ہندی کے مشہور شاعر کنورنارائن کی ایک کویتا یاد آتی ہے۔
'میں عیسائی مذہب سے نفرت کرنے چلا تو شیکسپئر سامنے آجاتے ہیں۔ میں مسلمانوں سے نفرت کرنے چلا تو غالب سامنے آجاتے ہیں۔۔۔' حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے 30 کروڑ مسلمان ہندوؤں سے نفرت نہیں کرسکتے۔ کیونکہ کبیر سے لے کر کملیشور اور راجندر یادو تک کی یاد آجاتی ہے۔ مگر تازہ انتخابات نے گاندھی جی کی ان دو آنکھوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ غور کریں تو مقابلہ کانگریس اور بھاجپا کے درمیان نہیں ہے بلکہ آرایس ایس نے اس سیدھے مقابلے کو ہندو بنام مسلمان بنادیا ہے۔ اور اسی کا ایک دوسرا رخ ہے جہاں آج آرایس ایس مکمل طورپر کامیاب رہی ہے۔ انتخاب 2014 کو لے کر اخباروں اور میڈیا کے ذریعہ بار بار مسلمانوں کے اتحاد کا ڈھول پیٹا گیا۔ دراصل یہ سازش کا وہ حصہ تھا جسے مسلمان نہیں سمجھ سکے۔ آر ایس ایس کی منشا یہ تھی کہ ہندوؤں کو متحد کیا جاسکے۔ اور آخر وہی ہوا جو آر ایس ایس کے لوگ چاہتے تھے۔ مسلمان تو متحد نہیں ہوسکے لیکن ہندوستان کے تمام ہندو مودی کے نام پر متحد ہوگئے۔
سیاست ایک بار پھر سے وہاں پہنچ گئی ہے جس کا اندازہ نہ تھا۔ آر ایس ایس نے اپنے خاص ایجنٹ مودی سے کہہ رکھا ہے کہ جیسے بھی ہو، مسلمانوں پر قبضہ کرو۔۔۔ جھوٹ بول کر۔ سبز باغ دکھا کر۔ جھوٹے وعدے کرکے۔ ٹوپی پہننے کی ضرورت ہو تو ٹوپی پہن لو مگر اس بار کا چناؤ جیت کر دکھاؤ۔ مودی یہی کررہے ہیں۔ مسلمانوں کے آگے جھک رہے ہیں۔ وعدہ کررہے ہیں۔ مگر ان کے پارٹنر بار بار بھاجپا اور آر ایس ایس کے خیالوں کو اٹھا کر مودی کے کیے کرائے پر پانی پھیر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو پاکستان بھیجو۔ مسلمانوں کو زمین خریدنے مت دو۔ مسلمانوں کے ٹکڑے کردو۔ مودی جی کی ترقی کا فارمولہ تو محض دکھاوا ہے۔ اب بچے ہیں مسلمان، جو ان کے غنڈوں کا قہر جھیل رہے ہیں۔
سیاست ہمیں وہاں لے آئی ہے جہاں چاروں طرف سے مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں۔ مسلمان نہ ہوا، دھوبی کا گدھا یا سڑک کا کتا ہوگیا۔ پروین توگڑیا اپنی شرانگیز تقریروں سے پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف آگ اگل چکے ہیں۔ گری راج سنکھ ہوں، باپوراؤ کدم ہوں، وجے راج سندھیا ہوں، سیدھے چھری لے کر مسلمانوں پر حملہ بول دیتے ہیں۔ جیسے ان کا بس چلے تو گاجر مولیوں کی طرح مسلمانوں کو کاٹتے چلے جائیں۔ اور بے شرمی کی بات یہ کہ الیکشن کمیشن تک کو، مسلمانوں کے کاٹے مارے جانے کی باتیں ناگوار نہیں گزرتیں۔ وہ تقریروں کے آڈیو ویڈیو ٹیپ تو مانگ لیتے ہیں لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں یا بھاجپائی نظروں سے۔ اس لیے کہ ایک مسلمان وزیر پر پابندی لگانا اور امت شاہ جیسے فرقہ پرست کو آزاد کردینا کہیں نہ کہیں اس سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ الیکن کمیشن بھی فرقہ پرستی کے رنگوں میں ڈوبا ہوا تو نہیں؟
المیہ یہ ہے کہ تیس کروڑ مسلمانوں کو زبان بندی کی نصیحت کی جاتی ہے اور ہر ایرا غیرا لیڈر کتوں کی طرح مسلمانوں کے خلاف آگ اگل کر چلاجاتا ہے۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس نے جان بوجھ کر اس بار کے الیکشن کو ہندو بنام مسلمان بنا دیا ہے۔ اور اس آگ کے شعلے کو ہوا اس طرح دی گئی کہ مودی کے خلاف مسلمان متحد ہوسکتے ہیں تو مودی کے حق میں ہندو متحد کیوں نہیں ہوسکتے؟
آر ایس ایس نے پہلے ہی اپنے لوگوں اور بھاجپائیوں کو اشارہ کردیا کہ اگر بھاجپا 272 کے جادوئی اعدادوشمار کو چھولیتی ہے تو ہر حال میں مودی ہی وزیراعظم بنیں گے۔ آنے والے وقت میں راجناتھ کوئی گیم نہ کرلیں اس لیے بھاجپا کی سرکار کی جگہ مودی کی سرکار کا نعرہ اچھالا گیا۔ آر ایس ایس کو اڈوانی، جوشی، سشما سوراج، یشونت سنہا جیسے لیڈر اس لیے نا پسند ہیں کہ وقت آنے پر یہ لوگ سیکولرزم کی ہوا میں بھی بہہ جاتے ہیں جبکہ مودی کی مسلم ہمدردی محض سیاسی گیم سے زیادہ نہیں، اس سے عام شہری سے لے کر سیاست کا ہر کھلاڑی بھی واقف ہے۔ آر ایس ایس جانتی ہے کہ اس کے مسلم کش منصوبے کو اگر واقعی کوئی عملی جامہ پہنا سکتا ہے تو وہ مودی ہے۔ مودی کی سیاسی سمجھ بوجھ آہستہ آہستہ مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالتی چلی جائے گی۔ اس طرح کہ قتل بھی ہوگا، خون بھی نہیں بہے گا اور پتہ بھی نہیں چلے گا۔۔۔ مودی کا انتظامیہ مسلمانوں کو معاشی اقتصادی سطح پر اتنا کمزور کردے گا کہ مسلمان کہیں زمین خریدنے کے لائق بھی نہیں رہ جائیں گے۔ لیکن آر ایس ایس کے اشاروں پر یہ کام مودی اس طرح کریں گے کہ ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ان کی حمایت کریں اور اس لیے مودی کو اڈوانی جیسے پرانے لوگوں کی جگہ بالکل نئے، اپنے اور وفادار آر ایس ایس چہرے کی ضرورت ہے۔ یعنی مودی کی رہنمائی میں بھاجپا کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ یہ نئی بھاجپا مودی کی بھاجپا ہوگی اور اس میں کام کرنے والے مودی کے سپاہی ہوں گے جو مودی کے اشاروں پر امت شاہ کی طرح جان قربان کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ اور اس لیے گجرات کی نسل کشی کے طرز پر امت شاہ کو وزیر داخلہ بنانے کا خواب بھی دیکھا جارہا ہے۔
مسلمانوں کو سمجھنا چاہئے کہ وہ ایک بے حد سنگین دور سے گزررہے ہیں۔ اور اگر اس بار ان کا ووٹ غلط طور پر تقسیم ہوگیا تو مودی اور ان کے جانشین ہوں گے۔ یہی آر ایس ایس کی دشمن سیاست ہوگی اور وہ حاشیے پر پھینک دیے جائیں گے۔۔۔ اور اس کے لیے آر ایس ایس دنگا فساد کرانے میں ہمیشہ سے ماہر مانی جاتی ہے۔ اور مودی کو آر ایس ایس کے اشارے پر ہی کام کرنا ہے۔
انتخاب خوفناک رخ اختیار کرچکا ہے۔ نشانے پر مسلمان ہیں۔مودی ترقی کے فارمولے کی بات کررہے ہیں اور ان کے چیلے مسلمانوں کو دفن کرنے، پاکستان بھیجنے کی بات کررہے ہیں۔ کیا مسلمان اس تلخ حقیقت کو اب بھی نہیں سمجھیں گے۔
پانچ سال پہلے تک مدرسوں کو آتنک واد کی فیکٹری کہنے والی بھاجپا نے اس بار اپنے منشور میں مدرسوں کو بھی جگہ دی ہے۔ وقف بورڈ اور اردو کا تحفظ بھی منشور کا حصہ ہے اور سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا واقعی بھاجپا مسلمانوں اور اردو کے لیے اتنی ہمدرد ہوگئی ہے؟ اس قصہ کو بھول جائیے کہ بھاجپا کبھی آپ کی بھی ہوسکتی ہے۔۔۔ گجرات میں مسلمانوں کے لہو کا ذائقہ تلاش کرنے والے آنے والے دنوں میں ہمدردی اور مسیحائی کا دم بھریں یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کیونکہ مودی بھی علامت ہوں گے اور راج ناتھ بھی۔ اصل حکومت تو آر ایس ایس کی ہوگی اورآر ایس ایس کے خوفناک مقاصد کو اگر مسلمان آزادی کے 67 برسوں میں نہیں سمجھ سکے تو پھر یہ کہنا فضول ہے کہ بہت دیر ہوجائے گی۔ کیونکہ دیر ہوچکی ہے اور مودی کے بھروسہ آرایس ایس ہندوستان کو ہندوراشٹریہ بنانے کے خواب کو اب حقیقت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
یہ تحریر لکھی جارہی تھی کہ بھارتیہ شیعہ سنگھ کی ایک اپیل نظر سے گزری کہ ہندوستان کے تمام شیعہ متحد ہوکر بھاجپا کو ووٹ دیں۔ میں سکتے کی کیفیت میں ہوں: مسلمانوں کی تقسیم اس طرح بھی ہوسکتی ہے، میں نے خواب وخیال میں بھی نہیں سوچا تھا۔ زندگی کے اتنے ماہ و سال گزرنے کے بعد ادب کی دنیا میں سانس لیتے ہوئے کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکا کہ شیعہ اور سنی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کیا جب فرقہ پرست ہاتھوں میں تلواریں لے کر مسلمانوں کے قتل کے لیے آئیں گے تو کیا وہ یہ دریافت کریں گے کہ کون شیعہ ہے اور کون سنی۔ کیا گجرات میں ہلاک ہونے والے صرف سنی تھے؟
احمد فراز نے کہاتھا :
میرے ضمیر نے قابیل کو نہیں بخشا
میں کیسے صلح کرلوں قتل کرنے والوں سے
۔۔۔ قتل کرنے والوں سے کیسے ہاتھ ملایا جا سکتا ہے۔ ان کی حمایت کیسے کی جاسکتی ہے۔ آج جہاں امریکہ اور برطانیہ کا انٹلکچول طبقہ مودی کی مخالفت کررہا ہے، وہاں بھارتیہ شیعہ سنگھ کا یہ بیان فرقہ پرستوں کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔ میں یہ فرض کر لیتا ہوں کہ خود کو مسلمان کہنے والا کوئی بھی شخص کبھی بھی بھاجپا یا اس طرح کی فرقہ پرست پارٹی کا ساتھ نہیں دے سکتا۔
***
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
D-304 Taj Encalve, Geeta Colony, Delhi-31
Zauqui2005[@]gmail.com
موبائل : 09310532452 , 09958583881
D-304 Taj Encalve, Geeta Colony, Delhi-31
مشرف عالم ذوقی |
Hindu vs. Muslim - BJP's version of Election 2014. Article: Musharraf Alam Zauqi
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں