جمہوری نظام میں ووٹ کی اہمیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-24

جمہوری نظام میں ووٹ کی اہمیت

#IndianDemocracy #Election2014
importance-of-voting-in-democratic-system
جمہوری نظام میں حق راے دہی کی بڑی اہمیت ہوتی ہےاورایک ایک فرد کا ووٹ فیصلہ کن حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔جمہوری نظام کو اس اعتبارسے ایک نعمت سے تعبیر کیاگیاہے کہ اس میں عوام کوبلاخوف اپنے پسندکے نمائندوںکومنتخب کرنے کا اختیارحاصل ہوتا ہے۔اقتدارکی زمام کس شخص کے ہاتھوںمیں تھمائی جائے اورکون ملک اور عوام کیلئے بہترثابت ہوسکتا ہےاس بات کا فیصلہ عوام اپنے ووٹوںکے ذریعہ کرتے ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ عوام نے اپنے ووٹوںکے ذریعہ نہ صرف سیاہ وسفید کے فرق کومٹانے میں اہم کرداراداکیاہے بلکہ ظلم وستم کی تاریکی میں سپیدۂ سحرکااعلان بھی کیاہے۔
آپ کا ایک ووٹ کس طرح ملک و قوم کی قسمت بدل کررکھ دیتاہے اس کی ایک بڑی مثال ہندوستان کی قومی زبان کولے کرپیداہونے والا اختلاف اورپھراس کے فیصلہ کا طریقہ ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے کہ اردوہندوستان کی سب سے مقبول ترین اورشیریں زبان تھی ۔سڑک سے لے کرایوان تک اورغریب کی جھونپڑی سے لے کر نوابوں اورمہاراجاؤںکے محلات تک اگر کسی زبان کی گونج تھی وہ اردوزبان تھی ۔ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈ ت جواہرلال نہرونے خط وکتابت کے علاوہ اپنی شادی کا کارڈ بھی اردوزبان میں شائع کیا تھااورآج بھی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اردوکے دلدادہ ہیں لیکن جب آزادی کے بعداس بات پر اختلاف پیداہوگیا کہ ہندوستان کی قومی زبان کیا ہوگی اردویاہندی ؟اتفاق اس بات پرہوا کہ ووٹ کے ذریعہ اس کا فیصلہ ہوگا اورپھرصرف ایک ووٹ نے ہندی کے حق میں فیصلہ کردیا ۔صدرمجلس ڈاکٹرراجندپرسادخود مدرسہ کے تعلیم یافتہ اور اردوداں تھے لیکن حالات کے زیر اثران کا ووٹ اردوکے حق میں نہیں گیا۔یہ اسی ایک ووٹ کا کرشمہ ہے کہ آج سب سے مقبول اورشیریں زبان ہونے کے باوجوداردوکواپنی بقاکی جنگ لڑنی پڑرہی ہے۔1996ء میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت صرف 16/دن ہی قائم رہ سکی اور پروفیسر سیف الدین سوزکےمحض ایک ووٹ سے گرگئی تھی ۔جمہوریت میں حقیقت اورفسانہ کے درمیان صرف ایک ووٹ کے فیصلہ کن کردارنبھانے کی متعددمثالیں ہیں جس کی تفصیل کا ذکرطوالت کا متقاضی ہے ۔
ووٹ ایک قیمتی امانت ہےجس کے ذریعہ آپ اپنا اوراپنے ملک کا مستقبل تابناک بناسکتے ہیں اورچاہیں تو تاریک بھی کرسکتے ہیں ۔ہندوستان کا آئین عوام کواس بات کا پورا اختیاردیتا ہے کہ اپنے اوپرکس کومسلط کرنا چاہئے ایک محب وطن اورسیکولرانسان کویا پھرفرقہ پرست اورملک دشمن شخص کو۔بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ انسان وقتی مفاد اورتھوڑے لالچ میں پھنس کرغلط امیدوارکے حق میں ووٹ دیدیتا ہے جس کا خمیازہ بعدالیکشن اسے اس طرح بھگتنا پڑتا ہے کہ اس کاحلقہ ترقیاتی کاموںاوربنیادی سہولتوںسے محروم رہ جاتا ہے۔عوامی نمائندوںکے پاس یاتولوگ اپنی ضروریات کو لے کرجاتے ہی نہیں ہیں یاپھراگرکوئی جاتا ہے تو عوامی نمائندے یہ کہہ کر اس کی اوقات بتادیتے ہیں کہ آپ نے مجھے ووٹ دیانہیں ہے میں نے خریدا ہے ۔یہ بڑی کم نصیبی کی بات ہے کہ برصغیرمیں زیادہ ترعوام اپنے ووٹ کی اہمیت سے ناواقف ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اندرووٹنگ کے تئیں دلچسپی بہت ہی کم ہے۔کچھ لوگ توووٹ دینے کو ایک بیکارعمل سمجھتےہیں اورکچھ افرادوہ ہیں جویہ سوچ کر ووٹ دینے پولنگ مرکز پر چلے جاتے ہیں کہ مہرلگانا ہےکسی کے نام پر لگادیں گے ایک میرے ووٹ سے کیا ہوناجانا ہے۔یہ دونوںفکر جمہوری نظام کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔اگرمسلم کمیونٹی کی بات کریں تویہاں معاملہ کچھ زیادہ ہی مایوس کن ہے حالاںکہ ہندوستان کے تقریباً162/لوک سبھا حلقوںمیں مسلم رائے دہندگان فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں لیکن پارلیمنٹ یااسمبلیوںمیں مسلم نمائندوںکی تعدادپر ایک نظرڈالیں توافسوسناک حدتک مایوسی ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ مسلم امیدوارمضبوط نہیں ہوتے اورعوام پر ان کی گرفت مضبوط نہیں ہوتی بلکہ مسلم ووٹربھی اپنے حق رائے دہی کے استعمال میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔
ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کے وزیراعلیٰ کے عہدہ پر جب ایک دلت خاتون فائزہوئی تھیں تو بہتوںکے منہ کھلے کےکھلے رہ گئے تھے ۔بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں تاریخ ساز اکثریت حاصل کرتے ہوئے بلا شرکت غیر حکومت بنائی تھی۔ماویاتی کی اس تاریخ ساز جیت میں اس کی مضبوط پالیسی کے علاوہ سب سےبڑا رول دلت کمیونٹی کا تھا جس نے دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوںلائن میں کھڑے ہوکراپنے رہ نما کے حق میں ووٹ دیا۔اس وقت میں مبارک پورکے ایک مشہور ادارہ میں زیرتعلیم تھا اورجب شام کوقصبہ گیا تودیکھا درجنوںکی تعدادمیں دلت ودیگرطبقہ کے لوگ لائن میںکھڑے ووٹنگ کیلئے اپنی باری کا انتظارکررہے ہیں اوردرجنوںمردوخواتین ووٹ دینے کے بعداپنے گھروںکولوٹ رہے ہیں جبکہ مسلمان کچھ توہوٹلوںمیں گپ شپ کرتے نظرآئے اورکچھ اپنے گھروںمیں آرام کی نیندسوتےرہے۔
اب تک میں یہ سمجھنے سے قاصرہوںکہ ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی اکثریت اپنے نمائندوںکومنتخب کرنے میں دلچسپی کیوںنہیں رکھتی۔میری نظرمیں اس کے دواسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ انہیں ہندوستانی جمہوریت پریقین نہیں رہ گیا ہےیاپھر وہ ووٹنگ کو ایک بیکارعمل سمجھتے ہیں۔اوردونوںباتیںمایوس کن اورغلط سوچ کی پیدوارہیں۔یہ صحیح ہے کہ آز ادی کے بعدسے اب تک مسلمانوںکے ساتھ انصاف اورحقوق کے نام پر جوکچھ ہوتا آیاہے وہ افسوسناک ہے لیکن جب آپ کوغلط کومستردکرنے اورصحیح کو منتخب کرنے کا اختیاردیاگیا ہے توپھرآپ مضبوط پیش قدمی کرنے کے بجائے قسمت کے بھروسے سب کچھ کیسے چھوڑسکتے ہیں۔ووٹ میں بہت بڑی طاقت ہے اس سے انکارنہیں کرسکتے ہیں جس کے ذریعہ حکومت کا تختہ پلٹا جاتاہے ،ہواکا رخ موڑاجاتاہے اورقوم وملک کی تقدیرلکھی جاتی ہے۔ماویاتی جیسی ایک دلت خاتون اترپردیش کی وزیراعلیٰ بن سکتی ہے توپھرایک مسلمان وہاں کا وزیراعلیٰ کیوںکرنہیں بن سکتا ہے مگر شرط صرف اتنی ہے کہ مسلمانوں کومتحد ہوکر سیاسی شعور کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ماویاتی کی سیاسی قیادت دلتوںکے اندریہ بیداری لانے میں کامیاب رہی کہ اگراپنے حقوق کی بازیافت کرنا ہے توسیاسی طورپرمضبوط ہونا لازمی ہے ۔یہی اسی بیداری کانتیجہ تھاکہ دلتوںنے مایاوتی کے حق میں ایک پالیسی کے تحت ووٹنگ کی تھی ۔لیکن مسلمانوںکے پاس نہ تو مخلص اورمضبوط گرفت والا کوئی سیاسی قائدہے اورنہ ہی اب تک ان کے اندرسیاسی شعورپیداہوا ہے۔نتیجتاً پارلیمنٹ سے لے کراسمبلیوں تک وہ اپنے نمائندوںسے محروم ہوتے جارہے ہیں۔یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جب آپ کا کوئی نمائندہ ہوگا ہی نہیں تو پھرآپ کے حق میں آواز کون اٹھائے گا۔آزادی کے 65/سال گزرنے کے بعدبھی مسلمانوںکو اتنی چھوٹی سی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔
ماضی کی طرح اس بارمسلم اکثریتی حلقوں میں مسلمانوںکے ووٹ کوبے معنی کرنے کیلئے ایک سےزیادہ مسلم امیدوارکھڑےکردئے گئے ہیں یہ ان طاقتوںکی ایک گہری سازش ہےجوسیاسی طورپرمسلمانوںکوبے دست وپاکردیناچاہتی ہیں۔اسلئے مسلمانوںکواپنے حق رائے دیہی کا استعمال کرتے وقت بڑی دوراندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کہیں ایسانہ ہوکہ قوم ومسلک کے نام پرووٹ دینے کے بعداپنی حیثیت ہی نہ رہے اورتیسری طاقت کامیاب ہوجائے۔
عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے،پورے ملک میں انتخابی سرگرمیاں شباب پرہیں۔سیکولروغیرسیکولرسبھی پارٹیاں میدان میں ہیں اورسبھی عوام وملک کےحقوق کی بات کررہی ہیں سب سے بڑھ کربات تویہ ہے کہ بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی اوراس کے وزیراعظم کے عہدہ کے امیدوارنریندرمودی بھی مسلمانوںکے حق کی بات کررہے ہیں۔2014ء کے عام انتخابات اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ اس بارمیدان میں فرقہ پرست اورسیکولرپارٹیوں کے درمیان براہ راست مقابلہ ہے اوراس میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوگا ۔ا س لئے مسلم سیاسی قائدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ مسلم ووٹوںکومنتشرہونے سے بچاکرجمہوریت کے استحکام اورایک سیکولرحکومت کے قیام کیلئے جدوجہد کریں۔

***
rahbarmisbahi[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رضا رہبر

The importance of voting in democratic system. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں