نئی ریاست تلنگانہ میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کا روڈ میپ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-19

نئی ریاست تلنگانہ میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کا روڈ میپ

18/ فروری 2014 کو تلنگانہ عوام کے لئے یہ خوشخبری آئی کہ پارلیمنٹ میں قیام تلنگانہ کا بل منظور ہوچکا ہے۔ اور علاقہ تلنگانہ کے عوام کی دیرینہ خواہش کی تکمیل ایک نئی ریاست کی صورت میں ہوئی۔ اس ریاست کی تعمیر کے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں اونچے عزائم ظاہر کئے جارہے ہیں اور سنیکڑوں ہڑتالوں‘ بند اور معصوم نوجوانوں کی قربانیوں کے بعد یہ ریاست حاصل ہوئی ہے۔ تہذیبی اور سماجی اعتبا ر سے بھی علاقہ تلنگانہ کی الگ پہچان رہی ہے اور اردو زبان اس علاقے کے عوام کی ایک لحاظ سے مادری زبان ہے۔ اور تلگو کا نمبر دوسرا دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقہ تلنگانہ کی تہذیبی شان کی برقراری اور اس میں مزید اضافہ کے لئے تشکیل تلنگانہ کے ساتھ فوری سرکاری‘علمی اور تہذیبی سطح پر ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے اردو اس علاقہ کی سرکاری زبان بن جائے اور حکومت اور تعلیمی سطح پر اس کا استعمال عام ہوجائے۔
تلنگانہ تحریک عوامی تحریک تھی۔ نئی نسل کے بچے اور نوجوان اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ انہوں نے اپنی نظروں کے سامنے ایک تحریک کو زور پکڑتے دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ رات میں اپنے ہاتھوں میں جلتی موم بتیاں لئے گاؤں اور شہروں میں تلنگانہ کی حمایت میں جلوس کی شکل میں جار ہے ہیں۔ کہیں تلنگانہ دھوم دھام ہورہا ہے تو کہیں تلنگانہ تہذیب کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ کسی بھی تحریک کو پروان چڑھانے میں زبان کا اہم رول ہوتا ہے۔ اور تلنگانہ کے علاقے کی مقبول زبان اردو ہے۔اردو الوں نے تلنگانہ تحریک کے دوران اپنی تقاریر نظموں اور گیتوں کی پیشکشی کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ تلنگانہ کے لئے اردو بہت کچھ کر سکتی ہے۔ اردو میں تلنگانہ کے حق میں نعرے بھی دئے گئے کہ لگاؤ ایک اور دھکہ تلنگانہ پکا۔ اگر اردو والے ابھی سے اردو کی شناخت بر قرار رکھیں تو تلنگانہ کی تشکیل کے بعد مجوزہ ریاست میں اردو کو اس کا جائز مقام مل سکتا ہے۔ 1956 ؁ء میں زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تشکیل جدید میں تلگو بولنے والی آبادی کے اضلاع کو ملا کر ریاست آندھرا پردیش کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ جبکہ سابق ریاست حیدرآباد میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ کونسی زبان بولنے والے کتنی تعداد میں کہا ں رہتے ہیں۔ اور تلنگانہ کے علاقے میں اردو بولنے والوں کی کثرت تھی۔ جامعہ عثمانیہ کی تاریخ شاہد ہے کہ کیا ہندو کیا مسلمان سب کالی شیروانی پہنے اردو میڈیم سے اس جامعہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ گھروں میں اردو تہذیب ذندہ تھی۔ لوگ بلا لحاظ مذہب و ملت اردو اخبار پڑھتے تھے اردو میں بات کرتے تھے۔ اور اسکولوں میں سب اردو بہ حیثیت زبان پڑھتے تھے۔ اب ان ہی علاقوں کے ساتھ تلنگانہ ریاست کی تشکیل عمل میں آئی ہے۔تلنگانہ کی تشکیل کے بعد آندھرا کا علاقہ خالص تلگو کا علاقہ ہوگا آج بھی اس علاقے میں اردو کا چلن صرف ٹوٹی پھوٹی بولی کی حد تک ہے۔ ایک ریاست مکمل تلگو زبان کی حامل ہوگی۔ تلگو زبان کے بعض غیر جانبدار دانشور اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ آندھرا پردیش میں گذشتہ پچاس سال میں صرف تلگو کا کلچر ہی پروان چڑھتا رہا تلگو میڈیا ‘فلموں اور دیگر ذرائع سے تلنگانہ کے علاقے میں آندھرا کا کلچر اور تہذیب پروان چڑھائی گئی۔ اور تلنگانہ کی گنگا جمنی اردو تلگو تہذیب آندھرائی تہذیب کے اثرات میں دب گئی۔ اب تلنگانہ کے اردو دانشوروں کے لئے یہ لمحہ فکر ہے کہ کیا وہ تلنگانہ کے نام پر تلگو زبان والی دوسری ریاست برداشت کریں گے۔ کیونکہ تلنگانہ کے موجود ہ اردو حلقوں سے اب تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ تلنگانہ کی پہلی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ اگر ہم ابھی سے تلنگانہ کی پہلی سرکاری زبان کے اردو ہونے کا مطالبہ نہ پیش کریں اور تلنگانہ تحریک میں اردو کو پیش پیش نہ کریں تو ہمیں ایک اور تلگو ریاست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور آند ھرا پردیش میں تلنگانہ کے اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کے سبز باغ کی طرح ایک مرتبہ پھر اردو اپنے ہی گھر میں اپنوں کے ہاتھو ں اجنبی ہوجائے گی۔ زبان ایک نامیاتی شئے ہے اگر اسے برتا گیا تو وہ زند ہ رہے گی ورنہ پہلے اس کا رسم الخط مر جائے گا اور پھر اس کے بعد بہ حیثیت بولی بھی ایک زندہ زبان تاریخ کے صفحات میں گم ہوجائے گی۔ دکن کے علاقے میں دکنی زبان کے مٹ جانے کی کہانی ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ اس لئے یہ اچھا موقع ہے کہ تلنگانہ کی تشکیل کے بعد اردو کے دانشور تلنگانہ میں اردو کے موقف کو بھی مضبوط پیش کرتے جائیں۔ اگر ہم اردو کا ماحول بنائیں گے تو غیر اردو داں بھی پہلے اردو میں بات کریں گے اور پھر حکومت کی مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ سب کے لئے اردو تعلیم کا طریقہ کار بھی طے کیا جا سکتا ہے۔ یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ حیدرآباد میں اردو کی مرکزی یو نیورسٹی مولانا آزاد اردو یونیور سٹی قائم ہے۔یہاں موجود اردو یونیورسٹی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی کی جامعہ عثمانیہ کی طرح اب اردو میں روایتی کورسز کے ساتھ تکنیکی کورسزبھی اردو میں پڑھائے جا سکتے ہیں۔ جب اردو یونیورسٹی میں ایم بی اے اور دیگر پی جی کورسز اردو میڈیم سے کامیابی کے ساتھ پڑھائے جارہے ہوں تو پھر ایم بی بی ایس یا انجینئرنگ کورسز کو اردو میڈیم میں کیوں نہیں پڑھایا جا سکتا ہے۔ اب تلنگانہ میں اردو والوں کو اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کرنا ہوگا کہ وہ یہاں کے تمام سرکاری چاہے وہ اردو میڈیم ہوں تلگو میڈیم ہوں یا انگریزی میڈیم سب مدارس میں ارد و مضمون کو لازمی قرار دے۔ جب اسکول کی سطح سے سب لوگ اردو پڑھے ہوئے ہوں تو انہیں اردو میڈیم میں اعلیٰ تعلیم میں دشواری نہیں پیش آسکتی ۔ جیسا کہ سابق میں جامعہ عثمانیہ کے عظیم سپوتوں نے کر دکھایا ۔ یہ بھی ایک حقیقت رہی ہے کہ ماضی میں اردو میڈیم سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والوں کی انگریزی جتنی اچھی تھی اتنی آ ج کے انگریزی میڈیم تعلیم حاصل کرنے والوں کی نہیں ہے۔ اس لئے یہ خدشہ دل سے نکال دینا چاہئے کہ اردو میڈیم سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ آندھرا پردیش میں اردو بولنے والوں کو گذشتہ نصف صدی سے اسکول کی سطح پر لازمی طور پر تلگو پڑھایا گیا۔ تو اب اردو والوں کو یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ تلنگانہ میں سب کو اردو پڑھنا ہوگا۔ اگر ہمارے کوئی سیاست دان اس نعرے کو لے کر اپنی سیاست چلانا چاہیں تو تلنگانہ میں ان کی ترقی کے امکانا ت بڑھ سکتے ہیں۔ اس لئے ہمارے تلنگانہ کے سیاست دانوں سے گذارش ہے کہ وہ سب کے لئے اردو تعلیم لازمی کا نعرہ لگانا شروع کردیں تو ایک طرف اردو کو زندگی مل جائے گی تو دوسری طر ف خود انہیں بھی زندگی ملے گی۔ اردو والے چونکہ مسلمان ذیادہ ہیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح ہم اپنے مذہب اسلام کے ساتھ بے یقینی کی زندگی گذار رہے ہیں۔اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیمات یقینی کے باوجود کہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے دین اور دنیا دونوں میں کامیابی ملے گی۔ ہم اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اسلام پر چلنے سے کامیابی ملے گی یا نہیں۔ ہمارے غیر اسلامی اعمال اس بات کے خود گواہ ہیں۔ یہی کمزور یقین والے ہمارے مسلمان خیر سے اردو بولنے والے بھی ہیں۔ اور حکومت کے چھوٹے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ جب ان کے سامنے یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ اردو کے حق میں حکومت سے مطالبات منوانے کے لئے جد و جہد کریں تو وہ اپنی کرسی کی فکر میں حکومت سے مطالبات منوانے کے بجائے اردو والوں کو ڈانٹتے ہیں کہ اردو کا جتنا نقصان اردو والوں کے ہاتھوں ہوا ہے اتنا حکومت کے ہاتھوں نہیں ہوا۔ اس لئے تلنگانہ میں اردو کے مضبوط موقف کی بات کرنے والے سپاہیوں کو تلاش کرنا ضروری ہے ۔بد قسمتی سے ہمارا دانشور طبقہ سیاست سے دور رہا ہے اور وہ خاموش تماشائی بنا حالا ت کو بگڑتا دیکھ رہا ہے۔ عام آدمی کے جذبات اچھے ہیں لیکن اسے روٹی کپڑے اور مکان کی جد جہد میں ایسے گھسیٹ دیا گیا ہے کہ وہ جوش میں قطار میں ٹہر کر اس امید میں الیکشن میں اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں وو ٹ ڈالتا ہے کہ کم از کم اب کی بار اس کے روز مرہ کے مسائل حل کرنے والا کوئی مسیحاآئے گا۔ لیکن ہر بار کی طرح الیکشن جیتنے کے بعد ہمارے سیاست دان عوام سے ایسے دور ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ عوام بس کے کرایوں میں اضافے ‘اشیائے خورد ونوش میں اضافے کو دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ نہیں کر سکتے ۔ اس لئے اردو والوں کو بھی ابھی سے اس تلاش میں لگ جانا چاہئے کہ تلنگانہ میں اردو کا سچا ہمدرد کون ہوگا۔تلنگانہ میں اردو بولنے والوں کا فیصد تقریباً 40ہوگا۔اگر یہ چالیس فیصد متحد ہوں تو سیاسی بساط کا نقشہ اُلٹ سکتے ہیں۔ اگر کوئی نئی سیاسی جماعت اردو کوتلنگانہ میں پہلی سرکاری زبان بنانے کے تیقن کے ساتھ وجود میں آبھی جائے تو تلنگانہ کے اہل اردو اسے اس بات کا تیقن دینا شروع کردیں کہ وہ ضرور انتخابات جیتے گی۔اردو تحریک چلانے کے لئے ضروری ہے کہ اردو کا الیکٹرانک میڈیا فعال ہو کیونکہ گذشتہ ایک سال میں دیکھا گیا ہے کہ آندھرا پردیش میں تلگو الیکٹرانک میڈیا بہت حد تک رجحان ساز ہوگیا ہے۔ اردو کا واحد کامیاب اردو چینل ای ٹی وی اردو تلگو میڈیا کی عبقری شخصیت رامو جی راؤ کی ملکیت میں ہے۔ آج اردو کی اہمیت سمجھتے ہوئے ایچ ایم ٹی وی ساکشی ‘تلنگانہ ٹی وی‘ ایچ وائی ٹی وی نے اردو نیوز بلیٹن شروع کردیے ہیں۔اچھی خبر یہ ہے کہ تلنگانہ کے ضلع نظام آباد میں مقامی ارد و چینل روشنی ٹی وی نے کام کرنا شرو ع کردیا ہے۔ اب ہر ضلع مستقر پر مقامی کیبل کے ذریعے اردو چینل شروع کردیا جائے ۔ جس پر اردو خبروں کی پیشکشی کے علاوہ اردو شعرا اور ادیبوں اردو اساتذہ اور مقامی اہم شخصیات کے اردو میں انٹرویو نشر کئے جائیں۔ تلنگانہ تحریک کے پروگراموں کی ریکارڈنگ دکھائی جائے اس سے خواتین بھی تلنگانہ اور اردو کے بارے میں باخبر ہونگی۔اخبارات کے مقابل ٹیلی ویژن نیو ز چینل ذیادہ بر وقت اور موثر طریقے سے اپنی بات لوگوں تک پہونچا سکتے ہیں۔یہ بھی ایک کڑوی حقیقت بن گئی ہے کہ آ ج اردو پڑھ کر سمجھنے والوں کے مقابلے میں اردو سن کر سمجھنے والے لوگ ذیادہ ہیں ۔ اس لئے اردو اخبارات کے مالکین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اور اردو کی بقاء کے لئے فوری اردو نیوز اور اردو تہذیبی و تعلیمی چینل شروع کردیں۔ اردو یونیورسٹی میں موجود ماس میڈیا کے کورسز سے اردو چینل چلانے والوں کی ایک ٹیم تیار کی جا سکتی ہے۔ اردو کے چینل عام ہونگے تو تلگو چینلوں کا زور بھی کم ہوگا۔ آج چینل چلانے کے لئے بھاری سرمائے کی ضرورت ہے۔ اور مسلمانوں یا اردو والوں کے پاس سرمایا نہیں تو اردو والے ایسے سرمایہ داروں کا سہارا لیں۔ جو تلنگانہ میں اچھے سیاسی مستقبل کے خواہش مند ہوں ۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو کے مسائل ہو ں یا مسلمانوں کی تعلیمی ‘ معاشی و معاشرتی پسماندگی دور کرنے کی بات ہو۔ااس لئے موقع ہے کہ تلنگانہ کی تشکیل کے موقع پر اردو والے اور مسلمان اپنے مضبوط موقف کے ساتھ سامنے آ ئیں۔ اب وقت ضائع کئے بغیر ضلع واری سطح پر اردو کے جائز مقام کے حصول کی کمیٹیاں بنائی جائیں۔ جے اے سی میں اردو کا موقف واضح کرایا جائے کے نے ٹی چینل میں اردو کانصف سے ذائد موقف طلب کیا جائے۔ تلنگانہ کے سرکاری دفاتر میں مرکز کے ہندی بورڈ کے طرز پر روزانہ ایک اردو لفظ سکھانے کا عمل شروع کردیا جائے ۔ اردو زبان کو دیگر زبانیں بولنے والے سیکھنے کی آسان کتابیں تیار کرکے عام کی جائیں۔ فون کے ذریعے ایس ایم ایس بات پہنچانے کا فی زمانہ موثر ذریعہ مانا جا رہا ہے ۔ اردو والے اپنے تلگو داں بھائیوں کوروزانہ اردو میں کوئی نہ کوئی پیغام آسان جملوں میں بھیجنا شروع کردیں۔ تلنگانہ سلام کے طور پر آداب کور واج دیا جائے ۔تلنگانہ کے تمام اجلاسوں میں اردو تقاریر اور اردو پروگرام شروع کئے جائیں۔محلے کے کسی مرکزی مقام پر تلنگانہ پروگاموں کا انعقاد عمل میں لا یا جائے ۔ سماج کے مختلف طبقات کے سامنے تلنگانہ کے ثمرات پیش کئے جائیں۔ اس طرح تشکیل تلنگانہ کے موقع پر بھی اردو والے اپنے مضبوط لائحہ عمل کے ساتھ موجود رہیں۔ اور اپنے مطالبات منوانے تک تشکیل تلنگانہ کے عمل کو پایہ تکمیل تک نہ پہونچنے دیں۔ ورنہ نوشتہ دیوار سامنے ہے۔ آندھرا پردیش میں ارد و کا جو حشر ہوا۔ تلنگانہ میں اردو کا حشر اس بھی ذیادہ برا ہوگا۔ زبان کے ساتھ تہذیب جڑی رہتی ہے اگر زبان مٹ گئی تو تہذیب بھی مٹ جائے گی اس لئے اردو اور اسلامی تہذیب کی تلنگانہ میں بقا اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہم تلنگانہ تحریک کو اردو کی بقا ء کی تحریک کے طور پر دیکھیں۔ یہ تلنگانہ میں اردو کے موقف کا روڈ میاپ ہے۔اگر ہم مضبوط دعوے کے ساتھ اردو کو تلنگانہ کی پہلی سرکاری زبان بنانے کا دعوی اور دلیل پیش کرتے رہیں۔ تو کم از کم خوابوں کی تعبیر بن کاتشکیل پانے والے تلنگانہ میں اردو پہلی نہیں تو دوسری سرکاری زبان ضرور بنے گی۔یہ اردو کے ایک ہمدرد کی دل کی آواز ہے۔ اگر یہ باتیں پسند ہوں تو اردو کے ہمدرد اٹھ کھڑے ہوجائیں متحد ہوجائیں۔ اور اردو کی آواز بلند کریں۔ اردو اخبار کے ذریعے یہ آواز لگائی جا رہی ہے اسے سارے تلنگانہ میں عام کرنے کی اردو والوں کی ذمہ داری ہے۔آئیے تلنگانہ کے خواب کو اردو کی بقا ء کے ساتھ شرمندہ تعبیر کریں۔ورنہ ہم یہ دیکھنے کے لئے تیار رہیں کہ
؂
نہ سنبھلو گے تو مٹ جاؤ گے اردو والو
تمہاری داستان تک نہ ہوگی تلنگانہ کی تاریخ میں

***
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
صدر شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد
موبائل : 00919247191548
ڈاکٹر اسلم فاروقی

Road map of urdu as govt language in telangana. Article: Dr. Aslam Faroqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں