میانمار میں روہنگیا مسلمان امتیازی قوانین کا شکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-26

میانمار میں روہنگیا مسلمان امتیازی قوانین کا شکار

بنکاک/یانگون
(رائٹر)
انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے آج کہا ہے کہ میانمار میں حکام روہنگیا مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین نافذ کر کے انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ ہزار ہاروہنگیا مسلمان اس ملک سے پہلے ہی نقل مکانی کرچکے ہیں ۔ فورٹی رائٹس نامی گروپ کے مطابق حکومت کی متعدد افشا ہونے والی دستاویز سے ریاست راکھین میں روہنگیا نسل کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوتا ہے جس میں نقل وحرکت کی آزادی پر قدغن ، شادی اور بچوں کی پیدائش سے متعلق تعزیرات بھی شامل ہیں ۔ روہنگیا نسل سے بد سلوکی کے الزامات کوئی نئے نہیں ہیں ۔ اقوام متحدہ انھیں دنیا میں سب سے زیادہ ایذار سانی کی شکار اقلیتوں میں سے ایک قرار دے چکا ہے ۔ بیشتر مسلمانوں کو میا نمار کی شہرت دینے سے بھی انکار کیا جاچکا ہے ۔ انھیں بنگلہ دیش سے آئے ہوئے تارکین وطن تصورکیا جاتا ہے ۔ تھائی لینڈ میں قائم فورٹی رائنس نے کہا کہ اس امتیازی سلوک کو ریاست اور مرکزی حکومت کے عہدیداروں کی پشت پناہی حاصل ہے اور بظاہر یہ اس لئے ترتیب دیا گیا کہ روہنگیا نسل کو اس حد تک زچ کردیا جائے کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائے ۔ اپنی رپورٹ میں گروپ نے کہا کہ اسے ایک ایسا حکم نامہ ملا ہے جس کی بنیاد پر ماؤ نگداواور بوتھڈاؤنگ کے علاقوں میں 2بچے پیدا کرنے کی سخت پالیسی پر عملدار آمد کیا گیا ۔ اگرچہ میانمار میں صرف 4فیصد مسلمان آباد ہیں تاہم اکثریتی بدھ مت کے پیرو کاروں کا الزام ہے کہ مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح پیدائش ان کی ملک میں قیمتی وسائل اور طرز زندگی کیلئے خطرہ ہوسکتی ہے لیکن بدھ مت کے ماننے والوں کے ان دعوؤں کے برعکس مسلمانوں کی اکثریت نقل مکانی پر مجبور ہوئی ، بالخصوص 2012ء میں ریاست راکھین میں ہوئے بدھ ۔ مسلم فسادات میں 250افراد کی ہلاکت اور بعد ازاں ملک کے دیگر حصوں تک ان فسادات کے پھیل جانے سے بہت سے لوگ گھر بار چھوڑ گئے ۔ گروپ کے مطابق ان سخت قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کوبھاری جرمانے اور طویل قید کی سزائیں سنائی جاتی ہیں ۔ میانمار کی حکومت کی طرف سے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا اور وہ اس گروپ کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کرچکی ہے ۔ اس نے کہا کہ ملک میں بسنے والی کسی بھی اقلیت کیلئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اس کے آباواجداد راکھین میں 1823ء میں برطانوی حملہ سے قبل یہاںآباد تھے ۔ میانمار کے لاکھوں روہنگیا مسلمان یہ دعوی تو کرتے ہیں کہ وہ کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں لیکن وہ اس سلسلہ میں دستاویزی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہیں ۔ Rohingya Discrimination Is Myanmar Policy, Report Says

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں