ان کا جرم - جرم نہیں؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-31

ان کا جرم - جرم نہیں؟

malhotra-masood-varun
کون کہتا ہے کہ ہندوستان ہمارا نہیں ہے؟
بلاشبہ ہندوستان ہمارا بھی ہے۔لیکن اس کے سوا یہاں ہمارا کچھ نہیں ہے۔یہاں قانون ایک ہے مگر اس کے نفاذ کے دو طریقے ہیں۔جب قصور ہمار اہو تو قانون فوراً حرکت میں آتا ہے۔اور جب وہی قصور دوسرے کا ہو تو قانون کے ساتھ ساتھ اس کے رکھوالے بھی اندھے ہوجاتے ہیں۔ہمیں تو بے قصور بھی پکڑ لیا جاتا ہے اور دہشت گرد ثابت کردیا جاتا ہے۔برسوں کی قید ومشقت کے بعد باعزت بری ہونے والے درجنوں نوجوان اس کا سب سے بڑا ثبوت ہیں۔سہارنپور کا ایک جوشیلا سیاسی بنجاراجب وزارت عظمی کے ایک امیدوارکے بارے میں یہ کہتا ہے کہ
"اگر اس نے یوپی کو گجرات بنانے کی کوشش کی تو اس کے ہاتھ کاٹ دوں گا"
تو قانون ،قانون کے رکھوالے،انصاف کے مندروں کے محافظ اوریہی نہیں انصاف اور قانون کو جوتوں تلے روندتے رہنے والے،سب کے سب اس کے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں اور عدالت اسے 14 دن کیلئے جیل بھیج دیتی ہے۔اور جب اس سے بھی بہت پہلے اور الیکشن کے ہی دوران مینکا گاندھی کا سپوت ورون گاندھی کھلے عام ایک خاص فرقہ کے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور آنکھیں پھوڑنے کی دھمکی دیتا ہے تو نہ قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ قانون کے رکھوالے۔
ورون گاندھی کو تواتنے دنوں کے لئے جیل جانا ہی نہیں پڑا۔حالانکہ اس وقت کی وزیر اعلی مایا وتی نے اس کے خلاف نیشنل سیکیورٹی ایکٹ(NSA ) لگادیا تھا۔عدالت نے این ایس اے کو کالعدم قرار دیدیا۔اس کے بعد مقدمہ چلا۔اور کیا ہوا؟ایک اسٹنگ آپریشن کے مطابق کھلی عدالت میں جج صاحب کے سامنے گواہوں کو دھمکیاں دی گئیں۔جو کمزور تھے وہ ٹوٹ گئے اور جو نہ ٹوٹ سکے انہیں توڑ دیا گیا۔انہیں عدالت میں آنے ہی نہیں دیاگیا۔اور مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور ان کی آنکھیں پھوڑنے کی کھلے عام دھمکیاں دینے والا "باعزت" چھوٹ گیا۔ یوپی کی (اکھلیش یادو)حکومت نے اس کے خلاف اپیل بھی نہیں کی۔خود مسلمان جج کے سامنے سرکاری وکیل ہی جب گواہوں کو توڑنے اور انہیں جیل بھیجنے کی دھمکیاں دیتا ہوتوحکومت کی بد نیتی صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔اب یہ کون پوچھے عدالتوں سے اور مسلمانوں کی ہمدردسیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین سے کہ اگر اتنی کھلی دھمکیاں دینے اور ماحول کو بگاڑنے کے باوجود،ورون گاندھی کا کچھ نہیں بگڑا تو ایک مبہم اور مشروط اور بہت ہلکی دھمکی دینے کی پاداش میں ایک مسلمان امیدوارکو ایک ہی جھٹکے میں 14دن کیلئے کیوں جیل میں ڈال دیا گیا؟یہاں ایک نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ اس جوشیلے امیدوار نے جو بات نہیں کہی تھی اس کا جرم بھی اس کے سرپر عائد کردیا گیا۔یوپی پولس نے اس پر ایس سی ایس ٹی ایکٹ بھی لگادیا۔یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے اسے ضمانت نہیں ملی۔جو ویڈیونشر کی گئی ہے اس میں کہیں بھی اس نے ایس سی یا ایس ٹی یا دوسرے کمزور طبقات کے خلاف کچھ بھی نہیں کہا ہے لیکن اس کے باوجود اکھلیش حکومت نے سیاسی انتقام لینے کی خاطر یہ ایکٹ بھی لگادیا۔واہ کیا طرز حکمرانی ہے؟اس وقت مجھے مولانا ارشد مدنی کی یاد آتی ہے۔معلوم نہیں وہ کہاں ہیں؟
اگر مسلمان اور ان کے قائدین ایسے مواقع پر متحد ہوکر آواز اٹھائیں تو ان واقعات میں کمی آسکتی ہے۔لیکن ہمارے قائدین صرف اپنا موقع دیکھ کر بولتے ہیں۔جب انہیں کچھ بولنے سے فائدہ حاصل ہوتا ہے تو وہ ضرور بولتے ہیں۔ہم نہ عمران مسعود کے طرز تخاطب کی حمایت کر سکتے ہیں اور نہ اکبرالدین اویسی کی تقریروں کی۔لیکن توگڑیا اور ورون گاندھی کی زہریلی زبان اور اشتعال انگیز تقریروں کو اس ملک کا قانون کیوں برداشت کرلیتا ہے؟کیا ہمیںیہ سوال کرنے کا بھی حق نہیں ہے؟ عمران مسعود اور اکبرالدین اویسی کو توآپ فوراً گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیں اور ضمانت بھی نہ ہونے دیں جبکہ ورون گاندھی کو ہاتھ لگانا تو بہت دور اس پر سے اتنی اہم اور خطرناک دفعات والا مقدمہ بھی ختم کردیں اور اسے باعزت بری کردیں۔توگڑیا کے خلاف تو شکایت تک درج نہیں کی گئی ہے۔آندھراپردیش کا سابق وزیر اعلی مسلم نوجوانوں یہاں تک کہ علما کو پکڑ پکڑ کر اندر کرتا رہا اور کانگریس صدر سونیا گاندھی اسے برداشت کرتی رہیں۔راجستھان کا سابق وزیر اعلی مسلم نوجوانوں کو پکڑتا رہامگر اسے کچھ نہیں کہا گیا اور سونیا گاندھی کی اسے مکمل سرپرستی حاصل رہی۔مہاراشٹر بھی اس عمل میں پیچھے نہیں رہا۔اور دہلی کا تو کہنا ہی کیا۔ہمارے وزرا داخلہ کا حال بھی عجیب ہے۔شاید وزیراعظم ایسے ہی شخص کو وزیر داخلہ بناتا ہے کہ جس کو ایجنسیاں پسند کرتی ہیں۔سابق وزیر داخلہ شوراج پاٹل نے پولس کمشنر کے دفتر میں بیٹھ کربٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی نگرانی خود کی تھی۔اس کے بعد دوسرے وزیر داخلہ پی چدمبرم نے تو حد ہی کردی تھی۔اس وقت کے ڈپٹی چیرمین راجیہ سبھا کے رحمان خان کے گھر پر چند مسلم قائدین کے سامنے انہوں نے کہا تھا کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر چند مسلمان ہی شور مچارہے ہیں ۔یعنی ان کا خیال تھا کہ جو مسلم نوجوان گرفتار کئے جارہے ہیں وہ خود مسلمانوں کی نظر میں بھی دہشت گر دہی ہیں۔اس پر یہ ہمارے نام نہاد قائدین اپنا سا منہ لے کر آگئے۔جو باضمیر تھے وہ ضروربولے لیکن نقار خانہ میں طوطی کی صدا؟اب جو وزیر داخلہ ہیں ان کا حال تو یہ ہے کہ ایک نیک شریف اور باعمل مولاناعبدالقوی کی گرفتاری کی خبر ساری دنیا میں گونج رہی ہے اور وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ "اچھا،مجھے تو پتہ ہی نہیں۔"
علما خاندان کے مسلم قائدین کو وزیر داخلہ کی اس بے خبری پر کوئی غصہ نہیں آیا۔کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔کیا ایسے بے خبر انسان کو اتنے عظیم ملک کا وزیر داخلہ بنایا جانا چاہئے؟اور کیا سونیا جی اب بھی آپ ایسے بے خبر وزیر داخلہ کی خبر نہیں لیں گی؟راہل گاندھی جب چاہتے ہیں کوئی بھی بل پھاڑ دیتے ہیں اور دو منٹ پہلے تک اس بل کے حق میں پریس کانفرنسیں کرنے والے کانگریسی لیڈر اس بل کے خلاف بولنے لگ جاتے ہیں لیکن راہل گاندھی کو مسلم نوجوانوں کی حالت زار پر ایجنسیوں کے خلاف کوئی غصہ نہیں آتا۔اوکھلا کی مسلم بستیوں پر کب سے عتاب آیا ہوا ہے۔لیکن مسلمانوں کے ایک وکیل کپل سبل کو اب اچانک خیال آیا ہے۔انہوں نے پچھلے دنوں پولس کے ذریعہ اٹھائے جانے والے دو مسلم نوجوانوں کے تعلق سے پریس کانفرنس کرڈالی۔فرماتے ہیں کہ یہ قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ آپ یہ بات کس سے کہہ رہے ہیں؟کیا مرکز میں نریندر مودی کی سرکارہے؟
تازہ واقعہ تو انتہائی تشویش ناک ہے۔بی جے پی کے لیڈر وجے کمار ملہوترا نے بکواس کی ہے کہ جامعہ نگر اور بٹلہ ہاؤس دہشت گردوں کے محفوظ اڈے بنے ہوئے ہیں۔کمال ہے کہ اوکھلا اور خاص طورپریہ دونوں علاقے مسلم تنظیموں کی منڈیاں ہیں اور اس کے باوجودنہ علما کا کوئی گروہ اس کے خلاف سامنے آیا اور نہ مسلم جماعتوں نے کسی مظاہرہ کا اہتمام کیا۔المیہ یہ ہے کہ اس بیان کے خلاف دہلی کی اس سابق وزیر اعلی کا بیٹا بول رہا ہے جس نے بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی عدالتی انکوائری کے مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ اس سے پولس کا مورال ڈاؤن ہوگا۔کانگریس کو ہمارے خون کی ،ہمارے نوجوانوں کی اورہمارے باعمل علما کی کوئی فکر نہیں ہے لیکن اس پولس کے مورال کی فکر ہے جس کے دامن پر بے گناہوں کا خون بکھراپڑا ہے۔

***
بشکریہ:
INS INDIA (Urdu News Service)
Ph: 011-26982149,32438991,26985684

***
موبائل : 9810041211
Editor-in-chief VNI & Media Adviser to President IICC, New Delhi
ایم ودود ساجد

The double standard of crimes. Article: M. Wadood Sajid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں