العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب سمیت کئی دوسرے ملکوں میں اخوان المسلمون سے ہمدردی رکھنے والے افراد کھلے عام اس علامت کا استعمال کرتے رہے ہیں۔
سعودی عرب میں مختلف جامعات کے طلباء، اساتذہ، سماجی کارکن، مختلف مذہبی جماعتوں کے ارکان اور عام شہری بھی اخوان المسلمون سے ہمدردی جتاتے ہوئے "رابعہ" کا نشان استعمال کرتے تھے لیکن اب ان کے سوشل اکاؤنٹس سے یہ علامت تیزی سے غائب ہوتی جا رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب میں اخوان المسلمون کے حامی اور مخالف افراد کے درمیان ایک دوسرے پر سخت تنقید بھی کی جاتی رہی ہے تاہم ریاض کی جانب سے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیے جانے کے بعد اخوانی کارکن اب پس منظر میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں اور دفاعی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔
سعودی ناقدین کی جانب سے پہلے اخوان المسلمون کو مصر میں افراتفری پھیلانے اور فوجیوں کو قتل کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سعودی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر اخوان کے حامیوں اور مخالفین میں ایک نئی بحث بھی چل رہی ہے۔ "رابعہ" کی علامت کا استعمال ترک کرنے والے شہریوں کو شرمندگی اور خوف کا سامنا ہے۔ ایک ٹیوٹر اکاؤنٹ پر سعودی عرب کے ایک شہری نے ایک اخوانی کارکن سے یہی استفسار کیا کہ اگر آپ لوگوں کا موقف درست ہے تو"رابعہ" کی علامت آپ نے کیوں حذف کی ہے۔ کیا یہ شرمندگی کی علامت ہے یا خوف کی؟۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں جہاں سماجی رابطے کی ویب سائٹس کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے وہاں دہشت گرد قراردی گئی کسی تنظیم کے ساتھ کھلےعام اظہار یکجہتی خود کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ مصر میں جب اخوان پر پابندی لگی تھی تب وہاں بھی سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر"رابعہ" کی علامت ختم ہونا شروع ہوگئی تھی۔
Muslim brotherhood symbol "rabiah" is fast diminishing from Saudi social media
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں