30/مارچ نئی دہلی آئی۔اے۔این۔ایس
دہلی میں رائے دہی کیلئے بمشکل 10دن باقی ہیں جبکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا عام آدمی پاٹی (اے اے پی) کی جانب میلان بڑھ رہا ہے۔ اگرچہ کہ کانگریس کھلے عام اس مقابلہ میں شامل ہے۔ تاہم پارٹی قائدین نجی طورپر اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ مسلمانوں کی جانب سے ان کی تائید کو زبردست دھکہ پہنچاہے جو دسمبر اسمبلی انتخابات کے برعکس اب اے اے پی کی تائید کریں گے۔ ایک ممتاز مسلم قائد جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی خواہش کی، آئی اے این ایس کو بتایاکہ اس قسم کے حالات ملک کے دیگر علاقوں میں بھی حقیقی نوعیت اختیار کرسکتے ہیں جس وقت اے اے پی نے 70 کے منجملہ 28 نشستوں پرکامیابی حاصل کرتے ہوئے اقلیتی حکومت تشکیل دی تھی، اے اے پی قائد اروند کجریوال نے برسر عام یہ بتایا تھا کہ انہیں مسلمانوں کی توقیع کے مطابق تائید حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کانگریس کی محصلہ 8 نشستوں میں 4نشستیں ان حلقوں کی تھیں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ اے اے پی اور مسلم قائدین نے آئی اے این ایس کو بتایاکہ صورتحال اب بنیادی طورپر تبدیل ہورہی ہے۔ اے اے پی قائد عرفان اﷲ خان نے بتایا کہ اسمبلی انتخابات میں دہلی کے تمام مسلمانوں کے صرف 15تا20فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے توقع ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں ان میں زبردست اضافہ ہوکر کم ازکم 80فیصد ووٹ حاصل ہوں گے۔ کانگریس کے ایک جانے پہنچانے مسلم چہرے نے بتایاکہ یہ بات مبالغہ آمیز نہیں ہوسکتی ہے۔ اس کا کچھ حد تک سبب کجریوال کا جارحانہ انداز اور اے اے پی کی جانب سے بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی پر اختیار کرد موقف ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ہمیں مسلمانوں کی جو تائید حاصل تھی اسے دھکہ پہنچا ہے۔ کانگریسی قائد نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی خواہش پر یہ بات بتائی۔ اے اے پی جو لوک سبھا انتخابات میں پارٹی ترغیب کاروں کی حیثیت سے کام کررہی ہے، ان سب کی یہ رائے ہے کہ دہلی کے مسلمان عام آدمی پارٹی کی جانب مائل ہورہے ہیں۔ دہلی میں لوک سبھا کی 7 نشستیں ہیں۔ مسلم اسمبلی حلقہ انتخاب اوکھلا سے دسمبر میں کانگریسی امیدوار سے مقابلہ میں ناکامی کا شکار بنے اے اے پی امیدوار خان نے بتایاکہ مدت طویل سے اے اے پی سارے ملک کے مسلم دانشوروں سے تبادلہ خیال کرتی رہی ہے۔ اے اے پی قائدین بشمول کجریوال اور منیش سسوڈیہ اے اے پی نظریات اور سیکولر اقدار، اس کے ایقان کو واضح کرنے کیلئے مسلم ماہرین تعلیم کارپوریٹ شعبہ کے مسلمانوں، سماجی جہد کاروں، مذہبی قائدین، مذہبی، سرکاری عہدیداروں اور سابق سیاستدانوں سے ملاقات کرتے رہے ہیں۔ اے اے پی فیصلہ ساز مرکزی کمیٹی کے رکن خان نے بتایاکہ ہم مسلمانوں کیلے روڈ میاپ تیار کرہے ہیں وہ صرف مسلمانوں تک بھی محدود نہیں،ان میں سکیورٹی، صحت اور تعلیم جیسے معاملات بھی شامل ہیں جو تمام ہندوستانی عوام کیلئے یکساں ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ ہم مسلمانوں سے "چاند" کا وعدہ نہیں کررہے ہیں۔ یعنی ناممکن العمل وعدہ نہیں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ مسلمانوں سے خصوصی وعدے بھی نہیں کئے جارہے ہیں، ہم ملک کے اتحاد کے حامی ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ کانگریس کی روایتی دلیل کے بی جے پی کو روکنے کیلئے کانگریس کو مسلمان ووٹ دیں جبکہ اس بات کو کوئی بھی قبول نہیں کررہا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ہم مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ دراصل ہم نے یعنی اے اے پی نے بی جے پی کو ناکام بنایا ہے۔ 22 اسمبلی حلقوں میں بی جے پی کا دوسرا نمبر رہا۔ اس بات کا تصور کیا جائے اگر ہم وہاں موجودنہ ہوتے تو تمام نشسیں بی جے پی کو حاصل ہوتیں۔ دہلی کی آبادی 16تا18ملین ہے جن میں مسلمانوں کا فیصد 12تا14 ہے۔ روایتی طورپر مسلمانوں کی اکثریت ایک ایسے شہر میں کانگریس کی تائید میں ووٹ دیتی رہی ہے جہاں رائے دہندوں کے روبرو انتخابات کیلئے صرف 2سرکرہد پارٹیاں بشمول کانگریس اور بی جے پی ہی موجود تھے۔ اے اے پی کے منظر عام پر آنے سے حالات تبدیل ہوگئے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ نومبر 2012ء میں جس پارٹی کی تاسیس عمل میں آئی تھی اسے مذہب، ذات پات، لسانیات، معاشی گروپس کی تائید حاصل ہوئی تھی۔ جماعت اسلامی ہند کے قومی سکریٹری سلیم انجینئر نے فوج پر جئے پور آئی اے این ایس کو بتایاکہ مسلمان کانگریس سے ناراض ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ کانگریس نے وعدووں کی تکمیل نہیں کی۔ مسلمان ایک قابل اعتماد متبادل کے خواہاں ہیں جو ہمیں اے اے پی میں دکھائی دے رہا ہے۔ جنوبی دہلی کے ایک مسلم شہری نے آئی اے این ایس کو بتایاکہ مسلمانوں نے ہمیشہ کم تر برائی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ بی جے پی کے مقابلہ میں ہم نے کانگریس کو ووٹ دیا تھا۔ اب اے اے پی موجود ہے لہذا اس پارٹی کو کیوں نہ ووٹ دیا جائے جو مناسب دکھائی دیتی ہے۔ دہلی میں اے اے پی کے مقابلہ میں کانگریس واضح طورپر سراسمیگی کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ تقریبان ہر رزو کانگریس میڈیا کے سامنے چند ایسے افراد کو پیش کرتی ہے جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور اے اے پی سے بیزار ہوچکے ہیں۔Delhi Muslim's growing attachment to the AAP
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں