دوحہ فورم - غالب فہمی کا اٹھارہواں ماہانہ علمی و ادبی اجلاس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-04-13

دوحہ فورم - غالب فہمی کا اٹھارہواں ماہانہ علمی و ادبی اجلاس

Ghalib-Fahmi-organized-by-Guzergah-e-Khayal-Forum
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا

غالبؔ کی نسبت سےمحترم و منفرد، غالبؔ فہمی کے حوالے سے امتیازی حیثیت کی حامل، قطر میں علم و ادب کا بینچ مارک، صاحبانِ علم و فہم کا مرکز،عالمی شہرت یافتہ ادبی تنظیم گزرگاہِ خیال فورم نے گزشتہ چند روز سے خبر گرم کر رکھی تھی کہ ٤ اپریل بروز جمعہ علامہ ابن حجر لائبریری، قطر میں غالبؔ کے پرزے اڑیں گے- یعنی مرزا کی ایک غزل پر ناقدانہ پہلو سے احبابِ گزرگاہِ خیال مشق ناز و ستم فرماویں گے- یہ خبر، زبانی طیور کی، اڑتی اڑتی، قریہ قریہ، طرفداران اور عاشقانِ غالبؔ تک جا پہنچی- اس کی دید کو ایک مجمع اکٹھا ہو گیا، محبانِ غالبؔ، شناس و نا شناس سب گئے، اور تماشا بھی ہوا- اس تماشے کی روداد سنیے-

لاکھ عُقدے دل میں تھے ، لیکن ہر ایک
میری حدِّ وُسع سے باہر کھلا
نجم الدولہ، دبیر الملک، نظام جنگ مرزا اسداللہ خان غالبؔ، اردو زبان کے مایہ ناز ہفت رنگ اور ہفت پہلو شاعر، ایک سنگ میل اور نشان ِرہ کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی شاعری الفاظ اور خیالات کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے جس کی ہیبت دیکھ کرعقل حیران ہو جاتی ہے- مرزا کی زبان آوری اور معجز بیانی کی بدولت زبان ِاردو کی وسعت، پہنچ، قوت اور درخشانی صورت ِمہر ِنیم روز کھل کر سامنے آتی ہے- ان کے کلام میں آفاقیت، جدّت، فلسفہ، حسنِ بیاں، منظر کشی، شوخی، ظرافت، بلاغت، نکتہ آفرینی، گہرائی اور گیرائی، المختصر ہر خوبی موجود ہے- تاہم غالبؔ ایک مشکل پسند شاعر ہے اور اس مشکل پسندی کے با عث غالبؔ فہمی اہلِ علم و دانش کے لیے ہمیشہ ایک ترو تازہ اور مرغوب موضوع رہا ہے-اس عقدۂ مشکل کی مشکل کشائی، بسلسلۂ غالبؔ فہمی گزرگاہِ خیال فورم کا اٹھارواں ماہانہ علمی و ادبی مذاکرہ بعنوان " ہم نامئ چشمِ خوباں " پچھلے جمعہ ، بمقام “علامہ ابن حجر لائبریری، دوحہ، قطر ” پر منعقد ہوا، جس میں قطر کی نامور علمی و ادبی ہستیاں، گلشنِ شعر و سخن کے گلچیں،سخن فہم و سخن گستر اور غالبؔ شناس صاحبان شریک ہوئے اور اپنی علمیت اورفسونِ نطق کو بروئے کار لاتے ہوئے مرزا نوشہ کی غزل
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

کم نہیں نازشِ ہم نامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا

اور مرزا کے اس شعر
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا
پر گفتگو کی - فیضِ معنی کی اس بہار میں سرشار ہونے کے لیے معتقدانِ غالبؔ کی کثیر تعداد نے مذاکرے میں شرکت فرما کر غالبؔ سے اپنی عقیدت اور اردو پروری کی ایک مثال قائم کر دی- قطر کے ادبی منظر نامے کے تمام اہم شعراء اور خواص اس نشست کی رونق بڑھانے کو موجود تھے-

گزر گاہِ خیال فورم کے جنرل سکرٹیری، شاعرِبے بدل، معصوم چہرہ، اردو کے استاد، جناب فرتاشؔ سید، جن کو حضرتِ جون ایلیا سے تلمذی کا شرف حاصل ہے، نے کرسیِ صدارت کی رونق بڑھائی- باکمال شاعر اور اردو کے استاد، آئینہ سیما جناب قیصرؔ مسعود نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت فرمائی- عربی اور فارسی کے عالم، ابن حجر لائبریری کے منتظم اعلی، فصیح و خوش بیان جناب شیخ عبد الغفار نے مسندِ مہمان اعزازی پر جلوہ افروز ہو کر محفل کو وقار بخشا-

اجلاس کا آغاز جناب شیخ عبد الغفار نے قرآن حکیم کی آیاتِ مبارکہ کی تلاوت سے کیا- گزر گاہِ خیال فورم کے بانی صدر جناب ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ نے نظامت کے فرائض ادا کیے - حسبِ روایت ، اردو انڈیا سوسائٹی کے بانی و صدر، شاعر خلیج جناب جلیلؔ احمد نظامی نے اپنے ساحرانہ ترنم میں غالبؔ کے دیوان میں مرقوم انکی غزل 'درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا' حاضرین کی خدمت میں شعر بہ شعر تشریح کے لیے پیش کی- حاضرین نے ایک ایک شعر پر داد دی اور جناب جلیلؔ نظامی کے خاص لب و لہجے، ادائیگیِ الفاظ، اور اہتمام کو خوب سراہا- سچ تو یہ ہے کہ ان کا ترنم ایسا ہے کہ اس کی داد تو وہ مرزا نوشہ سے بھی حاصل کر لیتے-

اس مذاکرے میں جناب ظفر صدیقی، جناب جلیلؔ نظامی، جناب عتیق انظر، جناب مرزا اطہر بیگ، جناب فرتاش سید، جناب عبد الغفار، جناب پروفیسر نذیر، جناب طاہرؔ گلشن آبادی، جناب سلیمان دہلوی، ڈاکٹر عطا الرحمن صدیقی، جناب شادؔ اکولوی، جناب فیضان ہاشمی، جناب طاہر جمیل، جناب علی عمران، جناب مظفر نایاب، جناب قیصر مسعود، ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ، جناب افروزؔ عالم، جناب سیّد عبدالحئی، جناب رویسؔ ممتاز، جناب عبد المجید، اور جناب سجاد حسین جعفری نے حصہ لیتے ہوئے سب اشعار کے معنی و مطالیب پر سیر حاصل بحث کی اوراس غزل کے اشعار میں غالبؔ کے بیان کردہ مخفی اور ظاہری پہلوؤں کو حاضرین کے سامنے پیش کیا ، غالبؔ جدّت، حسنِ بیاں اور ترکیب سازی کے شاہ تھے- اس غزل میں غالبؔ نے اپنی جودتِ طبع کے تحت جو تراکیب استعمال کی ہیں ان پر اظہارِ خیال کیا گیا- غالب ؔکے کلام کی روانی، رنگینی، تہہ داری اور دقیقہ سنجی کے پہلوؤں پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی-

مرزا کے شعر
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
کے نئے معنی سامنے آئے جو معروف شرحوں میں موجود نہیں- اس شعر کے ظاہری معنی تو یہ ہیں کہ اگرچہ عبادت اور بندگی میں آزادی کام نہیں آتی مگر ہم اس معاملے میں بھی ایسے آزاد و خوددارواقع ہوئے ہیں کہ اگر کعبہ کا دروازہ ہمارے لیے کھلا نہ ہوا تو ہم واپس پلٹ جائیں گے- یعنی اگر استقبال نہ ہوا تو ہماری تذلیل ہے- مرزا عوام الناس کے ساتھ مشترکِ حال ہونے کو نہایت مکروہ سمجھتے تھے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ان کے شعر کا مفہوم اتنا سیدھا اور معمولی ہو- احبابِ گزرگاہِ خیال میں سے اکثر نے اس عام تشریح سے اختلاف کیا اور جناب جلیلؔ نظامی نے نکتہ بیان کیا کہ دریں چہ شک یہ شعر خودداری کا سبق دیتا ہے، لیکن یہاں کعبہ سے مراد 'خانہ کعبہ' نہیں- بلکہ یہ شعر مرزا کی ذاتی زندگی کے ایک واقعہ سے متعلق ہے- وہ کیا قصہ ہے مولانا محمد حسین آزادؔ کی زبان سے سنیے-

1842 میں گورنمنٹ انگلشیہ کو دہلی کالج کا انتظام از سرِ نو منظور ہوا۔ ٹامسن صاحب جو کئی سال تک اضلاعِ شمال و مغرب کے لفٹنٹ گورنر بھی رہے، اس وقت سکریٹری تھے، وہ مدرسین کے امتحان کے لئے دلی آئے اور چاہا کہ جس طرح سو روپیہ مہینہ کا ایک مدرس عربی ہے ایسا ہی ایک فارسی کا بھی ہو، لوگوں نے چند کاملوں کے نام بتائے، ان میں مرزا کا نام بھی آیا، مرزا صاحب حسب الطلب تشریف لائے، صاحب کو اطلاع ہوئی مگر یہ پالکی سے اتر کر اس انتظار میں ٹھہرے کہ حسبِ دستور قدیم صاحب سکریٹری استقبال کو تشریف لائیں گے، جب کہ نہ وہ ادھر سے نہ یہ ادھر سے گئے، دیر ہوئی تو صاحب سکریٹری نے جمعدار سے پوچھا، وہ پھر باہر آیا کہ آپ کیوں نہیں چلتے، انھوں نے کہا کہ صاحب استقبال کو تشریف نہیں لائے میں کیونکر جاتا، جمعدار نے جا کر پھر عرض کی، صاحب باہر آئے اور کہا جب آپ دربار گورنری میں بہ حیثیت ریاست تشریف لائیں گے تو آپ کی وہ تعظیم ہو گی لیکن اس وقت آپ نوکری کے لئے آئے ہیں، اس تعظیم کے مستحق نہیں، مرزا صاحب نے فرمایا کہ گورنمنٹ کی ملازمت باعثِ زیادتی اعزاز سمجھتا ہوں، نہ یہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی گنوا بیٹھوں، صاحب نے فرمایا کہ ہم آئین سے مجبور ہیں۔ مرزا صاحب رخصت ہو کر چلے آئے۔ "

اس شعر کا ایک مفہوم یہ بھی سامنے آیا کہ چونکہ ہم بندگی میں کامل و پختہ نہ تھے اس لیے کعبہ کا در ہم پر نہ کھلا، لیکن پہلے مصرع میں 'خود بیں ' کا استعمال اس معنی کی نفی کرتا بلکہ منہ چڑاتا نظر آتا ہے-

ہم جسے دیکھنا چاہیں وہ نظر آ نہ سکے
ہائے ان آنکھوں پہ کیوں تہمت بینائی ہے

جناب طاہرؔ گلشن آبادی نے غالبؔ کی زمین میں لکھی اپنی غزل کا متضاد معنی کا حامل ایک شعر پیش کیا-
ہم نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی غالبؔ کی طرح
سر کو پھوڑیں گے درِکعبہ اگر وا نہ ہوا

جناب افروزؔ عالم نے فی البدیہہ یہ جدت افروز شعر کہا
دروازہ کھلا پا کے وہ لوٹے نہیں اب تک
ایسی بھی انا کیا کہ گوارا نہیں دستک

مرزا کے اگلے شعر
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
پر خوب بحث ہوئی اور اس شعر کی اساس لفظ 'یکتائی' کو بتایا گیا- شعر کی بندش اور دوسرے مصرع میں غالبؔ کی پرزور دلیل کی بے بہا تعریف ہوئی- جناب افروز ؔعالم میں موجود شاعر نے پھر کروٹ لی اور موصوف نے یہ شعر کہہ کر 'آئینہ سیما' کے معانی کو مزید واضح کر دیا
وہ مد مقابل تو کبھی آتا نہیں میرے
جس کو میرے ماتھے میں شکل اپنی نظر آئے

جناب افروزؔ عالم نے خوب داد بٹوری-عشقِ مجازی کے باب میں جناب نظامی نے احمد فرازؔ کا یہ مشہور شعر بر محل پیش کیا
مجھ کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
اگلے شعر
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں مرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا
پر گفتگو کے دوران کئی اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی- جناب عبد الغفار نے 'فتنہ' کے معانی ایک سوئے ہوئے شر کے بتائے- یعنی 'فتنہ' موجود تو ہوتا ہے لیکن اس کا شر صرف اس کو جگانے پر ہی ظاہر ہوتا ہے اور نقصان کا سبب بنتا ہے- اسی لیے کہا گیا ہے کہ 'الفتنة أشد من القتل' اور 'الفتنة نائمة لَعَنَ الله مَن أيقظها'- جناب فیضان ہاشمی نے اس شعر کا اطلاق غالبؔ کی شاعری پر کرتے ہوئے کہا کہ غالبؔ کے کلام میں 'فتنہ' جو 'فتنہ' کے معانی نہیں رکھتا، آج تک کلامِ غالب کی تہہ داری کو پانے اور اس کی گرہ کشائی کے لیے خواص کا مرغوب مشغلہ بنا ہوا ہے- جناب جلیلؔ نظامی نے ماحول کی سنجیدگی کو کم کرنے کی سعی میں یہ پوچھ کر کہ 'فاتن حمامہ' (1950 کی دہائی کی ایک مصری اداکارہ) کون ہے، محفل کو کِشتِ زعفران بنا دیا-

لیجیے مکتبہ کے معاون جناب ایوب گرم گرم عربی قہوہ لیے آ پہنچے- قہوہ اور غزل کا آخری شعر پیش ہیں، پیجئے اور سنیے- قہوہ کی داد جناب ایوب کو، اور شعر کی داد مرزا نوشہ کو دیجیے-
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
سنتے ہی انڈو قطر اردو مرکز کے بانی و صدر جناب سلیمان دہلوی نے یہ کہتے ہوئے کہ میں سخن فہم ہوں یا نہیں ، نہیں جانتا، پر غالبؔ کا طرفدار ضرور ہوں،گلزارؔ دہلوی کا شعر بے ساختہ پڑھ دیا-
میں اکذرے میں تصویر دو عالم دیکھ لیتا ہوں
مجھے کیا دیکھتے ہو میرا معیار نظر دیکھو

غالبؔ کے طرفدار آخر کیوں نہ ہوں ، غالبؔ کے محلہ دار جو ہیں ، بلکہ دلی میں جس گھر میں رہتے ہیں وہ غالبؔ کے عزیز دوست منشی صدر الدین آزردہ کا 1857 سے پہلے عدالت ہوا کرتا تھا-

'دیدۂ بینا' کی خوب تشریح ہو گئی تو ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ نے محفل کے بوجھل پن میں یہ سنا کر کمی کر دی کہ ایک افسانہ نگار اپنی کہانی لے کر ایک ادبی رسالے کے ایڈیٹر کے دفتر پہنچے اورکہانی رسالے میں چھپوانے کی گزارش کی- ایڈیٹر صاحب نے کہانی کو شروع سے لیکر آخر تک پڑھا اور خوب تعریف کی- لیکن پھر گویا ہوئے کہ "میں اس کہانی کو اپنے رسالے میں چھاپ نہیں سکتا"- افسانہ نگار نے عرض کیا کہ آپ نے تو ابھی کہانی کو پسند فرمایا تو پھر چھاپنے سے انکار کیوں- ایڈیٹر صاحب نے کہا "دیکھیے صاحب، آپ کی کہانی کا عنوان ہے 'دیدۂ بینا'، ہم آپ تو پڑھے لکھے ادبی لوگ ہیں، ہم تو جانتے ہیں کہ 'دیدۂ بینا' کا مطلب 'بینا کی آنکھ' ہے، ہمارے کم پڑھے لکھے قارئین شاید اس کا کوئی اور مطلب سمجھ بیٹھیں-"

یوں غزل تمام ہوئی اور باری آئی مرزا کے اس اکیلے شعر کی
اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا
جس نے حاضرینِ محفل کو ناکوں چنے چبوا دیے- اس شعر کی تشریح میں دانتوں کو پسینہ آ گیا- فرتاشؔ سید، جلیل ؔنظامی، شادؔ اکولوی، قیصر مسعود، عتیق انظرؔ اور دیگر احباب اس بات پر متفق ہو گئے کہ یہ شعر الفاظ کا گورکھ دھندا ہے- بات فقط اتنی سی ہے کہ بے سرو سامانی انتہا کو پہنچ گئی کہ گدائے عشق کے پاس پیٹھ کھجانے کا آلہ تک نہیں اور وحشت کا بیان ہے کہ آہو بھی ایسے آشنا ہو گئے جیسے عاشق اسی ماحول کا باسی ہو-

ادھر تشریحی اجلاس ختم ہوا، ادھر ناظم مذاکرہ ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ نے نکتہ سنج، فن میں پختہ شاعر جناب مظفر نایابؔ کو آواز دی- جناب مظفر نایابؔ شعر یوں پڑھتے ہیں کہ مزہ آ جاتا ہے- جنابِ نایابؔ کی ایک نایاب اور قابل ستائش کوشش ہوتی ہے کہ وہ گزرگاہِ خیال فورم کے مذاکرے میں غالبؔ کی زیر بحث غزل کی تضمین پیش کرتے ہیں- بسا اوقات ایسے مضامین باندھتے ہیں کہ سخن فہم شعر سنتے ہیں تو بیتاب ہو جاتے ہیں- انہوں نے حسبِ دستور غالبؔ کی اس غزل کے ہر مصرع پر تضمین پیش کی - شرکاء محفل نے ان کی اس کاوش کو بے ساختہ واہ واہ سے نوازا -یہ ستائش و توصیف ان کا حق اور سامعین کی انصاف پروری تھی- چند شعر آپ بھی سنیے اور داد دیجیے-

ہم کہ کمزور یقیں اور دلِ مشکوک لیے
"اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا"

طاقتِ دیدِ تجلی سے ہیں سب ہی معذور
"روبرو کوئی بتِ آئنہ سیما نہ ہوا"

فخر ہے فیضِ شفا خانہٴ طیبہ پہ مجھے
"تیرا بیمار برا کیا گر اچھّا نہ ہوا"

دشتِ شاداب کی صورت جو زمیں پر ابھرا
"خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا"

دیکھ دنیا کی نگاہوں سے ہے مخفی اب تک
"کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا"

جب چلا ذکر شہادت کا تری محفل میں
"حمزہ کا قصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا"

یہ پڑھ چکے تو باری آئی قطر میں نوجوان اور جوان شعراء کے سالار، گزرگاہِ خیال فورم کے نائب صدر جناب افتخار راغبؔ کی- لیکن انھیں تو ہم نے 'گم کیا ہوا پایا'- کیا ہوا؟ آج آپ محفل میں تشریف نہیں رکھتے ، کوئی مصروفیت؟غزل تو لکھی ہو گی- بالکل لکھی ہے اور حسبِ سابق غالبؔ کی اس زیرِ بحث غزل کے ہر مصرعے پر مزاحیہ مصرعے لگاکر خوب لکھی ہے- لیکن بھیج نہیں پائے- تاخیر سے بوقت برخاست یوں آ پہنچے کہ 'وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے'- چند شعر ملاحظہ ہوں-

ہم نے دیکھا نہ سنا جب کسی شاعر کا کلام
”پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا“

ہر ملاقات پہ کرتا ہے ادا پورا فیس
“تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا”

اُن کو شوہر میں نظر آگئی کوئی خوبی
“کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہٴ بینا نہ ہوا ؟”

خوش قسمتی سے حیدر آباد سے تشریف لائے شیریں سخن سخنور جناب طاہرؔ گلشن آبادی محفل میں موجود ہیں اور غالبؔ کی زمین میں ایک 'بھاری بھرکم' غزل لکھ کر لائے ہیں- کیا شعر نکالے ہیں- آپ بھی سنیے اور میری سخن فہمی اور جناب گلشن آبادی کی سخن سنجی کی داد دیجیے-

دلِ خوددار پہ احسانِ مسیحا نہ ہوا
زخم اندر تھے، اثر کوئی دوا کا نہ ہوا

ہم نہ آئیں گے پلٹ کر کبھی غالبؔ کی طرح
سر کو پھوڑیں گے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

میری صورت ہے مرے رب تری وحدت کا ثبوت
اس جہاں میں کوئی مجھ سا ہے، نہ ہوگا، نہ ہوا

دعوتِ حق کے لیے ہوتے گرفتار کبھی
ہائے کس جرم میں غالبؔ کو یہ جرمانہ ہوا

لوگ اشعار سنیں شہرِخموشاں بن کر
کون کہتا ہے کہ محفل میں تماشہ نہ ہوا

میرے حالات تھے احباب کا موضوعِ سخن
خمِ گیسو کا ترے شکر ہے چرچا نہ ہوا

سرِمژگاں جو ٹھہرتا تو گہر ہوجاتا
ہے مقدر میں مری، اشک کا قطرہ نہ ہوا

کیوں نہ سمجھیں اسے احسانِ گزرگاہِ خیال
فہمِ غالبؔ سے ہر اِک ذہن کا یارانہ ہوا

غزل آپ نے دیکھ لی- کوئی شعر ایسا نہیں جس کی تعریف کرنے بھی ذرا سا بھی تامل ہو- سو ہر شعر پر تعریف ہوئی - حاضرین کی تفنن طبع کے واسطے آخری شعر کے لطیف پہلو پر اردو انڈیا سوسائٹی کے نائب صدر جناب عتیق انظرؔ نے کہا کہ 'یارانہ' کو 'یارا' 'نہ' بھی پڑھا جا سکتا ہے-

روایتی رنگ کا مطلع، دوسرے شعر میں غالبؔ کے 'درِکعبہ' سے کشید کر کے اچھوتا مضمون، تیسرے شعر میں خدا کی وحدت کے ثبوت میں ہر انسان کی انفرادی تخلیق کا بیان کہ اکبر الہ آبادی کا شعر یاد آگیا -
مری ہستی ہی خود شاہدِ ثبوتِ ذاتِ باری ہے
دلیل ایسی ہے یہ جوعمر بھر رد ہو نہیں سکتی

ایک شعر میں غالبؔ کی گرفتاری کے واقعہ کا عمدگی سے ذکر کر دیا- آخری شعر میں گزرگاہ ِخیال فورم کی غالبؔ فہمی کے حوالے سے شعر بطور سوغات پیش کیا جو احبابِ گزرگاہِ خیال کو جی سے پسند آیا- پسند کیوں نہ آتا، دلنشیں خوش لہجے میں نفاست سے سچی اور کھری بات جو شاعر نے کہی تھی-

محفل واہ واہ اور سبحان الله کے کلمات سے گونج رہی تھی کہ ناظم مذاکرہ ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ نے پروگرام کو سمیٹتے ہوئے اسٹیج کا رخ کیا اور تقریب کے مہمانِ اعزازی جناب عبد الغفار، مہمانِ خصوصی جناب قیصرؔ مسعود اور صدرِ محفل جناب فرتاشؔ سید سے باری باری تقریب پر تبصرہ کرنے کی گزارش کی- مہمانان اور صاحبِ صدارت نے گزرگاہِ خیال فورم کے بانی صدر ڈاکٹر فیصل حنیف خیالؔ کی نادر کوشش کو سراہتے ہوئے غالبؔ فہمی کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے ان اجلاسوں سے حاضرین کو زبان و کلام کے سلسلہ میں ہونے والے فوائد پر روشنی ڈالی- اور حاضرین کو بتلایا کہ غالبؔ فہمی کے حوالے سے یہ نشتیں اسقدر منفرد ہیں کہ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، یہاں تک کہ ہندوستان اور پاکستان میں بھی ایسی کوئی نشست اس باقاعد گی سے منعقد نہیں ہوتی-

نشست کے اختتام پر گزرگاہِ خیال فورم کےسینئر نائب صدر جناب شاد ؔاکولوی نے صدرِ اجلاس، مہمانِ خصوصی، مہمانِ اعزازی اور تمام حاضرین کی تشریف آوری کا اپنے مخصوص شیریں انداز اور مخملی دہن سے بھرپور شکریہ ادا کیا-
گزرگاہِ خیال فورم کی غالبؔ فہمی کی نشست کے بعد مکتبہ کے دالان میں ضمنی بے تکلف نشست میں جناب سلیمان دہلوی اور دیگر احباب کی تیز حسِ مزاح، شوخی اور بذلہ سنجی غالب ؔفہمی کی نشست کی مشکل پسندی کے بعد نویدِ امن ثابت ہوئی-
رات آدھی ہو چکی تھی اور نیند سب کی آنکھوں سے جھانکتی دکھائی دیتی تھی- غالبؔ ہو کہ محبوب ہو، ہجر ہو کہ وصال ، نیند سب پر غالب ؔہے- لسان العصر اکبر الہ آبادی نے یونہی نہیں کہا تھا کہ
ہجر ہو یا وصال ہو اکبرؔ
جاگنا ساری رات مشکل ہے

باغِ معنی کی بہار سےمخمور، مرزا کو داد اور گزرگاہِ خیال فورم کو دعائیں دیتے سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیے-
کیوں نہ سمجھیں اسے احسانِ گزرگاہِ خیال
فہمِ غالبؔ سے ہر اِک ذہن کا یارانہ ہوا

روداد مذاکرہ : ڈاکٹر فیصل حنیف خیال

Guzargah-e-Khayal Forum's Ghalib Fehmi 18th seminar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں