مغربی بنگال کی بیشتر نشستوں پر مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-08

مغربی بنگال کی بیشتر نشستوں پر مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن

مغربی بنگال میں مسلمانوں کی ایک بڑی ابادی آباد ہے جو لوک سبھا انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کے مقدر کا فیصلہ کرنے میں ایک بڑا رول ادا کرتے ہیں۔ بنگال میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 28فیصد ہے کچھ زائد ہے۔42پارلیمانی حلقے میں سے 10حلقوں میں مسلمان کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق بقیہ سیٹوں پر بھی مسلم ووٹر کا کسی ایک سیاسی پارٹی کی طرف جھکاؤ ہی ان کی کامیابی کا ضامن ہوتی ہے۔ بنگال میں مسلم ووٹ مکمل طورپر شاید ہی کبھی بھرا ہو۔ ماضی میں عموماً یہاں کے مسلمانوں نے مشترکہ طورپر ایک سیاسی پارٹی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کا ووٹ یکطرفہ کانگریس کے حق میں جاتا تھا۔ یہی رجحان ملک بھر کے مسلمانوں کا تھا۔ مگر بایاں محاذ نے دیہی علاقے میں آباد مسلمانوں کوووٹ اپنے حق میں کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ مسلمانوں کے ووٹ کی بدولت ہی بایاں محاذ نے یہاں 34برسوں تک حکومت کی۔ 2006ء کے بعد بنگال میں تحویل اراضی اور سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بنگال کے مسلمانوں کا اعتماد بایاں محاذ سے متزلزل کردیا۔ 2008ء کے پنچایت انتخابات میں مسلمانوں نے بایاں محاذ کو ووٹ نہیں دیا اور 2011ء میں ممتا بنرجی کی قیادت والی ترنمول کانگریس کے حق میں مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر ووٹنگ کی۔ اس طرح ممتا بنرجی اقتدار میں آگئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ممتا بنرجی کے این ڈی اے میں شامل ہونے کی وجہہ سے مغربی بنگال کے مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت ان سے ناراص ہوگئی۔ 1999ء، 2001ء اور 2004ء کے انتخابات میں ممتا کے این ڈی اے میں شامل ہونے کی وجہہ سے مسلمانوں نے ترنمول کانگریس کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس صورتحال کو ممتا بنرجی نے جلد ہی پھانپ لیا اور این ڈی اے سے علیحدہ ہوکر مسلمانوں کا اعتماد جیتنے کی کوشش کی جس میں انہیں کامیابی بھی ملی۔ مگر بایاں محاذ کو اس مرتبہ یہ امید ہے کہ مسلم ووٹوں کا رجحان ایک بار پھر بایاں محاذ کی طرف ہوجائے گا۔ بایاں محاذ کے مطابق اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو ممتا بنرجی کی کارکردگی سے واقف کرانا ہوگا کہ اس حکومت نے ان کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ سی پی ایم کے لیڈر راب دیپ کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال کے مسلمان بیوقوف نہیں ہیں، مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی ترنمول کانگریس کے کیریکٹر اور ان کی چالبازی کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ بنگال کے عوام بایاں محاذ کے دور حکومت اور ممتا بنرجی کی حکومت کا موازنہ کرنے لگے ہیں۔ بی جے پی نے اس انتخاب میں اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کو درکنا کرتے ہوئے ترقی اور گڈ گورننس کا نعرہ بلند کیا ہے تو اسے امید ہے کہ اس کی وجہہ سے ہندوستانی مسلمانوں کا رجحان بی جے پی کی طرف ہوگا۔ بی جے پی لیڈروں کو یقین ہے کہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کا ایک طبقہ انہیں ترقی اوراچھی حکمرانی کے نام پر ووٹ ضروردے گا۔ بی جے پی کے ریاستی صدرراہل سنہا کا کہنا ہے کہ مسلمان نریندر مودی کے نام پر بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔ ان کے مطابق عوام بی جے پی کو نہیں بلکہ مودی کے نام پر ووٹ دیں گے۔ مگر کلکتہ کے ٹیپوسلطان مسجد کے امام مولانا نور الرحمن برکتی بی جے پی کے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ مسلمان نریندر مودی کے نام پر ووٹ دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ بنگال کے مسلمانوں کا اس وقت ترنمول کانگریس کی طرف رجحان ہے۔ ممتا بنرجی نے عالیہ یونیورسٹی کی توسیع کی، اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا، انہوں نے ملازمت میں کو نوکری دی۔ دہلی کے جامع مسجد کے امام کے ذریعہ ممتا بنرجی حکومت کے کاموں کی تعریف پر انہوں نے کہاکہ ممتا بنرجی سیکولر انڈیا کی وزیراعظم بننے کیلئے لائق ہیں۔ مغربی بنگال کے مسلمانوں کیلئے ممتا حکومت کے ذریعہ کئے گئے کاموں کا سروے کرنے کے بعد دہلی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے کہاکہ میں ذاتی طورپر سمجھتا ہوں کہ ملک کو ان کی جیسی سیکولر لیڈر کی ضرورت ہے۔ جو صرف کاموں پر یقین رکھتی ہیں۔ شاہی امام مولانا بخاری کی اپیل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پیرزادہ طہ صدیقی نے کہاکہ بخاری کو مسلمانوں کو مشورہ دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ صدیقی مغربی بنگال کے مسلمانوں میں کافی مشہور ہیں اور ان کا ایک بڑے حلقے میں اثرورسوخ بھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بخاری صاحب کو بنگال کے مسلمانوں کو ترنمول کانگریس کے حق میں ووٹ دینے کا کوئی حق نہیں کیونکہ دہلی اور بنگال کی صورتحال مختلف ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک میں ہندو اور مسلمان بھائی ہیں۔ دونوں کو ان سیاسی پارٹیوں کو ووٹ دینا چاہئے جو کام کرنے میں یقین رکھتی ہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں کو ووٹ نہیں دینا چاہئے کہ جو صرف وعدے کرتی ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ووٹ دینا ایک نجی معاملہ ہے اس لئے کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ یہ مشورہ دے کہ کس کو ووٹ دیا جائے اور کس کو نہیں۔ امیدواروں کے کام کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہئے۔ طہ صدیقی جن کا ترنمول کانگریس سے گہرا رشتہ رہا ہے کا کہنا ہے کہ ممتا بنرجی نے کئی وعدوں کو مکمل نہیں ہے۔ اس لئے یہ وقت آگیا ہے کہ یہ جاننا چاہئے کہ یہاں کے مسلمان کیا سوچتے ہیں اور وہ سیاسی پارٹیوں کے وعدے اور ان کی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

decisive Muslim vote for most seats in West Bengal

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں