عام انتخابات کے تعلق سے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا تجسس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-07

عام انتخابات کے تعلق سے غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا تجسس

نئی دہلی۔
(یو این آئی)
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں وسیع پیمانے پر ہونے والے انتخابی عمل پرجس میں مختلف عقائد، ذات و نسل اور ثقافت کا اہم رول ہوتا ہے، ساری دنیا کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بارے میں وہاں کافی دلچسپی اور تجسس ہے۔ کہیں ہندوستانی الیکشن پر تلخ و ترش نکتہ چینی ہے اور کہیں متوازن طریقہ سے تجربہ کیا گیا ہے لیکن یہاں کے الیکشن اور جمہوریت سے اتنی دلچسپی شائد پہلے کبھی نہیں رہی جتنی اس مرتبہ ہے۔ ہر کوئی انتخابی نتیجے جاننے کیلئے بے چین ہے۔ یہاں کے کروڑوں نوجوان پرانے نظام کو بدل کرنے نئی حکومت لانا چاہتے ہیں مگر ان لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کی روایتی وفاداری کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ بی جے پی وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار نریندر مودی اور کانگریس کی جانب سے انتخابی مہم کی کمان سنبھالے ہوئے پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کو عالمی میڈیا میں خصوصی مقام دیا جارہا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے انتخابی جائزوں پر توجہ دی ہے جن میں مودی کی فتح کی بات کہی جارہی ہے۔ گجرات کے چیف منسٹر ماضی میں کٹر ہنوتو حامی رہے ہیں۔ اس بات کو یاد دلاتے ہوئے اخبار نے لکھا ہے کہ پارٹی کی جانب سے اعلیٰ ترین عہدے کا امیدوار قرار دئے جانے کے بعد ان کے لب و لہجہ میں تبدیلی آئی ہے۔ مودی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے وزیراعظم عہدے کے امیدوار بننے کے بعد اپنی ایک ابتدائی تقریر میں کہا تھا مجھے ہندو قوم پرست لیڈر کے طورپر جانا جاتا ہے مگر میری حقیقی سوچ یہ ہے کہ ہمیں پہلے بیت الخلا بنانے چاہئے، مندر بعد میں ان کے اس بیان پر کافی لے دے ہوئی حالانکہ مودی پر فرقہ پرستی کا داغ ہے مگر اس کے باوجود رائلے شماریوں میں یہ دکھایا گیا ہے کہ بی جے پی اپنی خاص حریف کانگریس سے کافی آگے چل رہی ہے۔ لندن سے شائع ہونے والے اکنامسٹ نے ایک سخت اداریہ میں مودی کو 2002 ء کے گجرات کی خونریزی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہندوستان میں مودی سے بہتر وزیراعظم ہونا چاہئے۔ گوا اس جریدے نے مودی کے زمانے میں ریاست گجرات میں ہوئی معاشی ترقی کو تسلیم کیا ہے مگر کہا ہے کہ ماضی کے ان کے ریکارڈ کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے جس کے مطابق وہ اب بھی فرقہ وارانہ منافرت سے وابستہ ہیں۔ اس میں ماڈرن ایماندار اور منصفانہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہندوستان کو بہتر رہنما ملنا چاہئے۔ خلیج ٹائمز نے بھی مسٹر مودی کی سیاسی لڑائی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں اور ملک کی اقلیتوں پر اس کے اثرات کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل نے راہل گاندھی کے حلقے امیٹھی پر خصوصی رپورٹ دی ہے۔ جس میں اس حلقہ میں نہرو گاندھی کنبے کے چشم و چراغ کی گرتی ہوئی حمایت کے اسباب کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ جہاں ان کا مقابلہ بی جے پی کی اداکارہ سے سیاست بننے والی سمرتی ایرانی اور نئی نویلی عام آدمی پارٹی کے نوجوان لیڈر کمار وشواس سے ہے۔ عرب نیوز نے بھی امیٹھی حلقہ پر خصوصی رپورٹ پیش کی ہے۔ پڑوسی پاکستان میں مودیا کی متوقع فتح کو میڈیا میں کافی جگہ دی جارہی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے علاوہ دوسرے پڑوسی ممالک بھی ہندوستان کے الیکشن کو بیحد دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کی بیشتر حلقوں نے ہندوستانی حلقوں نے اس کا مضحکہ بھی اڑایا ہے اور طنز کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ جاپان ٹائمز اور ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ دونوں نے شائع مضامین میں اس سارے عمل اور اس نظام کو ایک تماشا قرار دیا ہے۔ تاہم اس میں انتخابات کے جمہوری کردار سے انکار نہیں کیاگیا ہے۔ یہ صحیح معنو ں میں جمہوری انتخابات ہیں جس کے نتائج کی ہر کوئی پیشین گوئی کرتا ہے چاہے وہ پریس ہو، ریڈیو یا ٹی وی مگر اس کے علاوہ نجومی اور سادھو وغیرہ بھی اس کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ سارے کے سارے غلط ثابت ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس بیان کے ساتھ ساھت یہ بھی کہا گیا ہے کہ جمہوری انتخابات کرانا ضروری ہے مگر یہ حقیقی جمہوریت کیلئے کافی نہیں ہے۔ ہندوستان اور کئی دوسرے ممالک اس میں ناکام رہے ہیں۔

India elections inspire wonder and evoke curiosity in foreign media

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں