بلاشبہ عام آدمی پارٹی ان لوگوں کے لیے ایک مضبوط متبادل کے طور پر ابھری ہے جو نہ بی جے پی کے ساتھ جانا چاہتے ہیں اورنہ کانگریس کے حق میں ہیں۔ اروندکجریوال نے دکھاوے سے پاک، سادہ اور ایماندار سیاست کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ ذاتی مفادات سے بالاترہوکر عوام کے حق میں سوچنے والے لوگ بھی سیاست کاحصہ بن سکتے ہیں۔
دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی طاقت کو کم کرکے آنکاگیا۔ حالیہ لوک سبھا انتخابات میں تو کجریوال کی طاقت کواور بھی کم کرکے دکھایاجارہاہے۔ عام آدمی پارٹی اور اس کے لیڈروں کی شبیہ خراب کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ عام ووٹروں کو ورغلایا جارہاہے۔ مختلف قسم کے گھٹیاالزامات پارٹی پر لگائے اور لگوائے جارہے ہیں۔ جوحساب دیگر جماعتوں سے گزشتہ 60برس میں نہیں مانگا گیا وہ حساب عام آدمی پارٹی سے مانگاجارہاہے اور اسی پربس نہیں پارٹی لیڈروں پر حملے کرائے جارہے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کی مدت میں پارٹی کنوینر اروند کجریوال اور ان کے رفقاپرپانچ مرتبہ حملہ ہوچکاہے۔ ان مذموم حرکتوں کی مذمت کی بجائے دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈر انھیں حق بجانب ٹھہرا رہے ہیں۔ ان حرکتوں کو کجریوال کی بے عزتی کے طور پر پیش کیا جارہاہے۔ ان کا تمسخر اڑایا جارہاہے۔ کجریوال کوزدوکوب کیے جانے پربغلیں بجانے والوں سے کسی نے خوب کہاہے کہ ہمارے ملک کے قائدین سیکورٹی کے بغیر گھر سے نکل کر دیکھیں طمانچے شمارکرنا مشکل ہوجائے گا۔ اسے کیا کہاجائے کہ ماں گنگا میں اشنان کرنے اور باباوشوناتھ کادرشن کرنے والے اروندکجریوال پر بنارس میں وہ لوگ انڈا پھینکتے ہیں جو خود کو رام بھکت کہلاتے ہیں۔ دھرم نگری کاشی میں اگرکسی اور طبقے کے لوگ انڈوں کا استعمال کرلیتے توآگ برس پڑتی۔یہ لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ عزت اور ذلت اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ ان حملوں سے نہ اروند کجریوال کی مقبولیت کو کم کیاجاسکتاہے اور نہ انھیں خوف زدہ کیاجاسکتاہے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کجری وال پر حملہ کرنے والے لوگوں کو اپنی حرکت پر ندامت کا احساس بھی ہوا ہے ۔اور اپنی حرکت کے لیے انہوں نے معافی بھی مانگی ہے۔اروند کجریوال کئی مرتبہ اس یقین کا اظہار کرچکے ہیں کہ مارنے اور بچانے والا کوئی اور ہے۔ جو لوگ حق کے راستے پر ہوتے ہیں اللہ ان کی حفاظت اور نصرت کرتاہے۔ اروندکجریوال سچائی کے راستے پرہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہوناچاہیے کہ اروند کجریوال جیسے ایماندار اور سچے رہنما صدیوں میں پیداہوتے ہیں۔ اروندکجریوال کی حمایت اورحفاظت ہراس شخص کی ذمہ داری ہے جو ہندوستان اور ہندوستان کی جمہوری قدروں میں یقین رکھتاہے جو ملک کو بے ایمانوں، بدعنوانوں اور امن دشمنوں سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ آخر میں جیت سچائی کی ہی ہوتی ہے۔یہ ملک اگر اروندکجریوال جیسے ایماندار لوگوں کی قدر نہیں کرتا تو یہ ملک کی بدقسمتی ہوگی۔
ہندوستان میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ہوتاہے۔ یہ سب مانتے ہیں کہ جس پارٹی کی طرف مسلم ووٹروں رجحان ہوتاہے فیصلہ اسی کے حق میں ہوتاہے۔ چنانچہ روزاول سے ہی اس بات کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ مسلمان عام آدمی پارٹی سے نہ جڑجائیں۔عام آدمی پارٹی اور اس کی قیادت کی طرف سے مسلمانوں کو مسلسل گمراہ کیاجاتارہاہے۔ کبھی ان کے سر پر آرایس ایس کا ہاتھ بتایاجاتاہے۔ کبھی بی جے پی کی کٹھ پتلی قرار دیا جاتاہے اور کبھی کانگریس کا ایجنٹ کہہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ سچائی یہی ہے کہ اروند کجریوال نہ بی جے پی کے آدمی ہیں اور نہ کانگریس کے بلکہ وہ عام آدمی کے حقیقی نمائندے ہیں۔وہ کرپشن کے خلاف ابھرنے والی ایک مضبوط صدا ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کو یہ کہہ کر گمراہ کیا گیاہے کہ اروندکجریوال مسلمانوں کی بات نہیں کرتے۔ ان لوگوں سے یہ پوچھا جائے کیا بدعنوانی مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ کیا سسٹم کی شفافیت اور ایمانداری اقلیتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب بعض لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کی بقا کے لیے کرپشن کونعمت سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ تو سراسر ایمان کی کمزوری ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایمانداری نظام کا حصہ بن جائے گی تواس کا فیض ہرطبقے اور فرقے کے لوگوں کو پہنچے گا۔سیاست کو بے ایمانوں سے پاک ہونے دیجیے۔
ادھربہت سی نام نہاد اورفرضی مسلم تنظیموں کی طرف سے عام آدمی پارٹی اور اس کے امیدواروں کے خلاف پمفلٹ اور اشتہارات شائع ہورہے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپیل کنندہ لوگ یا ادارے گمنام اور غیر معروف ہیں۔ ائمہ اور مدارس کے نام سے بھی پمفلٹ سامنے آرہے ہیں۔ جن میں زبان وبیان اورقواعد کی اتنی غلطیاں ہوتی ہیں کہ کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ کسی امام یامدرس کا لکھاہواہے۔عام آدمی پارٹی سے مسلمانوں کی بات نہ کرنے کا شکوہ کرنے سے پہلے نریندرمودی کاوہ بیان بھی یاد رکھنا چاہیے جس میں کجریوال کو اے کے 49اور پاکستانی ایجنٹ کالقب دیاگیاہے۔
نریندرمودی نے جس طرح بھارتیہ جنتا پارٹی اور ذرائع ابلاغ کوہائی جیک کیاہے اورملک پر اپناایجنڈا تھوپنے کی منظم کوشش کی ہے۔ اس سے یہ الیکشن مودی بنام ہندوستان ہوگیاہے۔ یہ ایک سیکولر ملک کے امتحان کی گھڑی ہے۔عام ہندوستانی کے انتشار،ملت کی تفریق اورسیکولر ووٹوں کی تقسیم سے اگرملک کا اقتدار غلط ہاتھوں میں چلاجاتاہے توہمارامقدر صرف پچھتاوا ہوگا اور وقت ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔
Modi vs. India and common man. Article: Moin Shadab
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں