کون کس سے برسر پیکار ہے - اروند کجریوال یا میڈیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-03-17

کون کس سے برسر پیکار ہے - اروند کجریوال یا میڈیا

عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال نے میڈیا پر الزام عائد کیا ہے کہ یہ بھاری رقوم کے عوض بِک چکا ہے اورصرف بی جے پی کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوارنریندر مودی کو آگے بڑھانے میں سرگرمِ عمل ہے ۔مزیدکیجریوال نے میڈیا کو دھمکی دی ہے کہ اگر اُن کی پارٹی دو ہزار چودہ کے لوک سبھا انتخابات میں برسرِ اِقتدار آجائے گی تو تفصیلی تحقیقات کرائی جائیں گی اور’’میڈیا والوں‘‘ کو جیل بھیج دیا جائے گا۔ناگپور دورے کے دوران چندہ فراہمی کے لیے بلائے گیے ایک عشائیے میں کی گئی اِن کی تقریر کے کچھ حصوں کو ایک مشہور میڈیا چینیل نے بظاہر’’آپ‘‘ کی اِجازت کے بغیر رکارڈ کرتا نظر آیا، کیوں کہ بڑی خراب حالت میں اِس ویڈیو کو چینل پردکھایا گیا، جس میں الفاظ بھی ٹھیک طرح سے سنائی نہیں دے رہے تھے۔ بعد میں کیجریوال نے بہ ظاہر اِس بیان کا انکار کرتے ہوئے ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں صرف اِتنا کہا کہ’’ میں آپ کا مخالف کیسے ہوسکتاہوں۔‘‘اِس ویڈیومیں،جس کی صداقت کی توثیق ابھی ین ڈی ٹی وی نے نہیں کی ہے،اروند کیجریوال کہتے نظر آتے ہیں:’’میڈیا مودی کے بارے میں کبھی سچ نہیں بولتا۔ سارا میڈیا بکا ہوا ہے،یہ ایک بہت بڑی سازش ہے،یہ ایک گہری سیاسی سازش ہے۔اگر ہم حکومت بنائیں گے تو ہم اِس کی تحقیق کروائیں گے ، میڈیا والوں سمیت ، سارے خطاکاروں کو جیل بھیج دیں گے۔‘‘عام آدمی پارٹی کی مرکزی قیادت بھی کیجریوال کی حمایت میں کھڑی ہو گئی ہے اور کہا ہے کہ ’’اروند کیجریوال جی نے کچھ بھی غلط نہیں کہا ہے‘‘۔لیکن حزب مخالف کے رہنما کیجریوال کو کڑی تنقید سے نواز رہے ہیں۔صحافی سے سیاسی لیڈر بننے والے عام آدمی پارٹی رہنما اشوتوش نے اِس بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض مشہور اخبارات ’’خریدی گئی خبروں‘‘ کی اشاعت میں مصروف ہیں۔میڈیا کا ایک حصہ سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔دیگر ایماندار نیوز چینل کو آگے آنا چاہیے اور اِن کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔‘‘
کل ایک خبر قومی اخبارات میں شائع ہوئی ہے، جسے کسی بھی بصری چینل نے نہیں دکھایا۔ ملک کے چند نمایاں صحافیوں نے ہفتہ کے روز، اروند کیجریوال کی میڈیا تنقید کے جواب میں میڈیا کے ردّ عمل پر ہی سوال اُٹھایا ہے۔ ظاہر ہے کچھ حق گو صحافی جب اپنے گریبان میں جھانکنے کی بات کررہے ہوں تو ، اِسے بکے ہوئے میڈیا والے کیوں دکھائیں گے ۔ ایک انگریزی اخبار کے پبلیشر اور کستوری اینڈ سنس لمٹیڈ کے چیرمین جناب ین رام نے کہا ہے کہ’’ ہم اِس خیال کے حامی ہیں کہ میڈیا کو بھی تنقید کے لیے تیار رہنا چاہیے، جو ایک جائزعمل ہے ، جو ابھی تک نہیں ہواہے اور عرصے سے عوام کواِس کا خاموش انتظار رہا ہے۔اروند کیجریوال کی تنقید کی بے جا تشہیر اور ضرورت سے زیادہ ردّ عمل نے ہمیں جیسے ایک تماشہ بنا دیاہے، جسے دیکھ کر لوگ ہم پر ہنس رہے ہیں۔‘‘صحافی ششی کمار کی میڈیا کے موضوع پرلکھی گئی ایک کتاب کے اجراء کے بعد ’’میڈیا کی موجودہ صورتحال ‘‘کے موضوع پر ایک پینل مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے انہوں نے یہ بات کہی۔
این رام کے خیالات سے مماثلت رکھنے والے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مسٹر ششی کمار نے کہا :’’ جب کیجروال میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں،تو وہ اِس کی بنیادوں کا علم رکھتے ہوئے ایساکرتے ہیں، کہ فی زمانہ میڈیا کے بارے میں عوام میں مخاصمت کی فضاء پائی جاتی ہے۔بدقسمتی سے، جب میڈیا کے بیرون سے ہم عوامی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تو، اِس کے جواب میں ہم بلبلا اٹھتے ہیں، اور نرم چمڑی رکھنے کا اعلان کر رہے ہوں اور اِن حملوں کی تاب نہیں لاپاتے۔‘‘
مسٹر رام نے کہا:’’جن گھٹیا تجارتی مقاصد کی نشاندہی کیجروال کر رہے ہیں، وہ میڈیا کے لیے طاعون کا درجہ رکھتا ہے اور اِسے ختم کرتا جار ہا ہے،جو میڈیا میں پائے جانے والے معروف بد قماشانہ رجحانات کے علاوہ ہیں۔‘‘یہ کہتے ہوئے کہ ،’’ اب وقت آگیا ہے کہ جو خرابیاں صحافت میں در آئی ہیں اُن میں جھانک کر دیکھا جائے،نہ کہ صرف میڈیا کی ترقیGrowth کا جشن منایا جائے،مسٹر رام نے تاسف کا اظہارکرتے ہوئے پوچھا کہ، ’’خریدی گئی خبروں‘‘ کی اشاعت کا رجحان ،کیا صرف الکشن کے موسم تک محدود رہتا ہے۔؟
اِسی بات کا اعادہ کرتے ہوئے، کہ کسی سیاق و سباق کا لحاظ کیے بغیر ہر شے میڈیا کے لیے وقتی اورعارضی بن کر رہ گئی ہے’’ ٹیلیگراف‘‘ کے قومی مسائل کے ایڈیٹرایم چٹرجی نے ٹیلی وژن چینلس کے اس رجحان پر سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے کہ، وہ بی جے پی اور کانگریس کے خطاباتِ عام کے بارے میں اُن ہی کی خبروں کی فراہمی کو استعمال کرنے لگے ہیں، بجائے اِس کے کہ وہ خوداپنے نامہ نگاروں کو جائے وقوع پر روانہ کرتے۔مثلاً،اگر ممتا بنرجی ٹی وی چینلس کوحقیقت پر مبنی ایسی خبروں(Feed)کی فراہمی سے گریز کرتیں، تو شاید عوام کو اِس حقیقت کا علم ہی نہ ہوتا کہ اِن کی ریلی میں صرف دو ہزار لوگوں نے ہی شرکت کی تھی۔‘‘ممتا دراصل بتا رہی تھیں کہ کس طرح میڈیا ’’حقیقت‘‘ کی اختراع کرلیتے ہیں اور اِن کو استعمال کرتے ہوئے گفتگو ؤں کی ایک بساط بچھا لیتے ہیں۔مسٹر کمار نے افسوس کے ساتھ کہاکہ صحافت میں ’’غیرجانبداری ‘‘ گویا ایک فضول سی شے بنتی جارہی ہے۔’’ عدم مقصدیت‘‘،ہی میڈیا کاشیوہ بن گیا ہے۔
معروف ماہرِ معاشیات پربھات پٹنائیک نے اِس ساری بحت کو ایک فقرے میں ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ’’ مباحث کی ستم رانی‘‘ ہے۔ پینل مباحثے میں حصہ لینے والوں کی جانب سے میڈیا کی ایک تاریک تصویر پیش کیے جانے کے ساتھ ساتھ سامعین نے اُن کی جانب سے کسی حل کے پیش کئے جانے میں ناکام ہونے پر سوال اُٹھایا اور کہا کہ خود اپنے لیے بنائے گیے میڈیا کے من مانے قوانین ، ظاہر اً، ناکام ہوچکے ہیں۔
یہ ایک المیہ ہے کہ عوام سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا کہ گزشتہ۶۰ سال کے دوران ملک میں کچھ بھی نہیں ہوا۔ گویا پورے ماضی کو منہدم کردیا گیا۔‘‘انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنا لوجی دہلی کے دنیش موہن نے یہ بات کہی اور تعجب کا اِظہار کیا کہ کیوں اخبارات، رسائیل،میڈیا گھروں کی جانب سے پھیلائے جانے والے اِس جھوٹ کو چیلنج نہیں کیاگیا۔؟ کسی حل کی عدم موجودگی کے بارے میں ایک اینکا لوجسٹ کے اٹھائے گیے نکتے پرمسٹر رام نے کہا:’’ اِس کا کوئی حل نہیں ہے، بجز اِس کے کہ کینسر کی بیماری کا علاج جاری رہے۔پیشہ ورانہ طرز عمل اور اقدار و روایات کی ضابطہ بندی کی ضرورت کی آواز اُٹھاتے ہوئے، اُنہوں نے اعتراف کیا کہ بصری میڈیا میں خود میڈیا کے بنائے ہوئے قوانین کام نہیں کر رہے ہیں۔پریس کاؤنسل نہ صرف کیل کانٹوں سے محروم ہے، بلکہ اخباری صنعت کے نمائندوں کے حملوں کا ہدف بھی بنی ہوئی ہے۔’’کچھ ایسا حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو بنیادی طور پر بالکل الگ ہو۔‘‘
معروف صحافیوں کی اِس محفل میں جو باتیں بھی ہوئی ہیں، اِنہیں ملاحظہ کیا جائے ۔یہ میڈیا کی صورتحال پر’’گھر کے بھیدیوں‘‘ کی باتیں ہیں،نہ کہ میڈیا کے مخالفین کی ۔اروند کیجروال کا قصور یہ ہے کہ یہ بیچارہ اب ایک سیاسی آدمی بن گیا ہے اور اِس کی ہر بات کو میڈیا کو خریدنے والی پارٹیاں سیاسی رنگ دینے کواپنا فرض سمجھتی ہیں۔ اور نتیجتاًحقائق کی اہمیت گھٹ کر رہ جاتی ہے اور معاشرے میں موجود مسائل کے مختلف کینسر لاعلاج بن جاتے ہیں۔ ممکن ہے کیجروال کی حق گوئی کو مخالفتوں کا سامنا ہے، لیکن اِس ملک کا اِجتماعی ضمیر اب کیجروال کی نیتوں اور اقدامات کو آہستہ آہستہ تسلیم کرنے لگا ہے۔اِس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک عام سا ، سرکاری افسرعوام کی امیدوں اور آرزوؤں کی تکمیل کی علامت بن گیاہے،جس نے دہلی کی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی کا کامیاب سفر کرکے سب کو حیران کر چکا ہے۔یہ اور بات کہ نمبروں کے کھیل نے اُسے دہلی میں استحکام نہیں بخشا۔لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ وہ عوام کے درد کو سمجھنے والا ایک باکمال رہنما بن گیاہے۔عوام تو اِس کے ساتھ ہیں ہی، لیکن کاش، ہمارا میڈیا بھی ملک کے اِس حقیقی خیر خواہ کا ساتھ دینے کو آگے بڑھتا ۔

***
azeezbelgaumi[@]hotmail.com
موبائل : 9900222551
No. 43/373 First Floor, Bhuvaneshwari Nagar Main Road
Gopalappa layour, M K Ahmed Road, Kempapura Hebbal, Post BANGALORE - 560024
عزیز بلگامی

Kejriwal and media against each other. Article: Azeez Belgaumi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں