60 کشمیری طلباء کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-07

60 کشمیری طلباء کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس

میرٹھ/سرینگر۔
(پی ٹی آئی)
اترپردیش پولیس نے حال ہی میں ایک کرکٹ میاچ کے دوران ہندوستان کے حلاف پاکستان کی کامیابی پر خوشیاں منانے پر میرٹھ میں زیر تعلیم تقریباً 60 کشمیری طلباء پر غداری کا مقدمہ دائر کیا۔ لیکن رات دیر گئے اس سے دستبرداری اختیار کرلی۔ ایف آئی آر میں غداری کے الزامات عائد کرنے کی پولیس کی کارروائی پر وادی کشمیر میں شدید برہمی کااظہار کیاگیا۔ چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداﷲ نے اس کارروائی کو غیر ضروری اور ناقابل قبول سخت سزا قرار دیا اور کہاکہ اس سے ان طلباء کا مستقبل تباہ ہوجائے گا اور وہ مزید احساس بیگانگی کا شکار ہوجائیں گے۔ انہوں نے حکومت اترپردیش سے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ عمر عبداﷲ نے اترپردیش کے چیف منسٹر اکھلیش یادو سے با چیت کی جنہوں نے احساس ظاہر کیا کہ ایسی کارروائی ان طلباء کے خلاف غیر ضروی تھی۔ آج رات دیر گئے اترپردیش کے پرنسپل سکریٹری داخلہ نونیت سہگل نے کہاکہ غداری کے الزام سے دستبرداری اختیار کی گئی ہے۔ میرٹھ ضلع کے عہدیداروں نے سوامی ویویکا نندا سبھارتی یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء کی مجسٹریٹ کے ذریعہ تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر منظور احمد نے کہاکہ کشمیری پروفیسر کی نگرانی میں ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے اور اس رپورٹ کی بنیاد پر ان کی معطلی کی منسوخی کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ قبل ازیں سوامی وویکا نندا سوبھارتی یونیوسٹی کے 60 سے زائد طلبہ کو گذشتہ اتوار کو ایشیا کپ کرکٹ ٹورنمنٹ میں ہندوستان اور پاکستان کے میچ کے بعد مبینہ طورپر پاکستان کی جیت کا جشن منانے، پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے، دیگر طلبہ سے بحث کرنے اور ہاسٹل کی املاک کو نقصان پہنچانے پر معطل کردیاگیا تھا۔ سینئر پولیس عہدیدار اومکار سنگھ نے بتایاکہ سوامی وویکا نندا سوبھارتی یونیورسٹی کے رجسٹرار پی گرگ کے خط پر تعزیرات ہند کی دفعہ124A(بغاوت)، 153A(مذہب کی بنیاد پر تعصب کو فروغ دینا) اور 427(شرپسندی) کے الزامات کے تحت نامعلوم طالب علموں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کہاکہ حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہی مزید کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ طلباء کی معطلی میں انتظامکہ اور پولیس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر محفوظ احمد نے بتایاکہ ہم نے اس واقعہ کے دن خط لکھ کر اترپردیش حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو پورے معاملے سمیت طالب علموں کو معطل کرنے کی بھی اطلاع دی تھی اور اسی خط کو بنیاد بناکر پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔ عمر عبداﷲ نے ٹوئٹر پر اپنے پیام میں کہاکہ مجھے یقین ہے کہ صورتحال کو کنٹرول میں کرنے کیلئے یونیورسٹی نے جو ضروری سمجھا، اس نے وہ کیا لیکن یوپی حکومت کی یہ کارروائی ناپسندیدہ ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہئے۔ عمر عبداﷲ نے ٹوئٹر پر یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے اترپردیش کے چیف منسٹر اکھلیش یادو سے بات کرکے غداری کا مقدمہ خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ معاملے کا جائزہ لیں گے۔ خیال رہے کہ یونیورسٹی کے 60 سے زائد کشمیری طالب علموں کو معطل کئے جانے کے بعد ریاستی حکومت نے کل پورے معاملے کی عدالتی تحقیقات بھی شروع کردی تھی۔ میرٹھ کے ضلع مجسٹریٹ پنکج یادو نے بتایا تھا کہ معاملے کی تحقیقات اڈیشنل مجسٹریٹ کو سونپی گئی ہے جو 15 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔ کشمیر سے موصولہ ایک اطلاع کے مطابق باندی پورہ کے بلال احمد کا جو اس یونیورسٹی میں بی ٹیک کا طالب علم ہے کہنا ہے سب لوگ باہر ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔ آخری اووروں کے دوران جب ہوسٹل وارڈن نے ہندو طلبہ کی شرارتوں کا مشاہدہ کیاتو انہوں نے ٹی وی بند کرنا چاہا، لیکن طلبہ نے ٹی وی پر ہی قبضہ جمالیا۔ بعد میں انہوں نے کشمیریوں پر کرسیاں پھینکی، گالیاں دیں اور ہمیں پاکستانی دہشت گردی کہا لیکن ہمارے سینئرز ہمیں ضبط سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔ بلال کا کہنا ہے کہ ہندو طلبہ رات بھر ہوسٹل پر پتھراؤ کرتے رہے اور دوسرے روز عہدیداروں نے 60سے زیادہ کشمیری طلبہ کو 3دن کیلئے یونیورسٹی سے معطل کئے جانے کا نوٹس دے دیا۔

Indian government withdraws sedition charges against Kashmiri students

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں