Obama-Saudi king talks may ease friction but no breakthrough seen
سعودی عرب کے قائدین کو امید ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما اور ان کے حکمراں شاہ عبداﷲ نے بات چیت کے بعد ایک دوسرے کے نظریات کو اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے اور مشرق وسطی کی پالیسی کے مسئلہ پر کئی مہینوں سے جاری تعطل کے بعد دونوں سربراہان مملکت کی بات چیت سے علاقائی سکیورٹی محاذ مستحکم ہوگا۔ جمعہ کے دن شاہ عبداﷲ کے صحرائی کیمپ میں صدر امریکہ کے ساتھ دو گھنٹے بات چیت کے بعد کوئی مشترکہ بیان یا پالیسی تبدیلی کا کوئی اعلان نہیں ہوا جس کے بد بعض سعودیوں کے ذہنوں میں سوال اٹھ رہے ہیں کہ آیا شام کے ساتھ جنگ یا ایران کے نیوکلیر پروگرام پر اختلاف رائے قریب الختم ہے مگر سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک حقیقت ہے کہ اوباما نے نہ صرف سعودی عرب کا دورہ کیا بلکہ مسائل پر کھلے دل سے تبادلہ خیال کیا۔ امریکی عہدیدار کے مطابق صدر امریکہ کے دورہ کے بعد شاہ عبداﷲ کو علی اعلان ناراضگی ظاہر نہیں کرنی چاہئے اور اس تاثر کوغلط قرار دینا چاہئے کہ فریقین باہمی اتحاد کو کم اہمیت دیتے ہیں۔ سعودی وزارت داخلہ سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک سکیورٹی تجزیہ نگار مصطفی الانی نے کہاکہ یہ جائزہ لینا قبل ازوقت ہوگا کہ آیا یہ اجلاس کامیاب رہا اور اس تعلق سے جائزہ اس وقت اہمیت کا حامل ہوگا جب شام کے تعلق سے امریکی پالیسی فوری طورپر تبدیل ہوگی۔ امریکہ کے سابق سفیر برائے سعودی عرب رابرٹ جارڈن نے کہاکہ عام طورپر اس طرح کی ملاقات ٹھوس بنیادوں پر کارروائی کا موجب بنتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ فریقین ایک دوسرے سے بات چیت اور تیقنات تک محدود رہے ہیں۔ سعودی ذرائع نے کہاکہ اس خصوص میں حساس انداز میں کارروائی کی توقع کم ہے اور مملکت کے حکمراں نے اوباما پر سے اعتماد کھودیا ہے کیونکہ صدر امریکہ نے اسد کے خلاف فوجی کارروائی سے گریزکیا۔ الانی نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ اوباما اپنے وعدوں پر کس تیزی کے ساتھ عمل کریں گے۔ موجودہ صورتحال میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔




کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں