UAPA قانون کے خلاف 5 مارچ کو دہلی میں عوامی کانفرنس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-04

UAPA قانون کے خلاف 5 مارچ کو دہلی میں عوامی کانفرنس

conference-against-UAPA-law
نئی دہلی انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں منعقد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے People's Movement Against UAPA کے چیئرمین مولانا محمد ولی رحمانی نے کہا کہ اس تحریک کی جانب یو اے پی اے جیسے کالے قانون کے تعلق سے گزشتہ دو ماہ سے ملک بھر میں عوامی بیداری مہم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اخباری کانفرنس میں اعلان کیا کہ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر 5مارچ، 2014 چہارشنبہ کو دوپہر 2بجے،بمقام تلکٹورا انڈور اسٹیڈیم ، نئی دہلی میں UAPAکے خلاف عوامی کانفرنس کے عنوان کے تحت ایک عظیم الشان عوامی اجلاس انعقاد کیا جارہا ہے۔ اس عوامی کانفرنس میں سیاسی پارٹیوں کے کئی ممتاز لیڈران، انسانی حقوق تنظیموں کے معروف کارکنان اور کمیونٹی لیڈروں نے اس عوامی اجلاس میں شرکت کرنے اور اس اہم موضوع پر خطاب کرنے کا وعدہ کیا ہے، ان کے علاوہ UAPAمتاثرین کی نمائندگی کرنے والے گروپ، متاثرین کے رشتہ دار، اور مختلف ریاستوں کے وفود بھی اس عوامی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اس پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک کے نائب صدر ای ابوبکر نے کہا کہ غیر قانونی سرگرمیوں ( انسداد ) ایکٹ ، UAPAمیں کئے گئے ترامیم اور نفاذ کی وجہ سے بھارتی آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق کی ضمانت پر ایک نہایت سنگین دھچکا لگا ہے۔ ملک میں یو اے پی اے قانون کے تحت مسلم ، سکھ، دلت، اور قبائیلی طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں نوجوان جیلوں میں مقید ہیں۔ TADAاورPOTAجیسے سابق جابرانہ قوانین کی غلط استعمال کے خلاف جب عوام نے شدید مخالفت کی تو ان قوانین کو واپس لے لیا گیا تھا، اس ضمن میں مذکورہ قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے ملک بھر کے ا نسانی حقوق تنظیموں کے کارکنان اور دانشوران نے بھی پرزور مطالبہ کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں کانگریس حکومت نے TADA قانون کو منسوخ کرنے کی اجازت دی تھی ۔ اسی طرح یو پی اے حکومت نے اپنے عام انتخابات سے پہلے کئے گئے اپنے انتخابی وعدے پر عمل کرتے ہوئے POTAقانون کو واپس لے لیاتھا۔بدقسمتی سے سن 2008اور2012میں UAPAمیں کئے گئے اہم ترامیم کئے جانے کی وجہ سے اس قانون کو منسوخ کرنے کے مطالبہ اور کوششوں میں میں ناکامی ہوئی ہے، اور آج سب سے زیادہ خطرناک قانون ہمارے سامنے عام طور پر سیکوریٹی کے خصوصی قوانین کے شق کے بغیر موجود ہے اور اس کالے قانون کا بے دریغ استعمال کیاجارہا ہے۔ درا صل UAPA قانون میں ترامیم کا مقصددہشت گردی سے مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ قانون جائز احتجاجات اور جمہوری طور پر مزاحمت اور جدوجہد کرنے والے افراد کے خلاف نشانہ بنا کر استعمال کیا جارہا ہے۔قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے جب اس قانون کے نفاذ کی عمل شروع کی تو یہ ان ایجنسیوں کی اقربا پروری، نسل پرستی، مذہبی تعصب وغیرہ کی عکاسی نمایاں طور پر عوام کے سامنے آگئی۔ اس قانون کے تحت گرفتار کئے گئے اور جیل میں مقید افراد میں زیادہ تر غریب مسلمان، سکھ،دلت اور قبائیلی طبقے اور صنعتی ملازم بھی شامل ہیں۔
مندرجہ ذیل عوامل کے مطابق مذکورہ UAPA قانون غیر معمولی اور عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے، اور ہمارے آئین کی شناخت جیسے قدرتی انصاف، قانون کے سامنے مساوات، تقریر اور اظہار رائے کی آزادی اور تنظیم قائم کرنے کے حق کا چھین لیتا ہے۔

* مو جودہ قوانین میں توسیع کرتے ہوئے عدم تشدد پر مبنی وسیع سیاسی سر گرمیاں جیسے مزدور وں کا احتجاج اور دیگر جمہوری احتجاجوں کو مذکورہ یواے پی اے قانون دہشت گردی کے زمرے میں شمار کرتا ہے۔
* حکومتوں کو حاصل موجودہ اختیارات کو مزید تقویت دیکر عدالتی نظر ثانی کے لیے محدود شواہد اور محدود حقوق دیکرایک تنظیم پر پابندی عائد کرنے کا اختیار اور پابندی عائد کئے گئے تنظیم کے رکنیت حاصل کرنے پر بھی کسی فرد کو مجرم قرار دیتا ہے۔
* عدالت کے وارنٹ کے بغیر تلاشی کی اجازت ، کچھ تحفظات اور وسیع اختیارات کے ساتھ ضبط اورگرفتار کرنے کی اجازت، اور عدالت کے حکم کے بغیر تیسرے فریق سے زبردستی معلومات حاصل کرنے کا اختیار فراہم کیا گیا ہے۔
* ترمیم شدہ یو اے پی اے قانون کے تحت چارج شیٹ داخل کئے بغیر ہی 180 دنوں تک بغیر کسی مقدمے کے گرفتار کرکے رکھا جا سکتا ہے۔اور 30دنوں تک پولیس کی حراست میں رکھنے کی اجازت بھی شامل ہے ۔ جس سے گرفتار شدہ فرد کو ضمانت حاصل کرنے کے موقع بھی حاصل نہیں ہوگا۔
* ریاستی اور مرکزی سطح پر خصوصی عدالتوں کی قیام کی اجازت ، خفیہ گواہوں کو استعمال کرنے کی اجازت اور بند جگہ میں کیمرے کا استعمال کرکے مقدمہ کی سماعت کرنے کی اجازت حاصل ہوگی۔
* کوئی واضح دفعات یا لازمی جائزہ شیڈول مقرر نہیں کیا گیا ہے ، جس سے اس قانون کے تحت گرفتار کئے گئے فرد کو اس قانون کے غلط استعمال سے بچنے اور محفوظ رہنے کے امکانات حاصل ہوسکتی ہوں۔
* ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پرنہیں ہوگی ، بلکہ الزام لگائے گئے فرد کو ہی اس کے بے گناہی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ جب تک UAPAقانون کو منسوخ نہیں کیا جاتا جیلوں میں مقید معصوم لوگوں کی افسوسناک حالات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ جبکہ لوک سبھا انتخابات بہت قریب ہے۔ ایسے مرحلے میں ہر کسی کو اس غیر قانونی قانون کی منسوخی کا مطالبہ کرنے کے لیے آگے آنا چاہئے۔ اس ضمن میں ایک جائز مقصد کے تحت گزشتہ 23جنوری 2014کو نئی دہلی میں منعقد ایک اجلاس میں کچھ فکر مند شہریوں کی ایک نمائندہ گروپ نے ملکر PEOPLE'S MOVEMENT AGAINST UAPAنامی ایک ملک گیرتحریک کا آغاز کیا تھا۔ اس تحریک کے پہلے مرحلے کے مہم کے دوران تحریک کے نمائندوں نے کئی ریاستوں کا دورہ کیا ، اس دورے میں تحریک کے وفد نے کیرلا، کرناٹک، تمل ناڈو، آندھر اپردیش، مہاراشٹرا، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار، پنجاب، راجستھان، وغیرہ ریاستوں میں کئی اہم شخصیتوں سے ملاقات کیا، جس میں ریاست کے گورنرس، وزیراعلی، اعلی بیوروکریٹس، انسانی حقوق کے کارکنان، سیاسی رہنماؤں، ماہرین قانون، کمیونٹی لیڈران، میڈیا اور پولیس حکام سے ملاقاتیں کیں۔ ملک گیر سطح پر پوسٹ کارڈ مہم کا بھی انعقاد کیا گیا، اس مہم میں مذکورہ UAPAقانون کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہوئے 2لاکھ سے زائد پوسٹ کارڈ یو پی اے کی چیئر پرسن کے نام روانہ کیا گیا۔ اسی طرح 21فروری 2014کو ملک کے تقریبا 335شہروں اور قصبوں میں ایک عوامی پروگرام منعقد کیا گیا جس میں عوام کی کثیر تعداد نے موم بتی اور ٹارچ ہاتھ میں لیکر Night Vigilنامی پروگرام میں حصہ لیا۔تحریک کے چیئرمین مولانا محمد ولی رحمانی ، ای ابو بکر نائب چیئر مین ، کمال فاروقی کنوینر، محمد شفیع نائب کنوینر نے عوام سے اپیل کیا ہے کہ وہ اس عوامی کانفرنس میں کثیر تعداد میں شرکت کریں اور اپنے جذبہ انسانیت کا ثبوت دیں اس پریس کانفرنس میں سکھ یوتھ فورم صدر ہرمیندر سنگھ بھی شریک رہے۔

public conference in New Delhi on March 5 against UAPA law

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں