دھولیہ فساد کے عدالتی کمیشن کی کاروائی کا آغاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-05-28

دھولیہ فساد کے عدالتی کمیشن کی کاروائی کا آغاز

دھولیہ
ایجنسی
مہاراشٹر کے شہر دھولیہ میں گزشتہ سال رونما ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں سات مسلم نوجوانوں کو پولیس کی گولیوں سے ہلاکت والے معاملے کی تحقیقات کررہے یک رکن کمیشن کے روبرو آج ان فسادات کے دوران سب سے پہلے متاثر ہونے والے ایک کمسن لڑکے ذاکر حسین کلیم انصاری کا بیان درج ہوا جس کے دوران اس کمیشن کو بتلایا کہ ہوٹل میں کھانا کھانے کے دوران کھانے کی پلیٹ گر جانے سے ہنگامہ برپا ہوا تھا جس کے بعد اسے ہوٹل کے مالک سمیت اکثریتی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شدید زدو کوب کیا تھا۔ ذاکر انصاری نے کمیشن کو مزید بتایا کہ جب وہ فریاد لکھانے مچھلی بازار پولیس چوکی پہنچا تو اس کی فریاد درج نہیں کی گئی اور پولیس چوکی میں موجود پولیس عملہ نے اس سے کہا کہ اگر تمہارے اندر دم ہے تو تم بھی انہیں مارو اوریہاں سے جاؤ۔ اسی درمیان ہندو تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈوکیٹ گجراتی نے ذاکر حسین سے جرح کی اور اس پر الزام عائد کیا کہ حادثہ کے وقت اس کے موبائل میں اکبر الدین اویسی کی تقریر لوڈ تھی جسے وہ سن رہا تھا اور اسی کی وجہ سے اس نے اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا، ایڈوکیٹ گجراتی کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال پر جمعیۃ علماء (ارشدمدنی) کے وکلاء ایڈو کیٹ نیاز احمد لودھی ، ایڈوکیٹ نہال انصاری ، ایڈوکیٹ ایس ایم حنفی اور ایڈوکیٹ اشفاق شیخ نے سخت لفظوں میں احتجاج کیا اور کمیشن سے شکایت کی کہ کمسن گواہ سے اس طرح کے سوالات پوچھنے کی وکلاء کو اجازت نہیں دی جانی چاہئے کیونکہ گواہ نے پہلے ہی حلفیہ بیان میں یہ بات کہہ چکا ہے کہ اس حادثہ کے وقت اس کے پاس موبائل فون تھا ہی نہیں ۔ جمعیۃ کے وکلاء سے اتفاق کرتے ہوئے جسٹس مالتے نے ایڈوکیٹ گجراتی کو حکم دیا کہ حلف نامہ میں درج شدہ مواد کے تعلق سے ہی گواہ سے جرح کریں ۔ اسی درمیان سرکاری وکیل ششیر ہیرے اور کمیشن کے وکیل کشور نے بھی ذاکر حسین سے جرح کی اور اس پر الزام عائد کیا کہ وہ جھگڑے کی فریاد لکھانے مچھلی بازار پولیس چوکی گیا ہی نہیں تھا بلکہ اس نے فون کر کے اس کے رشہ داروں اور دوست احباب کو بلایا جس کی وجہ سے لڑائی طول پکڑتے چلی گئی اور پولیس کو کاروائی کرنی پڑی۔حادثہ کے ایک سال بعد دھولیہ سورت قومی شاہراہ پر واقع بھاؤ صاحب ہیرے میڈیکل کالج میں عارضی طور پر بنائی گئی کمیشن کی عمارت میں آج ایک جانب جہاں مسلم جمعیۃ علماء کے رضاکار موجود تھے وہیں بھگوا جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی موجود تھے ۔شہر سے 5کلومیٹر عارضی طور پربنائی گئی کمیشن کی عمارت میں دوران کاروائی صوفی مشتاق ، مولانا عبدالقیوم ، عبدالخالق فارقلیط ، پپو ملا ، رئیس بھائی ، گوپی ماسٹر ، سید لعل ، رئیس پٹیل ، و دیگر موجود تھے ۔ واضح رہے کہ دھولیہ میں گزشتہ سال رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فساد میں پولیس کی جانبدارانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں سات مسلم نوجوانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا وہیں100سے زائد مسلم افراد پولیس اور فرقہ پرستوں کی ظالمانہ کارروائیوں میں زخمی ہوئے، پولیس افسران کی موجودگی میں مسلمانوں کے دکان و مکانات اور ان کی کروڑوں کی املاک کو لوٹ کر جلادیا گیا تھا۔ ایک دیگر ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق دھولے میں سماعت کے دوران عدالتی کمیشن بنیادی طور پر دو پہلوؤں کی جانچ کرے گا ۔ پہلا کیا پولیس کے اس معاملے میں کی گئی کارروائی جانبدارانہ تھی ۔ دوسرا، فسادات کے دوران گولی چلانا ضروری تھا یا نہیں۔ مسلم سماج سے جڑے لوگوں نے پولیس کی کارروائی کو غیر ضروری بتایا تھا ۔ ساتھ ہی پولیس پر جانبدار طریقے سے کارروائی کرنے کا دعویٰ کیا تھا ۔بامبے ہائی کورٹ کے سابق جج شری کانت مالتے نے27مئی کو پہلی سماعت رکھتی تھی ۔ اس دوران تین فساد متاثرین کے بیان درج کئے گئے ۔ یہ تینوں متاثرہ پولیس کی لاٹھی چارج اور فائرنگ میں زخمی ہوئے تھے ۔ اس سے پہلے کمیشن فساد کے مقام کا بھی دورہ کرنے والی تھی لیکن ایسا نہیں ہوگا ۔ متاثرین کی طرف سے کمیشن میں پیروی کرنے والے ایک وکیل نے کہا کہ ہمیں مطلع کیا گیا ہے کہ پہلے کمیشن26مئی کو فسادات کے مقام کا دورہ کرنے والا تھا لیکن نو منتخب وزیر اعظم کی حلف برداری کی تقریب ہونے کی وجہ سے دوسرے کو ملتوی کیا گیا ۔ کمیشن کو اب تک کل417حلف نامے مل چکے ہیں ۔ اس میں سے400پولیس والوں کے ہیں اور17فساد متاثرین کے ہیں۔

Dhule Riots: Judicial panel to begin hearing tomorrow

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں