(یو این آئی)
پاکستان، ہندوستان کو بالآخر آئندہ تین دنوں میں انتہائی پسندیدہ ملک (ایم ایف این) کا موقف عطا کرے گا جو "قابل لحاظ تجارتی رعایتوں کے حصول" کا تابع ہوگا۔ اس کے ساتھ پاکستان، واگھا سرحد کو 24گھنٹے کھلا رکھ سکتا ہے اور ٹرکوں سے کارگو، کنٹینرس کو منتقل کرسکتا ہے۔ توقع ہے کہ ان فیصلوں کا اعلان، آئندہ جمعہ کو پاکستانی کابینہ کے خصوصی اجلاس کے بعد کیا جائے گا۔ پاکستانی روزنامہ ڈان نے وزارت تجارت کے باخبر ذرائع کے حوالہ سے یہ بات بتائی۔ پاکستانی وزیر فینانس ڈاکٹر اسحاق ڈار، ہندوستان سے( ملے) پیشکشوں کے بارے میں کابینہ کو واقف کروائیں گے تاکہ ہندوستان کو ایم ایف این موقف دینے کی منظوری کیلئے راہ ہموار ہوجائے۔ کابینہ کے اعلا ن سے قبل وزارت تجارت نے (بعض گوشوں سے) تنقید کا رد کرنے کیلئے غیر رسمی مہم شروع کردی ہے۔ اس وزارت نے 9فوائد گنوائے ہیں جن میں پارچہ جات (ایک بلین ڈالر)، سمنٹ(300بلین ڈالر)، کیمیائی اشیاء(200ملین ڈالر)، زرعی اشیاء(300ملین ڈالر) معدنی اشیاء(100ملین ڈالر)، جیسی بعض اشیاء کی برآمد ہونے سے فوائد شامل ہیں۔ کابینہ کا فیصلہ اس اعتبار سے مشروط ہوگا کہ پاکستان واگھا سرحد کے راستہ ہندوستان سے تمام اشیاء کی درآمد کی اجازت دے گا اور بیک جنبش قلم 1209 اشیاء کی منفی فہرست کو ختم کردے گا۔ ڈان کے نامہ نگار مبارک زیب خان نے مذکورہ ذریعہ کے حوالہ سے یہ بات بتائی۔ بحالت موجودہ واگھا سرحدی راستہ ہندوستان سے صرف 137 اشیاء قابل درآمد ہیں۔ ہندوستان نے پاکستان کے اعلان کے بعد 6ماہ کی مدت کے لئے اپنی ڈیوٹیز کو 7.5فیصد تک گھٹانے کا مبینہ پیشکش کیا ہے۔ مذکورہ ڈیوٹیز کو ایک سال کی مدت میں 5فیصد تک گھٹادیا جائے گا۔ ہندوستان، نان ٹیرف رکاوٹوں(این ٹی پیز) اور کسٹمز ڈیوٹیز کو برخواست کرنے آمادہ نہیں ہے۔ ہندوستان، حساس اشیاء کی اپنی فہرست کو ایم ایف این فیصلہ کے اعلان کے فوری بعد 100آئٹمس تک گھٹادے گا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان 5سال کی مدت میں مذکورہ فیصلہ کا مثبت انداز میں جواب دے گا۔ گذشتہ جنوری کے اوائل میں پاکستان کے وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے ہندوستان کو ایم ایف این موقف دینے کا پیشکش کیا تھا۔ (اس موقف کے دینے میں کافی تاخیر ہوئی ہے۔) ایم ایف این موقف دئیے جانے سے کم ڈیوٹیز پر 250تا300 اشیاء کی درآمد میں سہولت ہوگی۔ خان نے تجارت میں رعایتوں کو باہمی مذاکرات کے دوبارہ آغاز سے مربوط نہیں کیا ہے۔ یہ مذاکرات جنوری 2013ء سے معطل ہیں۔
MFN status to India shouldn't be delayed: FPCCI
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں