وہ ہتھیلی میں کیا کچھ دکھا رہا ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-02-12

وہ ہتھیلی میں کیا کچھ دکھا رہا ہے

آج بقراط کا برقی پیام آیا ۔۔ لکھ بھیجا
"وہ ہتھیلی میں کیا کچھ دکھا رہا ہے۔۔۔۔۔ کیا آپ نے دیکھا؟"
ہم نے شیفتہ سے اس پیام کا عقدہ حل کرنے کی درخواست کی۔۔۔ فرمایا :
بقراط کی مراد ان سب دکھاوے سے ہے جو ٹی وی میڈیا دکھا رہا ہے، اور ان سب سے بھی جو وہ دکھانا نہیں چاہتا لیکن اہل نظر دیکھ لیتے ہیں ۔ فرمایا۔۔۔۔ اگر بقراط کی مراد۔۔ آپ کے کجریوال سے ہوگی تو غلط ہوگی۔۔۔۔ کیونکہ انکے پاس ہتھیلیوں کے پھپھولے دکھانے کے سوا کچھ نہیں، بے چارے ہندوستانی سیاست میں ہونے والے شارٹ سرکٹ سے ہاتھ جلا بیٹھے ہیں، اور حزب مخالف کی بے شرمی سے پانی پانی بھی ہو گئے ہیں اور گڑھوں من پانی عوام کی غیر منطقی توقعات پر پھیر چکے ہیں ۔ لاکھوں عوام کی اربوں خواہشات کے حساب کتاب کا عقدہ حل کرنے میں ناکام نظرآتے ہیں، بر صغیر کے عوام کی اکثریت جو جعلی جمہوریت کے صحرا میں پلی بڑھی ہے، اور جو ہمیشہ ایک موج ریگ کو سمندر جان کر سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہے، ہر ایک نئے سیاسی لیڈر کو الہ دین کا جن سمجھ بیٹھتی ہے، ایسی قوم کو سمجھانے اور سکھانے کے لئے باب احتجاج و سیاست سے پہلے بھی کئی ابواب ہیں جن میں اول باب اخلاقیات و روحانیت کا ہے –

فرمایا۔۔۔۔
اگر بقراط کی مراد یوپی کے اعظم خان سے ہے تو شاید انکی ہتھیلی سے انگلیاں ہی غائب ہیں کہ وہ پارٹی پراٹھائیں اور اپنی قوم و ملت پر ہونے والی نا انصافیوں پر احتجاج درج کریں ۔۔۔۔ محسوس ہوتا ہے کہ ایک انگوٹھا بچا ہے جس سے وہ اپنی قوم کو ٹھینگا دکھا رہے ہیں، اور اپنی بھینسوں کی گمشدگی سے بازیابی تک کی پوپ کہانی میڈیا میں سنا کر میڈیا کی ہرزہ سر ائی کا طنزیہ جواب دے رہے ہیں ، اور اپنے ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں، جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ فرمایا ۔۔۔۔آج مرزا ہوتے تو ضرور کہتے کہ۔۔۔۔۔ دل بد بخت تجھے ہوا کیا ہے۔۔۔۔۔۔
اگر بقراط کی مراد راہل گاندھی سے ہے تو وہ آرنب گوسوامی کی کنگارو عدالت میں حاضری لگا کر عوام کو اپنے تئیں بھروسہ اور دلاسہ تو کیا دیتے خود اپنی شخصیت پر بٹہ لگا چکے ہیں، آرنب جیسے مکار اور زیرک ٹی وی صحافی کی تفتیشی صحافت نے انکا فنگر پرنٹ بھی لے لیا ہے ۔۔۔جبکہ ان کے ہاتھ صاف و شفاف تھے۔۔۔ بلکہ انکی ہتھیلیاں تو لکیروں سے بھی خالی تھیں کہ میڈیا کے نجومی انکی ہتھیلیوں میں ہندوستان کا مستقبل دیکھ پاتے، عوام بھی اب کانگریسی ہاتھ اور اسکے پنجہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چا ہتی ہے ، پچھلے پانچ دس سال سے وہ اسکی گرفت اپنی گردنوں پر محسوس کر رہی تھی اور اب نڈھال ہو چکی ہے۔ آرنب نے اپنی کنگارو عدالت میں آر ایس ایس کے سدرشن کو ابھی تک نہیں بلایا ہے ، شاید اب پنڈت اسیما نند کے ساتھ ہی بلائے گا ۔ بات چیت کا عنوان اس نے پہلے ہی طے کر رکھا ہوگا سدرشن کے کہنے پر کہ "بنگلہ دیشی گھس پیٹیے اور مسلمان دہشت گرد" شاید ایک آدھ دھماکہ اسکے ٹی وی شو میں بھی ہوگا تاکہ دنیا کا دھیان بٹ جائے اور آر ایس ایس دہشت گرد ثابت نہ ہوجائے، جسے کانگریس نے پچھلے کئی سالوں سے دہشت گرد ثابت ہونے سے روک رکھا تھا۔۔۔ شاید موجودہ الکشن کا انتظار تھا اسے ، ورنہ تو یہ ساٹھ سال پہلے ہی ثابت ہوچکا تھا ۔
فرمایا۔۔۔ بقراط کی مراد بی جے پی کی بی جمالو سشما سورج سے بھی نہیں ہوسکتی، انکی ہتھیلیوں کا رنگ کبھی سرخ شوخ حنائی ہوا کرتا تھا، اڈوانی کی ہتھیلیوں کی طرح ۔۔۔۔ لیکن اب اڈوانی کا حال دیکھ کر وہ ہر قسم کے تنازعات سے ہاتھ دھو چکی ہیں۔
ہم نے پوچھا حضور آپ یہ سب اتنے وثوق سے اور برملا کیسے کہہ سکتے ہیں؟
فرمایا۔۔۔ حضور ہم یہ سب کب کہہ رہے ہیں بلکہ یہ سب تو میڈیا دکھا رہا ہے اور کہہ رہا ہے۔۔۔۔ ہم نے کہا تب تو ٹھیک ہے ورنہ کیجریوال کی طرح آپ پر بھی سیاستداں عزت ہتک کا دعوی ٹھونک دیتے۔
فرمایا۔۔۔ آپ کس عزت کا ذکر کر رہے ہیں۔۔۔ جو اب سیاست میں ناپید ہے –

ہم نے پوچھا حضور ہتھیلی میں سرسوں جمع کر دکھایا جاتا ہے، اور سنا ہے ہتھیلی میں چاند بھی۔۔۔ فرمایا ہاں ہاں ہم انہیں خطوط پر سوچ رہے ہیں۔۔ تہذیب جدیدہ میں تو ہتھیلی میں جنت بھی دکھائی جاسکتی ہے، بلکہ سلیمانی انگشتری کی طرح ہتھیلی میں اسمارٹ فون رکھ کر دنیا بھی دکھائی جا سکتی ہے اور حکومت بھی کی جا سکتی ہے ۔ اب ہتھیلی میں سرسوں جمانا کوئی برصغیر کے سیاستدانوں سے سیکھے۔ آپ نے یوپی میں سیفی کے ایک سیاسی پروگرام میں بھانڈوں کا ناچ دیکھا ہوگا !۔۔۔۔ اسے ہتھیلی میں سرسوں جمع کر دکھانا آپ کہہ سکتے ہیں۔ بلکہ ہتھیلی میں چاند دکھانا بھی کہہ سکتے ہو۔
ہم نے کہا حضور ویسے تو کانگریس اپنے اشتہار میں چاند کے ٹکڑے چن چن کر دکھارہی ہے، مسلمانوں کو رجھانے کے لئے۔۔۔۔فرمایا ہاں۔۔۔ یہ طرز عمل برصغیر میں ایک عرصہ سے چل رہا ہے۔۔۔۔ جب سیکولر ازم اور آزادی کے نام پر مسلمانوں کو اور خاص کر مسلم مسماّۃ کو پردہ سے باہر لایا گیا تھا۔ ان دنوں ململ کا لال دوپٹہ ہوا میں اڑایا گیا تھا، چند احمق مسلم مفکروں کی تقلید میں یہ نعرہ بھی لگایا تھا کہ تو اپنے دوپٹہ سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا۔۔۔۔اس دوپٹہ سے جسے خالق حقیقی نے اپنے سینوں پر رکھنے کا حکم صادر کیا تھا۔۔۔ لیکن شخصی آزادی کی بھونڈی تعریفوں سے تشکیل دیا گیا جدید نظام حیات ہندوستان بلکہ بر صغیر کے اکثر و بیشتر مسلمانوں کو بہت راس آیا تھا۔ پھر قوم وملت کے مفکر حضرات کو خبر بھی نہ ہوئی کہ یہ دوپٹہ کب قوم کی عفت کا کفن بن گیا، وہ احتجاج تو کیاکرتے، آزادی کے ریلے میں بہتے چلے گئے، وہ بھی کیا کرتے، ان میں سے چند تو مدرسے کے باغی تھے اور افکارات کے نئے افق کے متلاشی، اور چند دین بیزار ۔ درد تو دل میں رکھتے تھے اور سماجی خدمت کی اہلیت بھی، لیکن شرافت اور اہلیت کے امتزاجی نسخہ کیمیا سے نابلد تھے۔ کیوں نہ ہوتے۔۔۔۔ یہ نسخۂ کیمیا انگریزوں کی بخشی ہوئی تعلیم میں کہاں پایا جاتا ہے، جہاں اہلیت کے سامنے تمام اوصاف دھندلے ہوجاتے ہیں، ایمان و شرافت اور نجابت بھی ، اور صرف اہلیت ہی کامیابی کا معیار کہلایا جاتا ہے ۔۔۔ اب دنیاوی کامیابی کا اور کیا معیار ہو سکتا ہے ۔۔۔۔
الغرض اسی طرز فکر نے شرفا کے خاندانوں کے دوپٹوں کو ایرے غیروں کے پیروں تلے روند کر رکھ دیا۔۔۔۔۔کبھی فنون لطیفہ کے نام پر اور کبھی ادب کے نام پر، کبھی رواداری کے نام پر ۔۔کچھ دوپٹے گنگ و جمن تہذیب میں بہہ گیے۔ کیسے کیسے عظیم خاندانی نام اور کیسے کیسے عظیم الشان تعلیمی و تدریسی ادارے اڑتے دوپٹوں کی لپیٹ میں آگئے۔ وہ خاندانی نام جن کے زبان پر آتے ہی سر فخر سے اونچا ہوجاتا اور آنکھیں تشکر سے نم ہو جاتیں تھیں ۔۔۔۔ انکی جدید مغرب زدہ نسلوں کے کرتوتوں سے نظریں شرم سے جھکنے لگی، وہ تعلیمی ادارے جو قوم و ملت کی آبرووں اور آرزوں کا مسکن تھے ، لیکن انہوں نے ناچنے گانے والوں کو اعزازی اسناد عطا کی اور مغربی طرز فکر و عمل کو بڑھاوا دیا، اور اب اپنا احترام اور وقار کھوتے جا رہے ہیں۔ انہیں اداروں نے ناچنے گانے والوں کو ملک و قوم کا رہنما بنایا ۔ قوم و ملت کے سینے چاک چاک ہوگئے، مسلمانوں کی تہذیب کے سینے پر یہ داغ اب تک نمایاں ہیں۔۔۔۔۔لیکن ہم علم کے اندھوں کو نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔
قوم و ملت کی بیٹیوں کے دوپٹے سیاسی پارٹیوں کے نعروں کو لہرانے کے لئے استعمال میں آتے گئے ۔ آزادی نسواں اور خواتین کی خود اختیاری کے کھوکھلے نعروں میں ملک و قوم کی سفید پوشی کا بھرم بھی کھلتا گیا۔ انجام کار ہماری نئی نسل فلموں اور سیاست غلیظہ کے پھندوں میں پھنس کر عزت کی روٹی اور روٹی کی عزت کے فلسفے میں الجھ کر رہ گئی تھی ۔ نہ ہی عزت ملی ہے اور نہ ہی رو ٹی۔ دین ہاتھوں سے چھوٹ رہا تھا سو وہ الگ۔ وہ تو الله کا شکر ادا کیجیے کہ علمائے حق نے پچھلے بیس پچیس برسوں میں دوپٹوں کو قوم کی بیٹیوں کے سر دوبارہ رکھا ، اور اکثر مسمات رفتہ رفتہ بے پردہ آزادی نسواں سے با پردہ آزادی کی طرف راغب ہونے لگی، اور مغرب کی بخشی ہوئی جھوٹی عزت و آبرو اور دکھاوے کی آزادی کے سراب سے اب نکلنے لگی ہے ۔ جھوٹی عزت کی روغنی روٹی کے حصول کے لئے صرف مغربی تعلیم سے کام نہیں چلتا ہے، بلکہ مکمل طور سے مغربی شعار بھی اپنانے پڑتے ہیں، اور غیرت کو طاق پر رکھنا پڑتا ہے ۔۔۔ اور ایسا کرنے سے ایمان روکتا رہا ہے ۔۔۔۔ اب کیا کیا جائے ۔۔ قوم کی بچی کچی اکثریت کے پاس اس رسہ کشی سے بچنے کا کوئی حل نہیں ۔۔ بس کھینچتے رہیے جب تک ڈور بندھی ہے ۔۔۔۔ ٹوٹتے ہی سارے مسئلہ حل ہوجاتے ہیں ۔ ہاں حساب کتاب کا مسئلہ تو پھر بھی باقی رہتا ہے ۔ لیکن حساب کتاب سے بچنے کے لئے تو دین میں سب کچھ ہے نا ۔۔۔کیا کہتے ہیں اسے ۔۔؟

ہم نے پوچھا حضور ہتھیلی میں جنت کون دکھا رہا ہے؟
فرمایا۔۔۔۔
ہم عرض کر چکے ہیں کہ جو کچھ بھی دکھایا جارہا ہے وہ ٹی وی میڈیا کے طفیل ہی دکھایا جارہا ہے۔ آج کل مودی کے بارے وہ سب کچھ دکھایا جا رہا ہے جو میڈیا چاہتا ہے، لیکن وہ سب کچھ نظر آجاتا ہے جو وہ دکھانا نہیں چاہتا۔ ہم نے پوچھا جیسے وہ کیا دکھانا نہیں چاہتا؟ فرمایا۔ مودی کو گجرات کا دجال بنا کر دکھانا نہیں چاہتا لیکن سچ تو نظر آ ہی جاتا ہے، مسلمان قوم میں موجود مادیت پرست، گدی نشین و دستار بند، داخلی و خارجی سیاہ و سفید پوش، روحانیت سے عاری ادب نواز اور علم دوست، معاشی انحطاط سے پریشان زردار اور گرانی سے ہارے تاجرسب ملکر اس دجال سے جنت مانگنے نکلے ہیں، دنیاوی جنت۔۔ وہ ایک ہاتھ میں جنت دکھا رہا ہے اور دوسرے ہاتھ میں جہنم جو چند احمق مسلمانوں کو نظر نہیں آتی ۔ بلکہ جسے وہ جنت بنا کر دکھا رہا ہے وہ بھی دراصل جہنم ہی ہے۔
بی جے پی میں شامل مسلم رہنماؤں کا حال دیکھیے ، پھر چاہے وہ شاہنواز ہو یا نقوی یا نجمہ، سب کے سب بقول کجریول سیاسی دلال ہیں ۔۔۔ توبہ ہے کیسے کیسے نازیبا القابات سے اس نے سیاستدانوں کو نوازا ہے ۔ ان کے نام سن کر ہی زبان پر لاحول آجا تا ہے اور انہیں دیکھ کر ہول اٹھتا ہے ۔ یہی حال کچھ کانگریس میں شامل مسلم رہنماؤں کا ہے ۔ لیکن قوم کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ وہ اس دجال کے ہاتھوں دنیاوی یا اخروی کسی بھی جنت کی روادار نہیں ۔ ابھی اس قوم کی اکثریت کا ایمان اتنا کمزور بھی نہیں ہوا ہے کے وہ اس دجال کی مکاری کو سمجھ نہ سکے۔ یہ اکثریت نیم جاہل ہی سہی لیکن ایمان سے حاصل شدہ حکمت ضرور رکھتی ہے، اور ان حضرات کی طرح اپنا رد عمل پیش نہیں کرتی ہے جو احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، اور جو اس دجال کی حمایت میں مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر کبھی رجھانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی مستقبل کے ڈراونے خواب دکھا کر ڈرانے کی، کبھی سمجھوتوں کی دہائی دیتے ہیں تو کبھی عقل کے ناخن لینے کی مثال۔
انہیں علم نہیں کہ عقل کے ناخن سے ایمان متزلزل نہیں ہوا کرتے۔ بھلے ہی انفرادی طور پر ایمان کمزور ہو لیکن قوم کی اکثریت کا اجمالی ایمان بہت طاقتور ہوتا ہے، جس کا مظاہرہ بناؤ اور بگاڑ میں الجھی قوم نے حال ہی میں کیا ہے، جب ایک فلمی اداکار کی اس دجال کے ساتھ قربت میڈیا میں دکھائی گئی ۔ وہ مشہور فلمی اداکار جو قوم و ملت کی احمقانہ چاہتوں اور فلمی جنون سے کروڑوں روپے اینٹھ رہا تھا، اور کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر پھولے نہیں سماتا تھا، اس دجال کے قصیدے پڑھنے کی سزا بھگت چکا ہے، اور اپنی کامیابیوں کا بیڑہ غرق کر چکا ہے۔ ہندوستان کی فلمی سیاست کی تاریخ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ قوم کی اجمالی ایمانی قوت کے سامنے اس اداکار کی کیا اوقات ہوگی جو ٹھمکے لگا کر اور ناچ گا کرفنون لطیفہ کے نام پرقوم و ملت کا کروڑوں روپیہ اینٹھ لیتا ہے ، اور پھر زندگی کے سارے عیش حاصل کر ایک کثیر رقم غریبوں اور ناداروں میں بانٹ کر اگلی کامیابی کی تیاری میں لگ جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی مسلمان اداکار ، بھانڈ اور ناچنے گانے والے ہوئے ہیں جنہوں نے اسی رابن هوڈ طرز پر سیاسی پارٹیوں سے مل کر اپنا الو سیدھا کیا تھا، لیکن قوم نے انہیں انکی مکاری اور غداری کی سزا بھی خوب دی تھی، اور جن میں وہ مسلمان فلمی اداکار بھی شامل تھا جسے شہنشاہ جذبات کہا جاتا ہے، گرچہ ایک عرصہ بعد انکے جذبات قابو میں آگئے تھے۔
اہل ایمان تعصب سے پاک غیر مسلم بھائیوں سے انسانیت اور محبتوں کے رشتوں میں ہمیشہ بندھے رہے ہیں لیکن اسلام اور مسلم دشمنوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا کرتے ہیں، اور اس ضمن میں یہ کسی مسلمان سخی داتا کی سخاوت کو جوتوں کی نوک پر رکھتے آئے ہیں، انکا یہ یقین کامل ہے کہ یہ کارخانہ حیات سخی داتاؤں اور بھانڈوں کی سخاوت سے نہیں چل رہا ہے بلکہ خالق حقیقی ہی اسے چلا رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج یہ میڈیا، یہ سیاسی پارٹیاں، یہ قوم و ملت کے غدار، یہ فلمی اور سیاسی کردار۔۔۔یہ سب اس قوم کو کب کا برہنہ کرچکے ہوتے، بھوکا تو کر چکے ہیں ننگا بھی کردیتے، پوری قوم کو اشتہاری ملزم تو بنا چکے ہیں عدالتی مجرم بھی بنا دیتے ۔ قوم من جملہ اب بھی حبل الله کو تھامنے کی کوشش میں رہتی ہے، ہاں کبھی کبھی وہ دونوں ہاتھوں کی پکڑ مضبوط نہیں رکھتی ہے اور ایک ہاتھ چھوڑ بھی دیتی ہے، لیکن دونوں ہاتھ چھڑا کر وہ مادیت پرستی کے جہنم میں گرنے کے لئے تیار کبھی نہیں ہوئی ہے۔ یہ بھی خالق حقیقی کی اسکے بندوں پر نوازش ہی ہے ۔
الله تعالی تمام عالم انسانی پر رحم فرمائے اور سیاست غلیظہ کے عذاب سے سب کو دور رکھے ۔

***
Zubair H Shaikh
zubair.ezeesoft[@]gmail.com

A paradise in the palm. Article: Zubair H Shaikh

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں