ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے دو امیدواروں کو ٹائم میگزین نے دنیا کے انتہائی بااثر100افراد کی فہرست کے لئے چنا ہے بلکہ اس مرتبہ تو ایک ہی نست کے لئے ایسے دو آدمی میدان میں ہیں ۔ آٹن،یہاں گزشتہ چند روز سے زوروں سے چلنے والی انتخابی مہم کا کوریج کررہے ہیں ۔ دو ہفتہ قبل ٹائم میگزین کے قارئین پر جو سروے کیاگیا تھا اس میں کجریوال کو مودی سے آگے بتایا گیا تھا۔ یہ سروے دنیا کی انتہائی بااثر شخصیتوں کے بارے میں کیا گیا تھا۔ آٹن نے کہا کہ ہندوستان کے انتخابات کی "طویل کارروائی" میں بیرونی دلچسپی میں اگرچہ کچھ" کمی"ہوئی تھی، تاہم اب وارانسی میں"گرانڈ فِنالے" سے عین قبل میڈیا کی سرگرمیاں عروج پر آگئی ہیں۔ ٹائم میگزین کے جنوبی ایشیاء کی نامہ نگار این بھومک کا خیال ہے کہ وارانسی میں انتخابی لڑائی گویا ہندوستانی انتخابات میں توجہ کا مرکز بن گئی ہے ۔"ایک طرف زبردست مودی ہیں جن کے بارے میں بیشتر افراد کا خیال ہے کہ ان کی کامیابی یقینی ہے ۔ بلا شبہ یہ ایک سیاسی جنگ ہے ۔ لیکن یہ نظریاتی جنگ بھی ہے اور ہندوستان کی ٹریجکٹری کے مستقبل کی نشاندہی کرتی ہے۔" کانگریس پارٹی نے اگرچہ ایک مقامی شخص اجئے رائے کو اس حلقہ سے میدان میں اتارا ہے جو اسمبلی حلقہ پنڈرا کے ایم ایل اے بھی ہیں ، بیشتر بیرونی نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اصل لڑائی مودی اور کجریوال کے درمیان ہے۔ گزشتہ 12مئی کی رائے دہی کے لئے یہ دونوں قائدین زبردست پیمانہ پر مہم چلاتے آرہے ہیں ۔ بھومک نے ہندوستانی سیاست میں مودی کو"عظیم ترین شومین" قرار دیا اور کہا کہ وہ (مودی) عوام کو اپنا ہمنوا بنانا جانتے ہیں ۔ گزشتہ24اپریل کو منعقدہ مودی کے روڈ شو پر تبصرہ کرتے ہوئے بھومک نے کہا کہ بی جے پی کے امیدوار وزارت عظمیٰ کے اس روڈ شو میں اس سے کم تعدادمیں عوام کی شرکت کی توقع نہیں تھی ۔ رسالہ دی انڈیپنڈنٹ کے نامہ نگار ایشیاء اینڈریوبنکامبے نے احساس ظاہر کیا کہ بین الاقوامی میڈیا، مودی کے"حالات" پر کافی توجہ دے رہا ہے ۔"انتخابی میدان میں کجریوال کی آمد سے’ڈرامائی صورتحال میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اور وارانسی اب دنیا بھر میں مشہور ہوگیا ہے ۔ یہ ہندوستان کے انتہائی مشہور تاریخی شہروں میں سے ایک ہے ۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ2009کے لوک سبھا انتخابات میں وارانسی سے بی جے پی کے سینئر لیڈرمرلی منوہر جوشی نے کامیابی حاصل کی تھی ۔ انہوں نے بی ایس پی امید وار مختار انصاری کو لگ بھگ17ہزار ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی تھی ۔ مختار انصاری ، اب ایک قتل کیس میں جیل میں ہیں۔

International media descends on Varanasi for Modi vs Kejriwal battle

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں