انصاف کا دہرا پیمانہ جمہوریت کے لیے خطرناک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-24

انصاف کا دہرا پیمانہ جمہوریت کے لیے خطرناک

double-standard-justice
ماہرین نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ ناانصافی کی کوکھ سے تشددجنم لیتا ہے ۔جب ایک ہی سماج میں
دولوگوں کے خلاف دوہرا پیمانہ استعمال کیاجانے لگتا ہے تواس سے ایک کے اندرمایوسی اوراحسا س کمتری کا جذبہ پیداہونے لگتا ہے۔یا تونظرانداز طبقہ خودکودوسرے درجہ کا انسان سمجھ کرظالم کے حوالے کردیتا ہے جواس کی قسمت کا مالک بن بیٹھتا ہے پھراسے مشتق ستم بنایاجانے لگتا ہے جس سے اس طبقہ کی زندگی غلامی میں تبدیل ہوجاتی ہے بصورت دیگرمظلوم طبقہ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اورجب اس کی آوازکونقارہ خانہ میں طوطی کی آواز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تووہ تنگ آکرتشددپر آمادہ ہوجاتا ہے ؛اوریہ دونوں باتیں کسی مہذب سماج کیلئے اچھی نہیں ہیں کیوں کہ دونوں کا انجام عبرتناک ہے۔اسی لئے ملک وسماج سے تشددکے خاتمہ کیلئے ماہرین نفسیات اورفلاسفہ نے یکساں مواقع حقوق پرزوردیاہے ۔سرمایہ دارانہ وجاگیردارانہ نظام مملکت کے خاتمہ کے بعدفلاسفہ نے جمہوریت کواسی لئےبہترین متبادل قراردیاکیوںکہ اس میں ملک کے تمام شہریوں کیلئے ایک ہی قانون ہےاورسبھوں کی سزاوجزاکیلئے انصاف کا ایک ہی پیمانہ مقررہے۔لیکن گزشتہ ایک دہائی سے ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں انصاف کے پیمانے جس طرح بدلتے دکھائی دے رہے ہیں اس نے نہ صرف جمہوریت کی روح کوگھائل کردیاہے بلکہ انصاف پسندوںکی نگاہ میں ہندوستان کی سیکولرامیج مشکوک ہوتی جارہی ہے۔سابق وزیراعظم ہندراجیوگاندھی کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزاپاچکے مجرمین کی معافی ،افضل گرواوراجمل عامرقصاب کی خاموشی کے ساتھ پھانسی اورآرایس ایس پرچارک سوامی اسیمانندکے اقبال جرم میں ملک میں ہونے والے دہشت گردانہ بم دھماکوںمیں موہن بھاگوت سمیت دیگرہندتوواتنظیموں کے سربراہ کیخلاف پختہ ثبوت کے بعدحکومت اورعدلیہ کی پراسرارخموشی دلیل کے طورپرپیش کئے جاتے ہیں۔
ان تینوںواردات کے سلسلے میں ہندوستان میں الگ الگ انصاف کے اصولوں پرعمل کیاگیاہے۔ آگے بڑھنے سے قبل تینوںواقعات پرایک نظرڈالنا ضروری ہےتاکہ حقیقت کوسمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوں۔سابق وزیر اعظم ہندراجیو گاندھی کومئی ۱۹۹۱ء میں تمل ناڈو میں ایک انتخابی ریلی کے دوران خودکش حملہ کرکے موت کے گھات اتاردیاگیا۔اس میں سری لنکا سے الگ تمل ملک کیلئے جدوجہدکرنے والی شدت پسندتنظیم تمل ٹائیگرز کے ارکان شامل تھے ۔ تمل باغیوں کی علیحدگی کی لڑائی کے دوران راجیو گاندھی کے ذریعہ۱۹۸۷ء میں بحیثیت وزیرِ اعظم سری لنکا میں بھارتی امن فوجی بھیجنے سے تمل ٹائیگرزان سے ناراض تھے اورانتقام کے طورپرراجیوگاندھی کا قتل کردیاتھا۔ قتل اورسازش کے الزام میں سات افرادگرفتارہوئے تھے جن میں ستھن، مرگن ، پیراریولن ،مرگن کی اہلیہ نلنی شري ہرن، رابرٹ پائيس، جے كمار اور روچندرن شامل ہیں۔
راجیو گاندھی کے قتل کے الزام میں ستھن، مرگن اور پیراريوالن کو عدالت نے ۱۹۹۸ء میں موت کی سزا سنائی تھی۔ان لوگوں نے ۲۰۰۰ء میں صدر جمہوریہ کو معافی کی درخواست دی تھی۔۲۰۱۱ء میں انہیں پھانسی دی جانی تھی لیکن مدراس ہائی کورٹ کی ہدایت پر عمل درآمدکوروک دیاگیا اوریہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت رہا؛ مگر ۱۱؍سال کے بعد صدرجمہوریہ نے ان لوگوں کی درخواست خارج کر دی تھی اوراب سپریم کورٹ نے ان تمام ملزمین کی پھانسی کی سزاکو عمرقیدمیں تبدیل کردیا ۔تمل ناڈوکی جےللیتا حکومت نے دوقدم آگے بڑھتےہوئےان تمام مجرمین کی رہائی کی سفارش کردی جس پروزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ نے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم اور ہمارے عظیم لیڈر اور دوسرے بے گناہ ہندوستانیوں کے قاتلوں کی رہائی انصاف کے تمام اصولوں کے منافی ہو گی۔مرکزکی مداخلت کے بعدسپریم کورٹ نے ان مجرمین کی رہائی پرفوری روک لگاتےہوئے اس کی سماعت ۶؍مارچ تک کیلئے ملتوی کردی ہے۔
یہ ہوئی سابق وزیراعظم ہندکے قاتلوں کے ساتھ حکومت اورعدلیہ کے سلوک کی ایک تصویر۔اب پارلیمنٹ پرحملہ کے مبینہ ملزم افضل گرواورممبئی تاج ہوٹل حملہ کے ملزم اجمل عامرقصاب کے انجام پر ایک نظرڈالئے۔افضل گروکے معاملہ سماعت کا حال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے ۔یہ تقریباً ہرشخص کو معلوم ہے کہ گروکے معاملہ کی سماعت کے دوران عدالتی اصولوں سے دانستہ طورپرانحراف کیاگیا ،عدالت میں انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا بھی موقع نہیں دیاگیا ؛خودان کے وکیل جن کی ذمہ داری انہیں بے گناہ ثابت کرنے کی تھی اس نے عدالت سے سزائے موت کا مطالبہ کیاتھا۔ بالآخراسی پرعمل بھی ہوا۔اس بات کا اظہارکرتےہوئےمشہورایڈوکیٹ رام جیٹھ ملانی نےاعلان کیاتھاکہ افضل گروہ کے مقدمہ کی سماعت منصفانہ نہیں ہوئی ہے ۔اس لئے میں ان کا مقدمہ میں خودلڑوںگا ۔ملانی کے اس اعلان نے بی جے پی کومضطرب کردیا پھربی جے پی انہیں وزیرقانون کاقلمدان دے کربہلانے میں کامیاب ہوگئی اورحکومت نے اپنی ناکامی چھپانے کیلئے افضل گروکوبلی چڑھادی ۔سابق وزیراعظم کے قاتلوں کی طرح افضل گرونے بھی صدرجمہوریہ کے یہا ںمعافی کی درخواست دی تھی لیکن سیکڑوں فائل کے نیچے دبی افضل گروکی فائل کو۳؍جنوری۲۰۱۳ء کو نکال کرصدر جمہوریہ پرنپ مکھرجی نے افضل گورو کی رحم کی درخواست کومنسوخ کر دیا؛۴؍ فروری۲۰۱۳ء کو نہایت خموشی کے ساتھ پھانسی دیدی گئی اورپھرتہاڑ جیل ہی اس کی قبرقراردےدی گئی۔وزیرداخلہ نے افضل کے اہل خانہ کوبھی پھانسی سے قبل اس کی اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھا۔اب آپ خودہی سابق وزیراعظم ہندراجیوگاندھی کے قاتلوں کے ساتھ حکومت اورعدلیہ کے سلوک کا جائزہ لیجئے اورپھرافضل گروکے انجام پرنظرڈالئے ۔ناانصافی کا منظرنامہ خودبخود سامنے آجائےگا۔ممبئی حملہ کے ملزم عامراجمل قصاب کے معاملہ میں بھی کہاجاسکتاہےکہ حکومت نے عجلت سے کام لیا۔
اسی طرح ملک میں ہورہے دہشت گردانہ حملوںمیں بے گناہ مسلم نوجوانوں کوپابندسلاسل کرنے کا سلسلہ چل پڑا تھا ۔یہ سب ہندتوواتنظیموںکی سازش کاحصہ تھا لیکن سمجھوتہ ایکسپریس سمیت دیگربم دھماکوںمیں ملوث سوامی اسیمانندنے اپنے ضمیرکی آواز پرتیس ہزاری کورٹ میں پولٹین مجسٹریٹ کے سامنے ۲۴؍صفحات پرمشتمل اپنے جرم کااقبال کیااوراس میں شامل آرایس ایس کے سربراہ کے علاوہ دیگرہندتوواشدت پسندتنظیموں کے ارکان کے نام کا انکشاف کیا۔یہی نہیں اس نے ہندوپاک کے صدرکوبھی اس سلسلے میں مکتوب روانہ کیا ۔لیکن ابھی تک نہ توبے گناہ مسلم نوجوانوںکورہائی کا پروانہ مل سکا ہے اورنہ موہن بھاگوت کے خلاف کوئی کارروائی کی جارہی ہےجبکہ محض شک کی بنیادپرمتعددمسلم تعلیم یافتہ نوجوانوںکوجیل رسیدکردینا ایک عام بات بنتی جارہی ہے۔ایک جمہوری ملک میں وقوع پذیرہونے والےان تمام واقعات کے پس منظراورپیش منظرکا جائزہ لینے کے بعدانصاف پسندانسان یہ کہنے پر ازخودمجبورہوجاتاہے کہ آخرجرم ایک ،جرم کے طریقے ایک لیکن انصاف اورسزاکے تعین کیلئے طریقے مختلف کیوں؟
ہندوستانی جمہوریت میں ہرمعاملہ کوسیاست کی عینک سے دیکھنے کی روایت مضبوط ہوتی جارہی ہے اس کوآگے بڑھنے سے روکنا ہوگا تبھی جاکرجمہوریت کی روح اورجسم میں اتحادکا رشتہ استوارہوسکتا ہے۔ہندوستان ایک ترقی پذیرجمہوری ملک ہے اگر اس کی عظمت رفتہ کی بازیافت چاہئے تو اس کیلئے اس کی جمہوری اقدارکی حفاظت ضروری ہے محض مذہب کی بنیادپرانصاف کا دوہرا پیمانہ اختیارکرنا کسی بھی ملک کیلئے سلامتی کے اعتبارسے بہتر قرارنہیں دیاجاسکتا۔

***
rahbarmisbahi[@]gmail.com
موبائل : 9470738111
صابر رہبر

Double standard of justice is dangerous for democracy. Article: Sabir Rahbar

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں