ہند کی سیاست میں توازن برقرار رکھنے کی پالیسی بہت پرانی ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-16

ہند کی سیاست میں توازن برقرار رکھنے کی پالیسی بہت پرانی ہے

India-political-balancing-policy
ہندوستان میں انتخابی کمیشن کی تمام تر سخت ہدایات اور انتخابی ضابطہ عمل کی پاسداری کو یقینی بنانے کی کوشش کے باوجود ملک کی سیاست کو فرقوں، ذاتوں اور طبقوں میں تقسیم کرنے والے عناصر ان دنوں کافی سرگرم ہوگئے ہیں۔ اشتعال انگیز بیانات ہندوستان کی انتخابی سیاست کا اہم جزو ہیں اور آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں، لیکن اشتعال انگیزی پھیلانے والا اگر بڑے سیاسی قد کا ہوتو اس کے خلاف کارروائی کرتے وقت کافی غور و خوض کا معاملہ کیا جاتا ہے لیکن یہی اشتعال انگیزی جب کسی چھوٹے قد کے لیڈر کی جانب سے کی گئی ہوتو قانون نافذ کرنے وا لا سارا عملہ اسی وقت فوری طور پر حرکت میں آجاتا ہے اور آناً فاناً میں گرفتاری بھی عمل میں آجاتی ہے۔ حد تو تب ہوگئی جب ہندوستانی انتخابی کمیشن کے ایک تازہ فیصلے نے مزید تشویش پیدا کر دی، نریندر مودی کے قریبی امت شاہ پر پابندی لگانے کے لیے سماج وادی کے لیڈر اعظم خان پر بھی عوامی جلسہ کرنے پر پابندی عاید کردی جبکہ اعظم خان کی تقریر میں اشتعال انگیزی کا عنصر نظر نہیں آتا انہوں نے مسلمانوں کی حصول یابیوں کا تذکرہ کیا تھا جبکہ امت شاہ نے اپنی تقریروں میں بدلہ لنے کی ترغیب دی تھی ، دونوں معاملوں کو ایک ہی خانے میں رکھ کر یہ فیسلہ دے دیا گیا ۔
دراصل ہندوستان میں توازن برقرار رکھنے کی یہ پالیسی بہت پرانی ہے اس سے قبل ہندوستان میں 1975میں ایمر جینسی کے دوران اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ہندو شدت پسند تنظیم آر ایس ایس پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی ہند پر بھی پابندی لگا دی تھی ۔
گزشتہ دنوں مغربی اترپردیش کے ایک لیڈر کی 6 ماہ قبل کی اشتعال انگیز بیان کی سی ڈی منظر عام پر آتے ہی ریاستی سرکار اور دیگر ادارے حرکت میں آگئے اور کانگریس کے امیدوار عمران مسعود کو جیل بھیج دیا گیا اور یہی اشتعال انگیزی جب بی جے پی کے اترپردیش معاملوں کے انچارج نریندر مودی کے دست راست سمجھے جانے والے امت شاہ کی جانب سے کی گئی تو پورے معاملے کو دوسرا رنگ دے دیا گیا اور ابھی تک ان کی گرفتاری پر عمل نہیں ہوسکا ہے۔ اسی طرح عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجری وال جب گاندھی سمادھی راج گھاٹ کا دورہ کرتے ہیں تو الیکشن کمیشن اپنے طور پر نوٹس لیتے ہوئے انہیں وجہ بتائو نوٹس جاری کرتا ہے۔ اگر مثالی ضابطہ عمل کی خلاف ورزی کوئی اہم لیڈر کرتا ہے تو اس کو صرف نوٹس دے کر معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن یہی خلاف ورزی جب اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے کسی لیڈر کی جانب سے کی جاتی ہے تو سارا عملہ حرکت میں آجاتا ہے۔ مہاراشٹر میں ہندو شدت پسن سیاسی تنظیم شیوسینا کے لوگ جب اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کا کام کرتے ہیں تو اس وقت کارروائی کے نام پر کچھ نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب گیارہ اگست 2013 کو ممبئی کے آزاد میدان میں برمی مسلمانوں پر وہاں کی حکومت کی جانب سے جاری ظلم کے خلاف کچھ افراد اس ظلم کے خلاف پر امن مظاہرہ کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو ان سے سختی سے نمٹا جاتا ہے وہی ممبئی پولیس جو شیوسینا کے غنڈوں کی حرکت پر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اچانک حرکت میں آجاتی ہے سوال یہ ہے کہ جب ہندوستانی آئین کی نظر میں ملک کا ہر شہری برابر ہے تو اس طرح کی تفریق کیوں ؟ ایک مہذب معاشرے میں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ مل جل کر رہتے ہیں اس طرح کی اشتعال انگیزی کی کوئی جگہ نہیں ہوسکتی، اکثریتی یا اقلیتی کسی بھی فرقے سے تعلق رکھنے والے کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا کہ اس طرح کا غلط رویہ اختیار کرے۔

سوال یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں سرکاریں اپنی ذمےداری ٹھیک طرح سے ادا کرنے میں ناکام کیوں رہتی ہیں؟ سیکولرزم پر کامل یقین رکھنے والی یہاں کی سیاسی جماعتیں ایسے مواقع پر کیوں اپنی ذمے داری ادا نہیں کرپاتیں۔
قانون کی نگاہ میں تو سب برابر ہیں تو پھر یہ صورت حال کیوں پیدا ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوری نظام کے تحفظ کے لئے آئین و قانون کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے۔ قانو ن نافذ کرنے والے ادارے بلاتفریق مذہب و ملت قصورواروں کو کیفر کردار تک پہنچائیں ورنہ دو رخی پالیسی سے ملک کو نقصان ہی ہوگا۔ کسی بھی جمہوری نظام کی کامیابی اس بات میں مضمر ہے کہ وہاں بسنے والی اقلیتیں کس درجہ محفوظ ومطمئن ہیں۔ ہندوستان کو عالمی سطح پر اسی صورت میں یہ مرتبہ حاصل ہوگا جب یہاں اقلیتیں پرسکون ہوں اس کے لئے قانون سب کے لئے برابر ہے ، پر عمل کرکے دنیا کو دکھانا ہوگا۔

***
ashrafbastavi[@]gmail.com
موبائل : 09891568632
ڈی 314 ، ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر ، نئی دہلی - 110025
اشرف علی بستوی

India's political balancing policy is age old. Article: Ashraf Ali Bastavi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں