سطح غربت میں کمی کی ہندوستان کی کوششیں - بعض کارپوریٹ گروپس رکاوٹ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-02

سطح غربت میں کمی کی ہندوستان کی کوششیں - بعض کارپوریٹ گروپس رکاوٹ

علی گڑھ۔
(پی ٹی آئی)
ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر جین ڈریز نے کہا ہے کہ بعض افراد کے مفادات حاصلہ اورسیاسی جماعتوں کے مابین" تائیدی مہمیں" سطح غربت میں کمی کیلئے ہندوستانی کی مساعی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ یہ "مضحکہ خیز" بات ہے کہ ملک کی ترقی کے عروج کے زمانہ میں غربت کی سطح میں کمی "تغذیہ اور صحت کے موقف سے متعلقہ اشاریوں میں گراوٹ آئی۔ پروفیسر ڈریز نے دعویٰ کیا کہ "بعض مفادات حاصلہ حالیہ اقدامات جیسے دیہی روزگار ضمانت ایکٹ اور غذائی سلامتی بل کے بعض مثبت پہلوؤں کی بھی بیخ کنی کی کوشش کررہے ہیں اور ایسے افراد "غربت کی سطح میں کمی کیلئے ہندوستان کی مساعی میں مانع ہورہے ہیں"۔ عالمی شہرت یافتہ ماہر معاشیات جین ڈریز، دہلی اسکول آف اکنامکس میں پروفیسر ہیں۔ وہ کل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں نواں آئی جی خان یادگار لکچر دے رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ غربت میں کمی اور عوامی فلاحی اسکیموں میں ہندوستان کی کارکردگی اب بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک کی کارکردگی سے کم ہے"۔ مجھے یہ اطلاع دیتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں اصل دھارا میڈیا، ملک کے عوام کو غربت میں کمی کے بعض پیمانوں میں ہندوستانی کی ترقی کے گراف سے واقف کرانے کی اپنی ذمہ داری سے گریز کررہا ہے۔ اب یہ گراف سب سہاراملک کی سطح پر ہے۔ پروفیسر ڈریز، ہندوستان میں غربت کی سطح میں کمی کے متعدد اسٹڈی میدانوں میں سرگرم طورپر شریک رہے ہیں"۔ انہوں نے کہاکہ اب وقت آچکا ہے عوام کو اس حقیقت سے واقف کرایا جائے کہ "سماج کے مختلف طبقات کے درمیان عدم مساوات جو طبقاتی عدم مساوات، ذات پات کے عدم مساوات اور جنسی عدم مساوات پر مبنی ہے، بڑھ رہی ہے"۔ تاہم انہوں نے کہاکہ ٹاملناڈو، چھتیس گڑھ اور ہماچل پردیش جیسی بعض ریاستوں نے عوامی تقسیم کی اسکیمات کے ذریعہ غربت میں کمی کے میدانوں میں قابل لحاظ ترقی کی ہے۔ انہوں نے رمن سنگھ حکومت کی ستائش کی کہ اس حکومت نے چھتیس گڑھ میں غربت کی سطحوں میں کمی کیلئے خود کو ایک "موثر ترقیاتی ماڈل" بنایا ہے۔ پروفیسر ڈریز نے دعویٰ کیا کہ بعض مشہور کارپوریٹ گروپس "بعض ریاستی حکومتوں کو غلط طریقہ سے یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ اسکولی بچوں کے دوپہر کے کھانے میں انڈے اور میوہ جات جیسی قدرتی تغدیہ بخش متبادل غذاؤں کے بجائے کارپوریٹ گروپس کی تیار کردہ غذائی اشیاء متعارف کی جائیں"۔ انہوں نے کہاکہ "چند برس قبل 29ارکان پارلیمنٹ نے ایک مشہور ملٹی نیشنل بسکٹ مینو فیکچرنگ کمپنی کی کاز کو اٹھایا تھا اور یہ ارکان پارلیمنٹ، دوپہر کے کھانے کی اسکیم کے ذریعہ اس کمپنی کے بسٹکس کو پیش کرنا چاہتے تھے۔ یہ ارکان پارلیمنٹ، بجز بی ایس پی کے تمام قومی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن اس اقدام کو اُس وقت ختم کردیاگیا جب اُس وقت کے وزیر فروغ انسانی وسائل ارجن سنگھ نے اس کی مخالفت کی تھی۔ پروفیسر ڈریز نے الزام لگایا کہ یہ لابی، سیاسی جماعتوں میں ہنوز سرگرم ہے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں