کانگریس کی قیادت اور حقیقی مسلم مسائل سے عدم دلچسپی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-16

کانگریس کی قیادت اور حقیقی مسلم مسائل سے عدم دلچسپی

آج کل مسلمانوں کے خودساختہ ترجمان ٹی وی چینلوں پر خوب نظر آرہے ہیں۔جیسے جیسے الیکشن کا بخار بڑھ رہا ہے یہ ترجمان وفودبناکرسیاستدانوں کے گھروں پر دھاوا بول رہے ہیں تاکہ 'قوم'کے نام پر ان کے ساتھ 'معاملات'طے کرسکیں۔ اس سلسلہ کی تازہ کڑی کے طورپرجامع مسجد کے امام احمد بخاری سرخیوں میں ہیں۔انہوں نے کانگریس صدرسونیا گاندھی سے 45منٹ تک ملاقات کی۔امام بخاری کا کہناہے کہ انہوں نے سونیا گاندھی سے دہشت گردی کے الزامات میں ماخوذ مسلم نوجوانوں'سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کے نفاذاورانسدادفرقہ وارانہ فسادات بل کے تعلق سے گفتگو کی۔غالباً سونیا گاندھی نے احمد بخاری کی یہ باتیں سنیں بھی۔انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ' امام بخاری کی تائیدسے کانگریس کی انتخابی مہم کو خاص طورپر اترپردیش میں خاصا سہارا ملے گا۔'لیکن اس وقت بھی یہی حساب کتاب لگایا گیا تھا جب 2012میں سماجوادی پارٹی نے احمد بخاری کے داماد عمر خان کوسہارنپورسے ٹکٹ دیا تھا اور وہ ہار گئے تھے۔
اگر سونیا گاندھی یہ سمجھتی ہیں کہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے قائد سے سمجھوتہ کیا ہے تو وہ کانگریس پارٹی'ہندوستانی مسلمان یا خود امام بخاری کے حق میں کوئی اچھا نہیں کریں گی۔تجربات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سیاسی میدان میں ان کی بات کا کوئی وزن نہیں ہے۔ان کے فرائض منصبی میں نمازوں کی اقتدا کرانا ہے۔وہ ملک کی ایک عظیم شاہی مسجد کے امام ہیں۔انہیں اس مسجد کے امور اس کی شان کے مطابق چلانے ہیں جن کو وہ چلا بھی رہے ہیں۔کانگریس صدر سونیا گاندھی کومعلوم ہونا چاہئے کہ نئی دہلی میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کے درمیان وقف جائیدادکے ایشو پر جاری جنگ کے سبب راجدھانی کے مختلف اہم علاقوں میں وقفہ وقفہ سے خطرناک حد تک ٹریفک جام ہوتا رہاہے۔گوکہ یہ ایک چھوٹاسا معاملہ ہے لیکن اس سے مسلکی تصادم بھڑک سکتا ہے۔کیا امام بخاری نے کبھی اس مسئلہ میں مداخلت کی؟اگر اس قضیہ میں وہ کوئی موثرکردارادانہ کرسکے توحکومت کے پاس تو لا زمی طورپرنئی دہلی کے جور باغ علاقہ میں واقع قیمتی زمین کے سلسلہ میں ہائی کورٹ کے ایک حکم پرعمل درآمدکرانے کا اختیار تھا۔یہ تو کوئی ایشو بھی نہیں ہے۔یہ ایک چھوٹا سا تنازعہ ہے جس کے سبب کئی بار امن وامان درہم برہم ہوا۔جو لوگ اس علاقہ میں آباد ہیں 'مسلمانوں کی اس باہمی کشمکش 'کے سبب ان کی روزمرہ کی زندگی اتھل پتھل ہوتی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی ایسی قابل ذکر قیادت موجود ہی نہیں کہ جوکسی بھی شہری مسئلہ کی طرح اس قضیہ میں لوگوں اور حکومت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرسکے۔ مسلم آبادیوں میں یہ صورت حال اور بھی زیادہ شدیدہوجاتی ہے۔پولنگ کے دن ووٹ ڈالنے کے بعدلوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔الیکشن کے دن آتے ہی امام کواپناجبہ قلہ نکالنے کی حاجت پیش آجاتی ہے۔
مسلمان دہائیوں سے کانگریس کے مستقل ووٹر رہے ہیں۔تقسیم وطن اور اس کے مابعد اثرات کے بعدیہی ایک صورت تھی جو ان کے لئے راحت کا سامان تھی۔اندرا گاندھی کے لئے سیاسی موت کا پہلا اشاریہ1967میں آیا۔وہ آٹھ شمالی ریاستوں میں الیکشن ہارگئیں۔اس کے بعد نہروگاندھی کی وارث کا بھگوے کی جانب میلان کااشاریہ آیا۔اندرا گاندھی نے 'ہندو تعاون'کی بات شروع کردی۔سنگھ پریوارکے'مسلم چاپلوسی'کے نعرہ نے اندرا گاندھی تک کی سیکولرشبیہ کو تباہ کرنا شروع کردیا۔یہ تشویشناک صورت حال راجیو گاندھی کے زمانہ میں اور زیادہ واضح ہوکر سامنے آگئی۔1985میں کانگریس کے جنرل سیکریٹری وی این گاڈگل نے مجھ سے کہا تھا کہ ہندؤں میں یہ غصہ پنپ رہا ہے کہ کانگریس کی حکومتیں مسلمانوں کی منہ بھرائی کرتی رہی ہیں۔اب آپ دیکھ لیجئے کہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کس طرح ہورہی تھی یہ بات 2006میں سچر کمیٹی کی رپورٹ سے واضح ہوگئی۔لیکن کانگریس پہلے ہی ہندؤں کی جذباتی طورپرخوشامد کرنے کا چکر چلاچکی تھی۔1986میں کانگریس نے اجودھیا میں ہندوؤں کے لئے بابری مسجد کا تالہ کھول دیا۔اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ راجیو گاندھی نے اجودھیا سے 1989میں اپنی انتخابی مہم کی ابتدا کرتے ہوئے ملک میں رام راجیہ قائم کرنے کا وعدہ کرلیا۔مسلمانوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے راجیو گاندھی نے سلمان رشدی کی کتاب 'شیطانی آیات'پر پابندی لگادی'شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو پلٹ دیا اور اسرائیل کے ساتھ رشتوں کی استواری کو موخر کردیا۔جیسے کہ یہ ایشوز مسلمانوں کی روزی روٹی سے جڑے ہوئے تھے۔اور حیرت یہ ہے کہ مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو کبھی حل نہیں کیا گیا۔
ایسے ایشوزپرجن سے راجیو گاندھی کو ذاتی طورپرکوئی ربط نہ تھا 'ان کی غلط پیش رفت نے بی جے پی کو پھلنے پھولنے کا میدان فراہم کردیا۔پی وی نرسمہار راؤنے روز افزوں بی جے پی لہرکو روکنے کی بجائے ارجن سنگھ کی تمناؤں کو ناکام کرنے میں توانائی لگادی۔تاریخ 'نرسمہاراؤ' کوکسی بھی دوسرے کانگریسی لیڈر کے مقابلہ میں اٹل بہاری باجپائی کے بہترین دوست کے طورپریاد رکھے گی۔اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ لال کرشن اڈوانی نے نرسمہاراؤ کو لال بہادر شاستری کے بعد سب سے بہتروزیر اعظم قرار دیا تھا۔اور کیوں نہ ایسا ہو؟1965کی جنگ کے دوران لال بہادر شاستری نے آر ایس ایس کو شہری دفاع کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے کہا تھا۔
محترمہ سونیا جی یہ وہ رجحان ہے جس کو پلٹنے کے لئے کانگریس مسلح نہیں ہے۔سونیا جی آپ کو یہ جاننا چاہئے کہ آپ جس پارٹی کی سربراہی کرتی ہیں مسلمان اس سے سب سے زیادہ متنفر ہوتا اگر آر ایس ایس -بی جے پی نے ایک ایسے شخص کو امیدوارمنتخب نہ کیا ہوتا جس کی تائید کرنے سے اکانومسٹ جیسے میگزین تک بیزار نظر آئے۔7/دسمبر2013 تک بھی ملک کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اگلے دن کیا نتیجہ آنے والا ہے۔چار ریاستی اسمبلیوں میں کانگریس شکست سے دوچار ہوگئی تھی اور دہلی میں معجزاتی طورپرعام آدمی پارٹی کا ظہور ہوچکا تھا۔
مسلمانوں سمیت بہت سوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ' آپ'کے اندر اتناغیر معمولی دم ہے۔ سرکاری اداروں کے لئے عام آدمی پارٹی سے نپٹنا بقا کا سوال بن گیا۔اور اب یہی صورت 16/مئی تک رہے گی کہ ملک کے سبھی عوام بشمول مسلمان سانس روک کر نتائج کا انتظار کریں گے۔

Congress showing no interest in real muslim issues. Article: Saeed Naqvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں