ہم نے سوچا ۔۔۔ کل ملا کر چار پانچ سو روپوں کا حساب بنتا ہے ، یا زیادہ سے زیادہ ایک ہزار سکہ رائج الوقت کے تحت نکلتا ہوگا۔۔۔۔ لیکن جس زمانے کے یہ بقایاجات ہیں اس زمانے میں ایک ہزار روپے میں پگڑی پر گھر مل جاتے تھے ۔جو آج لاکھوں روپوں کے ہیں۔۔۔۔ ایک ہزار میں اب ایک مناسب لباس بھی نہیں آتا ۔۔۔ بھائی صاحب کو کیا پتہ۔۔۔۔۔ الله ان پر رحم کرے۔۔۔کیسے حساب دے پائیں گے ۔۔۔۔ پتہ نہیں اپناکیا ہوگا ۔۔۔۔ لاکھوں کا جوڑ توڑ ۔۔۔ اور پھر اپنے میزان میں تو ابھی عبد کے ساتھ ساتھ معبود کے بے شمار حقوق ہیں جو ادا نہ ہوسکے ۔۔۔۔۔
بھا ئی صاحب ہماری پیشا نی پر قطرے نمودار ہوتا دیکھ کر پھر مسکرانے لگے اور گویا ہوئے۔۔۔۔ اب آپ بتائیے گا۔۔۔ کچھ حساب کتاب بہت پیچیدہ ہیں انکاکیا کریں۔۔۔ پچھلے پانچ چھ دہایوں سے الکشن میں با قاعدہ رائے شماری میں حصہ لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے کسی بھی امیدوار نے عوام کی بھلا ئی کے لئے ایمانداری سے کام نہیں کیا۔۔۔۔ بلکہ اکثر نے تو بےایمانی کی ہے اور خرد برد کیا ہے۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھکر ہمارے دین ایمان کو نقصان پہنچایا ہے۔۔۔ ہمارے اعتماد کا خون کیا ہے۔۔۔ اب اس حساب سے کیسے نجات پا ئیں ۔۔۔۔ کہیں یہ گواہی عذاب جاریہ نہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔ بلکہ جوانی میں اکثر ایک سیاسی پارٹی کی دامے درمے سخنے مدد بھی کرتے رہے ہیں۔۔۔۔۔ بڑے نعرے بلند کیے تھے ۔۔اور جھنڈے لہرائے ۔۔۔۔۔۔۔ اور اب سنا ہے اسی سیاسی جماعت کی مجرمانہ خا موشی نے قوم و ملت کو در بدر ہونے پر مجبور کیا ہے۔۔۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں اور ہم جیسوں کو بلواسطہ یا بلا واسطہ ان سیاسی پارٹیوں سے کوئی فایدہ ، سوا نقصان کے نہ ہوا۔۔۔۔۔ اس بار ہمارا ووٹ شاید آخری ہو۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی ممکن ہے مہلت ہی نہ ملے اور اسکی نوبت ہی نہ آئے۔۔۔۔۔ اور اگر آ ئی تو اب سوچ سمجھ کر ہی ووٹ دینگے ۔۔۔ اور اگر تمام امیدوار غیر معتبر اور نااہل ہویے تو " NOTA (none of the above) " کی رعایت کا استعمال کریں گے ۔۔۔۔۔اور ان میں سے کسی کو بھی ووٹ نہ دیں گے ۔۔۔۔۔ اہل جموریت کو پتہ تو چلے کہ اگر امیدواروں میں غیر معتبر اور نا اہل حضرات کی بھر مار ہے تو بھئی کیوں ہے؟ ۔۔اور اب کیا کیا جانا چاہیے؟ ۔ اس کا کو ئی علاج ہے بھی یا نہیں ۔۔۔۔۔۔ بقول علامہ سٹنڈل نے اس راز کو فاش کیا کہ۔۔۔۔۔ جمہوریت میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۔۔۔۔۔لوگ باگ تو احمقانہ باتیں کر تے ہیں۔۔۔۔سیکولر وووٹ بینک کو نہ تو ڑیں ۔۔۔۔ کسی بھی طرح بھگوا پارٹیوں کو حکومت میں آنے سے روکیں اور ووٹ ضرور دیں ۔۔۔۔۔ورنہ مسلمانوں کو سانس لینا دشوار ہوجائیگا۔۔۔۔وہ اس سے پہلے بھی آکر گئے ہیں۔۔۔ جب اونٹ پہاڑ کے نیچے آیا تھا ۔۔۔۔ٹھیک ہے مناسب اور اہل امیدوار اگر ہے تو ضرورو دیں گے ۔۔کیا غیر بھگوا پارٹیوں میں بھگوا ذہنیت کے حامل نہیں ہیں ۔۔۔ان میں کون دودھ کا دھلا ہے ۔۔۔سب مادیت پرستی کا کھیل ہے اور لوگ جان کر انجان بن رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔بھئی اب دنیا کے لئے آخرت تو داؤ پر نہیں لگا ئی جا سکتی نا۔۔ ان سیاستدانوں کا کیا ہے۔۔۔۔ جمہوریت کے تالاب کے کنارے اگے ہوئے سوکھے درختوں کی مانند ہیں۔۔۔جن کا عکس تالاب میں نظر آتا ہے۔۔۔ اب بھلا عکس کے مسلسل پانی میں رہنے سے تو درخت ہرے بھرے نہیں ہوتے نا !۔۔۔ علامہ نے خوب کہا۔۔۔۔ نہ ہو طبیعت ہی جنکی قابل، وہ تربیت سے نہیں سنورتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوا نہ سر سبز رہ کے پانی میں عکس سرکنار جوکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تو اب بتایئے ان تمام رائے شماریوں میں ہم نے جو گواہی دی ہے اور جو نا کردہ گناہ ہیں ان کا کیا کریں؟۔۔۔ ہم بھی سب کی طرح آسودۂ ساحل رہے ۔۔۔۔۔۔اور حالات پر قانع ۔۔۔۔ آنے والی نسلوں کے لئے بس ایک صبر و قناعت کا جھوٹا مفہوم چھوڑ کر جا رہے ہیں۔۔۔۔ کبھی اس خیال پر غور نہیں کیا کہ۔۔۔۔۔۔۔" وہ جو آسودہ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم ۔۔۔ اب کے موج آ ئی تو پلٹے گی کنارے لے کر"۔۔۔۔۔ ہما ری طرح ہزاروں کی عمر یوں ہی گزر گئی۔۔۔۔۔۔ اور ہماری آنکھوں نے موجوں کوآ آ کر کناروں سے ٹکراتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔ ہم تو بچ کر نکلتے رہے ۔۔۔ لیکن آنے والی نسلوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے کچھ بھی نہ کیا ۔۔۔ اب اس کا ازالہ کیوں کر کریں۔۔۔اور ہاں قوم و ملت کے استبداد و استحصال کی جو سازش ر چی جا رہی تھی ۔۔۔۔ اور جس پر مختلف حیلے بہانوں سے جوخا موشی اختیار کر رکھی تھی ۔۔۔ اس کا بھی کچھ ازالہ ہونا چائیے نا ۔۔۔۔۔۔ بھگوا تنظیمیں اور انکے پروردہ ۔۔۔۔ اب کھل کر کھیل کر رہے ہیں۔۔۔۔ اپنے منشور میں ۔۔۔۔ ہندوتوا کا لائحہ عمل یکساں سول کوڈ کے لبادے میں تیار کر رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آرٹیکل 370 اور مسجد کی جگہ کو غصب کر مندر میں تبدیل کرنے کا کھلا اظہار بھی کر چکے ہیں - شا ہنوازوں ، مختاروں ، نجماؤں اور اکبروں کو ہما ری شناخت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ذرائع ابلا غ کہیں الزامات اور تہمتوں کی رنگینیوں میں مگن ہیں تو کہیں تعصب کی سیاہی میں شرابور - مسلم سیاستداں خود غرضی اور دنیاوی مفادات کی خاطر ایمان کا سودا کر چکے ہیں، ایسے نام نہاد مسلمانوں کو اپنی آخرت کا کیا پتہ ۔۔۔۔۔۔۔اکبر تو حال ہی میں "تلواروں کی چھاوں" میں ایک کتاب تصنیف کر سمجھ بیٹھے کہ حق مسلمانیت ادا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ اب جو چاہے سو کرینگے ۔۔۔۔۔۔ ایسے ادیبوں نے ہی سوشل ازم اور سیکولر ازم کے نام پر مسلمانوں کا بیڑہ غرق کیا ہے – ہماری شنا خت بن کر ہمارے ہی قلب میں خنجر گھونپا ہے ۔۔۔۔۔۔دشمن کا ساتھ دینے کے لئے کیا کیا علتیں نہیں تراشی ۔۔۔۔۔ کیسے کیسے جواز نہیں ڈھونڈے ۔۔۔۔۔۔چند تو ایسے بھی ہیں جو دشمنوں کی صف میں کھڑے ہو کر یہ دلاسہ دے رہے ہیں۔۔۔۔۔ کہ ہم قوم و ملت کی ڈھال بن رہے ہیں۔۔۔۔ دشمن بھی خوب ہنس رہا ہے ۔۔۔اب کس کس کا ذکر کریں ۔۔۔۔سیاست کے تالاب میں سب کے دامن تر ہیں۔۔۔ اور تار تار بھی۔۔۔ان میں سے اکثر کے دامن تو آگے سے تار تار ہیں۔۔۔۔ حیف کہ دعو ی یوسف مصر ہونے کا کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں اکثریت کسی کی نہیں ہے۔۔۔۔لوگ اتنے خانوں میں بٹے ہیں۔۔۔۔۔ کو ئی احمق ہی ہوگا جو ہندو اکثریت کی بات کر رہا ہوگا ۔۔۔۔ یہاں تو ہر ایک کا اپنا ایک عقیدہ ہے اور ہر ایک کی اپنی بے بسی ، اپنی زبان، اپنی کہانی ۔۔ اپنی ماں ، اپنا بھگوان، اپنا خاندان، اپنا نیتا، اپنا مال ۔۔اور اپنے اپنے مسا ئل ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو کچھ الکشن کے وقت اور فرقہ وارانہ فسادات کے وقت نظر آتا ہے وہ سارا ماحول تو بنا بنایا ہوتا ہے ۔۔۔۔روپوں کے زور پر ۔۔۔۔ طاقت کے زور پر ۔۔۔سازشوں کے زور پر ۔۔ ۔شیفتہ نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔بھائی صاحب آپ کے لئے اب صرف وقت استغفار بچا ہے ۔۔۔ہاں آپ کی روداد آنے والی نسلوں تک پہنچا دی جایے ۔۔۔ بس یہی کچھ ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ تاکہ وہ کچھ نصیحت لے اور آپ کی کوتاہیوں کا کچھ ازالہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھائی صاحب نے پلکوں سے ایک موتی انگلیوں کی پوروں سے اٹھایا اور گویا ہوئے۔۔۔
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرا ئی
***
Zubair H Shaikh
zubair.ezeesoft[@]gmail.com
Zubair H Shaikh
zubair.ezeesoft[@]gmail.com
Those who are staying at the beach. Article: Zubair H Shaikh
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں