انتخابات سے قبل - آخری بات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-04

انتخابات سے قبل - آخری بات

importance-of-voting-in-democratic-system
اس کالم کی اشاعت کے چند دن بعد ہی لوک سبھا کے انتخابات کے سلسلہ میں رائے دہی کے مراحل شروع ہوجائیں گے جیسا کہ سب ہی جانتے ہیں کہ یہ انتخابات نہ صرف مسلمانان ہند بلکہ پورے ملک کے لئے بے حد اہم اس لحاظ سے ہیں کہ انتخابی نتائج سے ہی اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ اس ملک کی عنان حکومت فرقہ پرست، سرمایہ دارانہ نظام اور ہندوتوا کے علمبردار فاشسٹوں کے ہاتھ میں ہوگی یا کسی حدتک معقول حکمرانی کے اہل افراد کو قتدار ملے گا؟ اس سلسلہ میں پہلی بات بلکہ گزارش (جو ہم پہلے بھی کرچکے ہیں) یہی ہے کہ ہماری اور آپ کی پہلی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں یا نتائج کے بعد این ڈی کا رخ (اقتدار کی خاطر سارے اصول قربان کرکے) کرنے والی جماعتوں (جن کا ماضی میں این ڈی اے سے تعلق رہا ہے یا جن کا سیکولر ازم مشکوک رہا ہو)کو ہر گز کامیاب نہ ہونے دیں کیونکہ بی جے پی کا ساتھ دینے والی جماعتیں بی جے پی سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ ماضی میں بھی بی جے پی ان ہی جماعتوں( مثلاً تلگودیشم، جنتادل (یو) ٹاملناڈو کی ڈی ایم کے جماعتوں) کی وجہ سے این ڈی اے کو اقتدار ملا تھا۔ مشتبہ جماعتوں میں تلنگانہ کی ٹی آر ایس، وائی ایس آر کانگریس اڑیسہ کی جنتادل بیجو بھی شامل ہیں۔ توقع ہے کہ نتیش کمار کی جنتادل (یو)، مایاوتی، ملائم سنگھ اور ممتابنرجی کی جماعتیں بی جے پی سے دور رہیں گی۔ الیکشن کے بارے میں لکھے گئے ہمارے کئی کالموں کا خلاصہ، ہم عین الیکشن سے قبل پیش کرنا چاہیں گے۔
بی جے پی یا مودی کو کامیاب نہ ہونے دینے کے لئے مسلمانوں کو ان تمام کمزوریوں سے گریز کرنا ضروری ہے۔ جن کی وجہ سے مسلمانوں نے آزادی کے بعد سے آج تک خاصہ نقصان اٹھایا ہے۔ اس الیکشن میں ہم سب کا واحد مقصد بی جے پی اور مودی کو روکنا ہے اور ہمیں صرف یہ سوچ کر خوش نہیں ہونا ہے کہ ہم تو ’’بادشاہ گر‘‘ ہیں لیکن کوئی بادشاہ گر باہمی اتفاق، ربط باہمی اور تدبر و دانائی پر مبنی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے بغیر بادشاہ گر نہیں بن سکتا ہے۔ مرکزی قیادت اور جماعت اور باہمی مشاورت سے محروم مسلمان رائے دہندگان یا مقامی گروپس کو اپنا فیصلہ خود کرنا ہے اور سب سے زیادہ زور دوباتوں پر دینا ہے ایک تو مسلمان ووٹ کو تقسیم نہیں ہونے دینا ہے اور ہمارے ووٹ کا استعمال صرف ہرانے کے لئے نہیں بلکہ ہم جس کو ووٹ دے رہے ہیں اس کو کامیاب کروانا ہے۔ اس وقت مودی جیسا فرقہ پرست، فاشسٹ اور مسلم دشمن نہ صرف ملکی بلکہ مسلم دشمن غیر ملکی وسائل کا استعمال کرکے حکومت حاصل کرنے کے لئے سرگرداں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو پوری سنجیدگی سے کام لینا ہے۔ پارلیمانی نتائج کا اثر آنے والے پانچ سالوں پر ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی پڑسکتا ہے۔ اس لئے یہ وہ وقت ہے کہ ہم کو اپنی پسند سے زیادہ مودی کو مسترد کرکے اسے ناکام بنانے پر اپنی ساری توجہ صرف کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ہمارے لئے کوئی پارٹی یا کوئی فرد ’’شجر ممنوعہ‘‘ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جبکہ وہ بی جے پی یا اس کی حلیفوں سے وابستہ ہو ۔ مودی سے دور رہنے والا ہر فرد ہمارے قابل قبول ہے۔
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہی ہے کہ ذرائع ابلاغ (اخبارات اور ٹی وی چیانلز خاص طور پر ٹی وی چینلز) مودی کے اس قدر اثر میں ہیں کہ وہ اپنی پوری قوت سے یہ تاثر پیدا کررہے ہیں کہ مودی کی کامیابی قطعی طور پر طئے ہے اور اس بات کا بھی وہ خوب پروپگنڈہ کررہے ہیں کہ ا ب مسلمان بھی بی جے پی کی طرف مائل ہورہے ہیں اور مودی کو پسند کررہے ہیں۔ یہ سارا پروپگنڈہ بے بنیاد، بے جواز، غیر حقیقی اور من گھڑت باتوں پر مبنی ہے اس کو سچ مان کر اس سے متاثر ہونے، پریشان اور مایوس ہوکر کسی قسم کے تذبذب اور شک و شبہ میں مبتلا ہونے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر تو کوئی یقین ہی نہیں کرے گا کہ ماسوائے چند مجبور یا بکے ہوئے ضمیر فروشوں کے کہیں بھی کسی حالت میں مسلمانوں کی کثیر تعداد پارلیمانی انتخابات میں مودی کی خاطر بی جے پی کو یابی جے پی کی حلیفوں کو ووٹ دینے والی نہیں ہے۔ بہار میں مسلمان جو رام ولاس پاسوان کو ووٹ دیتے تھے ان کو دوبارہ بی جے پی کا ساتھ دینے کی وجہ سے اب ان کو ہرگز ووٹ نہیں دیں گے۔ اس لئے میڈیا کی طرف سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کا ہرگز شکار نہ ہوں اور سمجھ دار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کو سمجھائیں۔
میڈیا مودی کے بارے میں یہ تاثر پیش کررہا ہے کہ جیسے مودی کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ مودی کے 2002ء کے فسادات کے جرائم دنیا نے بھلادئیے ہیں وہ جرائم اب ماضی کا حصہ ہیں۔ گجرات کی ایک معمولی عدالت کی مودی کو دی ہوئی کلین چٹ کو میڈیا خود مودی اور بی جے پی والے سپریم کورٹ کی دی ہوئی کلین چٹ بتاکر دنیا کو دھوکا ہی نہیں دے رہے ہیں بلکہ توہین عدالت کررہے ہیں۔ ان کے خلاف تو قانون چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔ وکاس (ترقی) اور بہبود کے نام پر دھوکادہی کے علاوہ ترقی اور بہبود کے نام پر جس گجرات کاماڈل کی دھوم ہے اس گجرات ماڈل کے خدوخال، خصوصیات اور نتائج اور اثرات کا ذکر تو ہوتا نہیں ہے ہاں ملک کو گجرات ماڈل، کی طرح بنانے کے وعدے ہیں اگر گجرات 2002ء کے فسادات کے حوالے سے کوئی گجرات ماڈل ہے تو ملک بھر میں ایسی ہلکی سی کوشش بھی ملک کی تباہی و بربادی کا نقطہ آغاز ہوگا۔ گجرات ماڈل چاہے دھمکی ہو یا کھوکھلا نعرہ اس کی کوئی اصلیت نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی مودی کی لہر ہے ۔ ورنہ دو دو جگہ سے نہ لڑتا بی جے پی قائدین میں سرپٹھول نہ ہوتی۔ ہاں بی جے پی کو مودی نے آر ایس ایس کی مدد سے یر غمال بناکر اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی، جسونت سنگھ جیسے بزرگ قائدین کو پارٹی کی قیادت سے بے دخل کرکے بے تو قبراور بے اثر کرکے رکھ دیا ہے ۔ ملک میں بی جے پی میں کی دھاندلیوں کی لہر ضرور ہے۔
ووٹ دینے کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی تدبر کے ساتھ ضروری ہے۔ ہم کو اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ مودی کا مقابلہ کرنے والوں میں کونسا امیدوار یا کس پارٹی کا امیدوار سب سے زیادہ طاقتور ہے مودی کو ہرانے کی صلاحیت رکھنے والا امیدوار کسی بھی وجہ سے اگر آپ کے لئے قابل ترجیح (مذہب، مسلک، ذات، برادری کی علاقے، خاندان اور روابط کی بنیاد پر) بھلے ہی نہ ہو لیکن ملی بہبود، ملک کی بھلائی کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ اپنی پسند کو بالائے طاق رکھ کر کسی ایک امیدوار کو جو بی جے پی نہ سہی لیکن این ڈی اے میں شامل ہو۔ یا این ڈی اے میں شامل ہونے کا جن پر شبہ ہو۔ امیدوار کو آپ نے ہر حال میں ہر قسم کی قربانی دے کرناکام بنانا ہے چاہے اس کے لئے آپ کو کچھ بھی کرنا پڑے۔ کانگریس ، سماج وادی ، جے ڈی یو، بائیں بازو کی جماعتوں ترنمول کانگریس اور مایاوتی کی بی ایس پی ایسی جماعتیں ہیں جن کے بارے میں یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ جماعتیں این ڈی اے سے دور رہیں گی۔ اڑیسہ کی جنتادل (بیجو) آندھراپردیش کی وائی ایس آر کانگریس تلنگانہ کی ٹی آر ایس کا رول مشکوک ہوسکتا ہے ۔ بہر حال علاقائی جماعتوں سے معاملہ کرنے میں کسی نہ کسی حدتک خطرہ Risk تو مول لینا ہوگا لیکن ہم کو کسی بھی جماعت کو حتمی طور پر قبول یا مسترد نہیں کرنا ہے۔ موقع کے لحاظ سے کسی حلقہ میں مسترد کی جانے والی جماعت کو دوسرے حلقہ میں قبول کیا جاسکتا ہے۔ ہر حلقہ کا فیصلہ بی جے پی کے مقابل امیدوار کی طاقت کے لحاظ سے کرنا ہے مثلاً یو پی میں مختلف حلقوں میں مختلف جماعتوں کی طاقت حدا حدا ہوسکتی ہے۔ کسی حلقہ میں کانگریس کسی میں سماج وادی پارٹی کسی میں بی ایس پی اور کہیں کوئی چھوٹی سی مسلم جماعت کا امیدوار بی جے پی سے طاقتور ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ہم کو مختلف حلقوں میں مختلف جماعتوں کو ووٹ دے کر دانائی اور ہوشیاری سے Tactical Voting کرنی ہوگی۔ کئی ریاستوں میں کانگریس کو یا دوسری جماعتوں کو مثلاً یو پی میں بعض جگہ ایس پی اور بہار میں جنتادل (یو) کو بھی ووٹ دینا مسلمانوں کی مجبوری ہے۔ کاگنریس یا کسی بھی مخالف بی جے پی جماعت کو دو کم تر برائی، سمجھ کر قبول کرنا ہماری ضرورت ہے۔ اسی طرح مذہب، مسلک یا کسی جذباتی تعلق کی بناء پر کسی کمزور امیدوار کا ساتھ نہ دیں ۔ ووٹ کی تقسیم کرواکر جیتنے والے امیدوار کی ناکامی کے لئے جذباتی اپیل کرنے والوں سے متاثر نہ ہوں۔ کسی وجہ سے کسی چھوٹی سی جماعت کے مسلم امیدوار یا اپنی پسند کے کسی امیدوار کو ووٹ دے کر ملی مقصد یا اپنی پسند کے کسی امیدوار کو ووٹ دے کر ملی مقصد و ایجنڈے سے منہ نہ موڑیں نہ ہی کسی ذاتی وجہ سے کسی طاقتور امیدوار کو نظر انداز کریں۔

***
rasheedmansari[@]ymail.com
موبائل : 09949466582
Flat No. 207, "Jahandar Towers" Rati Bowli, Mehdipatnam, Hyderabad-500028

Indian Muslims have to play a great role in forthcoming elections. Article: Rasheed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں