جو عام آدمی ہے وہ کون ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-03

جو عام آدمی ہے وہ کون ہے؟

کچھ برسوں پہلے اس وقت چار سال کی میری بیٹی نے یہ پوچھا تھا کہ بابا۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے جوتوں کو یہاں کیوں رکھا گیا ہے؟ پوچھتے ہوئے اس نے گلاس لگی الماریوں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ کوئی 80ہزار جوتوں کی جوڑیاں بشمول چھوٹے سے جوتوں کی کوئی آٹھ ہزار جوڑیاں رکھی گئی تھیں۔ ہم اس وقت پولینڈ میں آشویٹیز برکیناؤ اسٹیٹ میوزیم میں ان اشیاء کا مشاہدہ کررہے تھے، جو نازی جرمنی کے نہایت ہلاکت خیزمقام پر پائی گئی تھیں۔ اس مقام پر ہزاروں افراد کو اذیت رسانی کیلئے قید رکھا جاتا تھا۔ ان میں زیادہ تعداد یہودیوں کی ہوتی تھی۔ اذیت رسانیوں کے بعد قیدیوں کو زہر گیس سے بھرے کمرے میں بندکرکے ہلاک کیا جاتاتھا۔
میں اپنی بیٹی کے سوال پر انجان بن گیا۔ میں نے اس کے سوال کے جواب میں یہ نہیں کہاکہ یہ لوگ ہم جیسے "عام آدمی" تھے۔ جو قید خانوں پر پہرہ دیتے تھے جو کہ دیگر لوگوں کو زہریلی گیس کے کمروں میں جھونک دیتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اڈولف ہٹلر کو حکمرانی کیلئے منتخب کیا تھا۔ یہی وہ معمولی لوگ تھے جنہوں نے راونڈا (آفریقہ) میں اپنے ہی ملک کو کوئی دس 10,00,000لاکھ لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ کر ڈالا۔ یہی وہ معمولی لوگ تھے جو کہ نروڈا پاٹیا(گجرات) میں اکٹھا ہوئے تاکہ وہ اپنے پڑوسیوں کی آبروریزی کریں، قتل و غارت گیریاور لوٹ مارکریں۔
"عام آدمی" جاگ گیا، اٹھ کھڑا ہوگیا ہے اور ہمیں اس بات کا جشن منانا چاہئے پھر بھی سوال یہ ہے کہ "عام آدمی" کا مفہوم ہمارے پاس کیا ہے؟ کیا اس میں وہ لوگ بھی شامل ہپیں جو 27منزلہ عالیشان عمارت میں سکونت رکھتے ہیں ا وریہ بلند عالیشان عمارت ان لوگوں کے گھیرے میں ہے جو جھونپڑیوں کی گندہ بستیوں میں زندگی گذارتے ہیں؟ "عام آدمی" کون ہے اور "معمولی آدمی" کون ہے؟ اس شناخت کا تعین کرنا ہمارے لئے ایک کٹھن مسئلہ ہے۔ کون سے طبقے اور کون سے معیار زندگی "عام" کی تعریف اور "عام" کے مفہوم سے خارج ہیں؟ حدیہ کہ اگر ہم مشاہدوں اور تجربوں کی بنیادپر ہی "عام" کی تعریف اور مفہوم کے تعین کرتے ہیں تب بھی ہمیں اخلاقی اصولوں اور اقدار کی بنیادوں پر "عام" کی تعریف اور مفہوم کا تعین کرنا پڑے گا۔ تاکہ یہ بالکل واضح ہوجائے کہ "عمومیت"Commonness، کا مفہوم اور مطلب کیا ہے۔ اور "عمومیت" کی اقدار کیا ہونی چاہئیں۔ کیونکہ ہم نے پہلے ہی مشاہدہ کرلیا ہے کہ "عام" لوگوں کے "ابنوہ" عام"لوگوں کی بستیوں میں کیسی کچھ ہنگامہ آرائی اور کیسے کچھ انسانیت سوز اور بہیمانہ عمل کرسکتے ہیں۔
ہم ان سوالوں کو نہ تو نظر انداز کرسکتے ہیں اور نہ ہی ٹال سکتے ہیں۔ کیونکہ محض "عام آدمی" ٹوپی پہن لینے سے کوئی "عام آدمی" نہیں بن جاتا۔ یا" میں بھی عام آدمی ہوں" کا نعرہ لگاتے رہنے سے کوئی عام آدمی بن جاتا ہے جو "لوگ"۔ جو"عوام" ہیں۔ وہ رنگا رنگی اور تضادات سے بے تعلق بن کر ایک وحدت، ایک اکائی نہیں بن سکتے۔ ذات پات، صنفت اور نسلی تفریقات کی رنگا رنگی اور تضادات برقرار ہیں اور رہیں گے۔ ہم ان کو نظر اندازنہیں کرسکتے۔ اگر ہم نے رنگا رنگیوں، تضادات اور تفریقات کو تسلیم نہیں کیا اور ان سے پیدا ہونے والی آویزشوں سے نمٹنے اور مصالحتی عمل کرنے جمہوری طورطریقے اختیار نہیں کئے تو پھر ہماری جمہوریت بالکلیہ کھوکھلی بن جائے گی۔ مائیکل ہارٹ Michael Heartاور انٹونیو نیگری Antonio Negriجیسے جمہوری نظریوں کے ماہرین کے بموجب "لوگوں" کی حکمرانی "ایک فرد" کی حکمرانی بن سکتی ہے۔ کئی لوگو ں پر ایک فرد کی حکمرانی بن سکتی ہے۔ یہ سنگین پہلو کہ لوگوں کا ایک گروہ مطلق العنانیت اور ڈکٹیٹر بن کر بدترین مظالم ڈھا سکتا ہے بارہا آشکار ہوچکا ہے۔ لوگوں کے جاگ جانے، اٹھ کھڑے ہونے کے جشن منائے جانے اور ان لوگوں کا تقابل "نہایت مقبول لوگوں، سے کرنے سے ایک خطرہ ہے۔ جمہوریت صرف یہ نہیں کہ "ٹیلفیون لائنس" کھول دی جائیں اور لوگوں سے ان کی سوچ کے بارے میں پوچھا جائے کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں (جیسا کہ مخصوص ٹیلی ویژن اینکر ہر رات ڈراتا رہتاہے) اگر ہم یہ کسوٹی بنالیں کہ کون زیادہ مقبول ہے تو پھر ہمیں اس "بگ باس" Big Boss، کو زیاہد مقبول مان لینا ہوگا جو کہ ٹیلی ویژن پر ملک بھر میں جمہوری سرگرمیوں نہایت فعال دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ معاملہ تو ووٹ بٹورنے کا ہے۔
جمہوریت میں لوگ ایک اصولی اخلاق کا زمرہ ہیں۔ ہماری پیدائش لوگ کی طرح نہیں بلکہ فرد کی طرح ہوئی پھر ہم لوگ بنے۔ ہمارے سماجی درجے ہمارے سماجی مقام "عام آدمی" جیسے نہیں حد کہ وہ جو کہ "عام آدمی" بن گئے ان کی خواہشیں، ان کی آرزوئیں یکساں نہیں۔ پھر بھی ہم سبھی "عام آدمی" بن سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ اہم یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کو کس نوعیت کا "عام آدمی" بننا چاہئے؟ تاریخی طورپر نہایت واجبی نتائج صرف اسی وقت برآمد ہوئے جبکہ سماجی اور سیاسی جدوجہد میں تصوراتی عوام سے نہیں بلکہ سماج میں انتہائی حاشیے پر ڈال دئیے گئے مجبور اورمظلوم طبقوں نے شرکت کی۔ جب تک "عام آدمی" کا تصور سماج کے مظلوم اور مجبور طبقوں کا حامل اور مظہر نہیں بنتا۔ تب تک "عمومیت" اور "عامیت" Commonness and Ordinariness کی دعویداریاں کھوکھلی رہیں گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا "عام آدمی" میکسیکو، سانفرانسسکو، جنوبی افریقہ، اسپین کے مشہور و ممتاز جہد کاروں یا اسرائیل کے اندر فلسطینیوں، امریکہ میں ماین Mayan انڈئین بوسنیا میں بوسنائیوں اور کشمیر میں کشمیری عورتوں کے جیسا جہد کار بن سکتاہے؟ منی پور میں تھنکجم منورما Thangjam Manorma جیسا جہد کار بن سکتاہے؟ کیا "عام آدمی" کو صرف اپنی فوری ضروریات اور آورزوں کا نمائندہ بن جانا چاہئے یا عام آدمیوں کو ان کی اپنی دنیا سے باہر کی دنیا کے بارے میں دیگر لوگوں کے برابر آگہی رکھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں؟ کیا انہیں اپنے ملک کی وسیع تر ذمہ داریوں کے بارے میں واقفیت اور انسانی برادری کے تعلق سے ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں واقفیت کی کوئی ضرورت ہی نہیں کیا "عام آدمی،ل کو یہ جاننے کی کوئی ضرورت ہی نہیں کہ کرہ اراض کو تباہی سے بچانے کے سلسلے میں اس کی ذمہ داری کیا ہے؟ ان سوالات کی اہمیت کو اگر تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان سوالات کے جواب دینے کی اگر کوئی کوشش نہیں کی جاتی تو پھر "عام آدمی" میں کچھ بھی "عام" کا عنصر نہیں ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر یہ ہوگا کہ 27 منزلہ عالیشان عمارت کے مکانوں میں سکونت پذیر لوگ بھی "عام آدمی" بن جانے کے آرزو مند ہوجائیں گے "عام آدمی" تصور، عام آدمی کا نظریہ یقیناًایسی صورت میں طاقتور بن جائے گا۔ سوال بس یہی ہے کہ کیا کھیر لانجی کا دلت، بستر کا ادیباسی اور کونن پوشپورہ کی کشمیری عورت اور منی پور کی تھنکجم منورما "عام آدمی" بن سکتی ہے یا نہیں؟ استحصال کا شکار بنی مجبور اور مظلوم اقلیتیں"عام آدمی" کی تلاش جاری رکھنی چاہئے کہ جو پہرہ دار، اہلکار، گارڈس اور قید خانوں، قتل گاہوں، روانڈا اور نروڈا پاٹیا جیسی قتل و غارتگری، آبروریزی جیسی آماجگاہوں کے منتظم بننے سے مستقبل میں صاف انکار کردیں۔ آئیے ہم اپنا "عام آدمی" خود بنائیں۔

Who is the Aam Aadmi? Article: Nissim Mannathukkaren
The writer is Associate Professor, International Development Studies, Dalhousie University, Canada.nmannathukkaren[@]dal.ca

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں