حیدرآباد میں اہل علم و دانش کا اجتماع
ہندوستان کے مسلمان اپنی غیرت و حمیت اور جذبہ اخوت اسلامی کے لئے پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں عالم اسلام کے مسائل سے گہری دلچسپی اور ہمدردی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ مصر کی جمہوری اور قانونی حکومت کو ایک فوجی انقلاب کے ذریعہ ختم کئے جانے پر ہندوستانی مسلمانوں نے سخت غم و غصہ کا اظہار کیا۔ اسی پس منظر میں ملک کے مختلف اہل علم و دانش اور ملی تنظیموں و اسلامی تحریکوں کے نمائندہ افراد نے یہ قرارداد پاس کی ہے۔
انسانی فطرت اگر اس پر زمانہ کا گرد و غبار نہ پڑجائے تو وہ ظلم اور ناانصافی کو برا سمجھتی ہے اور وہ اس برائی کے خلاف سینہ سپر ہوجاتی ہے ، ظلم کو برداشت کرنا اور ناانصافی کو انگیز کرنا اور زبان پر مہر سکوت ڈال لینا انسانیت کے خلاف اور شرافت کے خلاف طرز عمل ہے ، یہ اس بات کا اعلان ہے کہ انسانیت دور ظلمت سے گذر رہی ہے اور درندگی کے مقام پر فروکش ہے، اگر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی نہ ہو اور ظالموں کے لالچ اور ظلم ، ترغیب اور ترہیب کی وجہ سے بے انصافی کی یورش کے خلاف ، تنگ نظری اور تعصب کے خلاف کھڑا ہونے والا کوئی انسان نظر نہ آئے تو سارا علم ، سارا فلسفہ اور دانش و حکمت کا سارا نظام بے کار ہے ، بے روح ہے ، بے فیض ہے۔
اگر ایک جمہوری اور دستوری حکومت کا تختہ الٹنے پر اور ہزاروں انسانوں کی زندگی کا چراغ گل کردینے پر اور سیکڑوں بے قصور اشخاص کو دارورسن کی سزا دینے پر کسی دل کے اندر بے چینی پیدا نہیں ہوتی ہے اور ظالم حکومت اور اس کا ساتھ دینے والی حکومتوں کے خلاف آتش غضب نہیں بھڑکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے اندر سچائی اور شرافت کا چراغ بجھ چکا ہے، اس کے دل کے اندر قساوت کا مرض پیدا ہوگیا ہے اور اس کے سینہ کے اندر دل نہیں بلکہ پتھر کی سل رکھ دی گئی ہے۔
دنیا میں ہر قسم کی ترقی ان لوگوں کے طفیل ہوئی ہے جنھوں نے اپنے زمانہ کے ناقص نظام کو اور کسی گروہ کی جانب سے جبر و استبداد کو بے چوں اور چرا تسلیم نہیں کیا ہے اور کسی حکومت کے ظلم کو یا اس ظلم کی حمایت کو انھوں نے یہ کہہ کر درستی کی سند نہیں عطا کی کہ "رموز مملکت خویش خسرواں دانند" اس دنیا کی ساری خوبصورتی اور زیبائش اور اس کا جمال و کمال حق کی حمایت اور اس کی مدد کے دم سے قائم ہے ، ان لوگوں کے دم سے قائم ہے جنھوں نے اپنے لئے عیش و آرام کی زندگی کو مقصد نہیں بنایا اور دولت و عیش کی رشوت کو قبول کرکے اپنی زبان بند نہیں کی اور انھوں نے سیم وزر کے حصول کے لئے اپنے قلم کو رسوا نہیں کیا ، بلکہ انھوں نے حق گوئی کے ساتھ زندگی گزاری اور ظلم کو طشت ازبام کیا اور دنیا کے بہتر مستقبل کے لئے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اور ذاتی مستقبل کی تعمیر کے لئے نہ تو ناانصافی اور ظلم و استبداد کے طرف دار اور مددگار بنے اور نہ لوگوں پر تنقید میں کوتاہی کی جنھوں نے ظلم کی مدد کی اور استبداد کے ساتھ تعاون کیا۔
مصر کے اندر جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی زمین کلمہ حق اور صداقت کی شہادت دینے والوں سے خالی نہیں ہوتی ہے۔ یہ شہادت حق کا کام ہے جو دین اسلام کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھنے والی جماعت الاخوان المسلمون نے مصر میں انجام دیا ہے، اس کی پاداش میں مصر کی تاریخ میں کئی بار ان کے قائدین کو تختۂ دار پر چڑھایا گیا ، ان کو تعذیب خانوں میں رکھا گیا۔ اب پھر ان کے سیکڑوں لوگوں کو پھانسی کی سزاسنادی گئی ہے۔ پرامن مظاہرہ کرنے والوں کو آتشیں اسلحہ سے بھون دیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا ہر باب دعوت حق اور اقامت دین کی کوشش اور اس کے لئے جان و مال کی قربانیاں دینے والوں سے روشن ہے۔ دین حق کے لئے یہی قربانیاں ہیں جو اخوانی مصر میں پہلے بھی دے چکے ہیں اور اس وقت بھی دے رہے ہیں۔ لیکن چشم فلک نے یہ عبرت ناک منظر پہلی بار دیکھا ہے کہ خدمت حرمین کا دعویٰ کرنے والوں کا ہاتھ بھی اور دامن بھی ان بے گناہوں کے خون سے رنگین ہے اور وہ بھی دین حق کا علم اٹھانے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں اور یہی زبان "ہنر ماسٹر واٹس" کے انداز میں وہاں کے بے بصیرت اور بے بصارت مفتی اور حرمین کے منتظم اور ڈائرکٹر بول رہے ہیں۔
حیدرآباد شہر میں اہل علم اور اہل دانش ،دینی مدارس ، عصری جامعات کے اساتذہ اور مختلف ملی تنظیموں و اسلامی تحریکات کے ذمہ داران کا اجتماع 6، اپریل 2014ء کو مصر کی تازہ صورتحال پر غور کرنے کے لئے مہدی پٹنم میں پروفیسر محسن عثمانی کی صدارت میں منعقد ہوا، مولانا سلمان حسینی ندوی (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء) اس اہم اجتماع میں شرکت کے لئے لکھنؤ سے تشریف لائے تھے، انھوں نے اور دیگر مقررین نے بیک زبان مصر میں عبدالفتاح سیسی کی فوجی حکومت کی مذمت کی جس نے سازش کرکے بین الاقوامی طاقتوں کی مدد سے سعودی عرب اور بعض دوسری خلیجی حکومتوں کے مالی اور مادی تعاون سے ایک جمہوری اور دستوری حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ہزاروں مظاہرہ کرنے والے پرامن اخوانیوں اور شہریوں کو خاک و خوں میں نہلادیا ، ہزاروں مردوں اور عورتوں کو احتجاج کرنے کے جرم میں گرفتار کیا اور پھر سیکڑوں اخوانیوں کو عدالت میں صرف دو پیشی کے بعد موت کی سزا دے ڈالی، یہ ظلم و سفاکی کی وہ مثال ہے جس نے چنگیز اور ہلاکو کی یاد تازہ کردی ہے، اہل علم و دانش کا یہ اجتماع اس ظلم و استبداد پر اپنے شدید صدمہ اور غم کا ببانگ دہل اظہار کرتا ہے اور اس کرب کے اظہار کو بھی ضروری سمجھتا ہے کہ بعض خلیجی ریاستوں کے سفارت خانوں نے اردو کے بعض بڑے اخبارات کو خرید لیا ہے اور ان اخبارات نے مظلوموں کی حمایت میں اور ظالموں کے ساتھ تعاون کرنے والی حکومتوں پر تنقید سے متعلق مضامین شائع کرنے سے معذرت کردی ہے، جب اخبارات بھی بک جائیں اور قلم خرید لئے جائیں اور ضمیر فروشی عام ہوجائے اور صحافت کی دنیا سے دیانت اور انصاف رخصت ہوجائے اور جب قلم کو حق کے راستہ سے منحرف کیا جاسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غازہ تہذیب و ترقی کے پیچھے انسانیت کا چہرہ مکروہ اور سیاہ ہوگیا ہے اور انسان اپنی فطری انسانیت کو کھو بیٹھا ہے اور سیم وزر کی زنجیروں میں اسیر ہوگیا ہے۔
اہل علم و دانش کا یہ اجتماع اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے ندوۃ العلماء کے ذمہ دار اعلیٰ مولانا محمد رابع حسنی نے 30 مارچ کو ندوہ میں مجلس انتظامی کے جلسہ میں جس میں پورے ملک سے اہل علم جمع ہوئے تھے مصر میں بہیمیت اور بربریت پر اور سیکڑوں افراد کو پھانسی دیے جانے پر صدمہ کا اظہار کیا اور دارالعلوم دیوبند (وقف) کے ذمہ داران اعلیٰ مولانا محمد سالم قاسمی مدظلہ اور مولانا سفیان قاسمی نے مصر میں ظلم و استبداد کی لہر کی مذمت کی اور یہ بھی کہا کہ اس ظلم و استبداد پر قائم حکومت کی حمایت سے اور اخوان کو دہشت گرد قرار دینے سے خادم الحرمین کی شبیہ خراب ہورہی ہے۔
اہل علم و دانش کا یہ اجتماع اس تیرہ وتار فضا میں قطر اور ترکی کے موقف کو درست اور حق بجانب سمجھتا ہے جس نے الاخوان المسلمون کی اخلاقی حمایت کی ہے اور مصری حکومت کے عسکری انقلاب کو اور اس کی خوں آشامی کو ناروا قرار دیا ہے، اہل علم و دانش کا یہ اجتماع موجودہ ظلم اور ناانصافی کی فضا میں علماء حق اور اساتذۂ علم و ادب اور اہل قلم کی یہ اولین ذمہ داری سمجھتا ہے کہ وہ خاموش نہ رہیں اور حق اور باطل اور خیر و شر کی اس کشمکش میں زبان اور قلم سے مظلوم حق کا ساتھ دیں ، کیوں کہ علم و ادب اور مذہب کا کام ہی دنیا میں حق اور انصاف کی روشنی پھیلانا ہے۔
آج کا یہ اجتماع ترکی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہے کہ انھوں نے بلدی انتخاب میں اخلاقی اقدار اور جمہوری اصولوں کی پاسدار سیاسی جماعت حزب العدالہ والتنمیہ کو کامیاب بنایا۔ نیز اسلام و انصاف پسند قائد رجب طیب اردغان سے امید کرتا ہے کہ وہ ترکی کی ترقی و بہبودی اور مسلمانوں کے مسائل میں پہلے کی طرح نمائندگی کرتے رہیں گے۔
atrocity against muslim brotherhood - Hyderabad resolution
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں